معاشی ترقی کا تصور ایک دھوکہ ہے


ایاز امیر صاحب نے کچھ عرصہ قبل اپنے کالم میں فرمایا تھا کہ دنیا کو کچھ آہستہ ہونا چاہیے۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت مشاہدہ تھا اور یقیناً دنیا کے مسائل اس رفتار کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ مشہور فرانسیسی فلاسفر برونو لاٹور نے 1988 میں کہا تھا کہ نوع انسانی کے لئے بڑا اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ماڈرن ہوا جائے (یعنی ترقی کی جائے ) یا ایکولوجائز کیا جائے یعنی کہ ماحولیاتی ہم آہنگی پیدا کی جائے۔

یہ سوال آخر کیوں پیدا ہوا کہ دونوں میں سے ایک ہی چیز کا انتخاب کیا جا سکتا ہے؟ کچھ مفکرین اس کی بڑی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کو قرار دے رہے ہیں جو کہ ان میں سے صرف ایک چیز کے انتخاب کی گنجائش دیتا ہے۔ چونکہ پچھلے دو تین سو برس میں دنیا مکمل طور پر اس نظام کے پنجے میں آ چکی ہے لہذا اب دنیا اس ”ترقی“ کے راستہ پر گامزن ہے جو کہ بظاہر خوبصورت اور دلکش ہے لیکن اس کا انجام ماحولیاتی تباہی اور نوع انسانی کا شاید خاتمہ ہے۔

سرمایہ داری نظام کے مشہور مورخ ایرک ہوبسوام نے اپنی تمام ریسرچ کا خلاصہ اپنی زندگی کے اختتام پر 2011 میں ان الفاظ میں دیا کہ سرمایہ داری نظام (جو کہ زیادہ سے زیادہ معاشی بڑھوتری کو زیادہ سے زیادہ منافع کے لئے زور دیتا ہے ) اور ماحولیاتی آلودگی میں کمی لانے (اور نوع انسانی کا مستقبل بچانے ) کی کوششوں میں بنیادی اختلاف اور مقابلہ ہے، یہ دونوں اکٹھے نہیں چل سکتے۔

جب علما حضرات سود (جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کا منبع ہے ) کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو دلی طور پر تمام خاص و عام سمجھتے ہیں کہ اس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ موجودہ اسلامی بنکاری نئی بوتل میں پرانی شراب ہے۔ صارف گاڑی بنک سے خرید کر سود کے ساتھ ماہانہ قسط بھرے یا ماہانہ کرایہ دے اور پانچ سال کا کرایہ ادا ہونے کے بعد بنک وہ گاڑی اس کو تحفے میں دینے کا وعدہ کرے، ایک ہی چیز ہے۔ گلاب کا نام جو بھی رکھ دیں وہ گلاب ہی رہے گا۔

لیکن کچھ یورپی مفکر جو کہ اب معاشیات کے طبقہ فکر ایکولوجیکل اکنامکس کے تجویز کنندہ اور مفکر ہیں، کافی عرصہ سے سودی نظام کا متبادل تجویز کر رہے ہیں (جس میں مارکسزم اور کمیونزم پہلے آ چکے ہیں ) جسے پہلے تو ناممکن قرار دے کر رد کر دیا جاتا رہا ہے لیکن اب بڑھتے ہوئے ماحولیاتی مسائل اور دنیا بھر میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی بے چینی اور غصہ کی وجہ سے توجہ ملنا شروع ہو گئی ہے۔ مفکرین کا یہ مکتبہ فکر اس سوچ کو ڈی گروتھ یا بڑھوتری معکوس کہتا ہے۔

بنیادی طور پر ڈی گروتھ اسی سوچ کی ایک لڑی ہے جسے تمام مذاہب اور ان سے پہلے کے یونانی فلاسفر بیان کرتے رہے ہیں۔ ڈی گروتھ کا مکتبہ فکر ایک ایسے پورے نظام کا خاکہ دیتا ہے جو کہ اس سودی نظام کو تبدیل کر سکتا ہے اور ماحول کو تباہی سے بچانے کے ساتھ ساتھ ذہنی اور جسمانی آسودگی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ تب ممکن ہے کہ مجموعی طور پر انسانی سوچ تبدیل کی جائے کہ وہ زندگی سے کیا چاہتے ہیں۔ ڈی گروتھ کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ معاشی بڑھوتری یا گروتھ ایک غلط ہدف ہے جو کہ سودی سرمایہ کاری نظام نے ہمیں اس قدر سکھا دیا ہے کہ ہمیں اس کے علاوہ زندگی کو کوئی مقصد سمجھ نہیں آتا۔

اسی طرح ”ترقی“ یا ڈویلپمنٹ ایک غلط سوچ ہے کیونکہ جس عمل کو ہم ترقی کا نام دے رہے ہیں اس کی قیمت زمین کا ماحول ادا کر رہا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد اس قیمت کو ادا کرنے کی طاقت اس میں ختم ہو جائے گی اور یہی نام نہاد ترقی نوع انسانی کو تباہ کر دے گی۔ ڈی گروتھ کے تجویز کنندہ معاشی گروتھ یا بڑھوتری کو نا انصافی سمجھتے ہیں اور (اس کے نقصانات کی وجہ سے اسے ) غیر معاشی سمجھتے ہیں کیونکہ گروتھ کو ماحول برداشت نہیں کر سکتا اور یہ اپنے مسائل کی وجہ سے کبھی کافی نہیں ہو سکتی اور اب یہ زیادہ عرصہ بڑھائی بھی نہیں جا سکتی کیونکہ زمین کے خزانے، جن کی قیمت پر یہ بڑھائی جا رہی ہے، اختتام پذیر ہیں۔

آپ جو ٹی وی چینل دیکھیں یا اخباری رپورٹ پڑھیں، ماہرین معاشیات آپ کو جی ڈی پی گروتھ کی باتیں کرتے نظر آئیں گے کیونکہ اس بات پر ہر ماہرین معیشت کے تقریباً تمام طبقہ فکر کا اجماع ہو چکا ہے کہ گروتھ تو ہونی چاہیے۔ آبادی بڑھ رہی ہے لہذا اگر گروتھ نہیں ہو گی تو مسائل بڑھیں گے اور لوگ غریب سے غریب تر ہوں گے۔ ایکولوجیکل اکنامکس کے ماہرین معاشیات اسی بات کی شکایت کر رہے ہیں کہ یہ بحث ہی ختم کر دی گئی ہے کہ ہمیں گروتھ چاہیے بھی کہ نہیں کیونکہ سرمایہ داری نظام کا دنیا پر قبضہ ہو چکا ہے اور سرمایہ داری نظام بغیر گروتھ کے نہیں چل سکتا۔

اگر گروتھ نہیں ہو گی اور سرمایہ پر منافع میں کمی بھی نہیں آنے دینی تو مزدوروں کا استحصال بڑھانا پڑے گا۔ یہ چیز بھی بہت زیادہ عرصہ نہیں چل سکتی کیونکہ پھر وسائل کی دوبارہ تقسیم کے اختلافات شروع ہو جاتے ہیں اور محروم طبقہ نظام سے متنفر ہو کر باغی ہونا شروع ہو جاتا ہے اور فساد شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ امیر اپنی دولت اور طاقت سے ہرگز محروم نہیں ہونا چاہتے اور وہ جبر و تسلط کے ذریعے اپنی دولت کا دفاع کرتے ہیں۔

اگر سرمایہ داری نظام نے برقرار رہنا ہے اور اپنا تسلط قائم رکھنا ہے تو گروتھ تو چاہیے۔ بیسویں صدی کی جنگ عظیم اول اور دوم اور فاشزم کی مقبولیت بھی اس دور میں گروتھ میں کمی کا شاخسانہ تھی اور آج کے دور میں جیسے ہی مغرب میں گروتھ رک رہی ہے، نو فاشزم اور دائیں بازو کی سوچیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ، نریندرا مودی اور بورس جانسن جیسے لیڈروں کی مقبولیت، گروتھ میں کمی اور اس سے عوام کے مسائل میں اضافہ بتائی جا رہی ہے جو ان کو معتدل مزاج لیڈروں سے دور کر رہی ہے۔

دنیا پھر ایک بار جنگ و جدل کی طرف بڑھ رہی ہے کیونکہ معاشی گروتھ میں کمی واقع ہو رہی ہے اور اب دنیا کی حالت اس شخص کی سی ہے جس نے بھیڑیے کو کان سے پکڑ لیا تھا۔ اب وہ نہ اس کو چھوڑ سکتا تھا کہ بھیڑیا اس کو کھا جائے گا نہ ہی پکڑے رکھ سکتا تھا کہ زیادہ دیر تک کان سے پکڑ کر بھیڑیے کو قابو رکھنا ممکن نہیں۔ اب نہ ہی گروتھ بڑھ رہی ہے کیونکہ زمین کے خزانے کم ہوتے جا رہے ہیں اور نہ ہی اسے چھوڑا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام میں کچھ گنجائش ہی نہیں رہی اور گروتھ کی کمی فساد کا شاخسانہ ہے۔

ترقی کے ماحولیاتی مسائل سے سرمایہ داری نظام کے علمبردار بھی آگاہ ہیں اور اسی سلسلے میں sustainable development یا قابل برداشت ترقی کا تصور دیا گیا ہے جس پر اقوام متحدہ تک کے تمام عالمی ادارے کوشش کر رہے ہیں۔ ڈی گروتھ کے ماہرین اس پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ یہ تصور گروتھ کے متبادل مستقبل طے کرنے کی گنجائش ختم کر دیتا ہے جو کہ ایک سیاسی فیصلہ ہے اور اس کو ایک تکنیکی فیصلہ میں بدل دیتا ہے کہ ترقی تو ہونی ہے لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے ایسے طریقے ڈھونڈے جائیں جو کہ ماحول پر کم از کم اثر انداز ہوں لیکن ابھی تک سائنسدان اس میں اس لیے کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ یہ ناممکن ہے۔

ماڈرن ترقی توانائی سے ہی ممکن ہے اور یہ یا تو زمینی فوسل فیولز یعنی کوئلہ اور تیل وغیرہ سے مل سکتی ہے یا سورج سے آ رہی ہے اور سورج کی ای آر او آئی (انرجی ریٹرن اوور انرجی انویسٹمنٹ) یعنی کے توانائی کے خرچ بمقابلہ توانائی کا حصول فوسل فیولز سے بہت کم ہے اور اتنی بڑی معیشت سورج سے حاصل کردہ توانائی سے کھڑی ہی نہیں کی جا سکتی۔ مثلاً انٹرنیٹ اور اس سے منسلک کاروبار بے تحاشا توانائی خرچ کرتے ہیں اور مشینی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جنس بہت چھوٹے کام کے لئے بہت زیادہ توانائی مانگتی ہے۔ مثلاً ایک چھوٹی سی یو ٹیوب ویڈیو دیکھنے پر پورے انٹرنیٹ میں اتنی بجلی خرچ ہوتی ہے جتنی میں ایک گھنٹہ ویکیوم کلینر چلایا جا سکتا ہے۔

ڈی گروتھ کے مطابق ہمارا مستقبل ماحول سے ہم آہنگ سبز ترقی کی بجائے ایک مکمل طور پر ایک مختلف سمت میں جانا چاہیے جس میں گروتھ اور ترقی کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ سیاست کو سائنس کے ذریعے محدود کرنے کی بجائے، سائنس کو سیاست کی مدد کے لئے لایا جائے۔ ہم نے زندگی کیسے گزارنی ہے، یہ فیصلہ سیاسی ہونا چاہیے نا کہ تکنیکی کہ ائر کنڈیشنز تو چلانا ہے لیکن انورٹر بہتر ہے۔ ترقی کے ان مسائل سے مفکرین اور سمجھدار لوگ ہمیشہ سے آگاہ ہیں اور اس بات کا استفسار کرتے رہے ہیں کہ ترقی برائے ترقی پیندے کے بغیر بالٹی ہے جو کبھی نہیں بھرے گی۔

کرشن چندر کا شہرہ آفاق افسانہ الٹا درخت بھی ایک درخت پر موجود طلسم ہوشربا کی داستان ہے جو کہ بجائے آسمان کی طرف جانے کے، زمین میں دھنسا جا رہا تھا اور جب کہانی کے ہیرو کو بزرگ اس زمین کے سوراخ کو بند کر کے تمام لالچی لوگوں کو درخت سمیت دفن کرنے کا کہتا ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ اس درخت کی تو چوٹی میں نے نہیں دیکھی جس پر وہ بزرگ کہتا ہے کہ یہ ترقی کا درخت ہے اور اس کی چوٹی آج تک کسی نے نہیں دیکھی۔ اور بعد میں کرشن چندر اس بزرگ کا تعارف تاریخ کے طور پر کرواتے ہیں اور تاریخ ہمیشہ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ترقی کا کوئی انجام نہیں اور اسے دفن کر دینا ہی بہتر ہے۔

اب چونکہ انسان اپنے ذاتی مفاد میں قدرت کو قربان کردینے کے درپے ہے تو قدرت بھی مختلف طریقوں سے جواب دے رہی ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلنے سے سرمایہ داری نظام کو رکاوٹیں پیش آئیں ہیں تو ماحولیاتی آلودگی میں واضح کمی واقعہ ہوئی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی چھ مارچ کی رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران چونکہ لوگ اپنے گھروں میں زیادہ وقت گزار رہے تھے لہذا تیل کے استعمال میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے اور تیل کا جلانا، آلودگی کا بڑا حصہ ہے۔

اس کے علاوہ کہیں طوفانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے تو کہیں اور مختلف قسم کی آفات جیسا کہ جنگل کی آگ وغیرہ بڑھ رہی ہیں۔ کرونا وائرس کا عالمی معیشت اور نوع انسانی کو شدید نقصان لیکن ماحول کو فائدہ ہو رہا ہے کیونکہ جوں جوں معاشی ترقی ہو گی ماحول تباہ ہوتا جائے گا۔ کم از کم جب تک سرمایہ داری نظام کا اس دنیا پر تسلط قائم رہے گا، ماحول کی تباہی کا عمل جاری رہے گا۔

گزشتہ معاشروں کے ماہرین جو کہ انتھرو پالوجسٹ کہلاتے ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایسا بالکل ممکن ہے کہ بغیر ترقی کیے زمین پر وقت گزارا جائے کیونکہ اس زمین پر نوع انسانی کی ڈھائی لاکھ سالہ تاریخ میں پہلے دو لاکھ چالیس ہزار سال اسی طرح گزرے ہیں۔ آج سے دس ہزار سال قبل کاشتکاری کے آغاز پر انسان نے ماحول سے ہم آہنگی چھوڑی اور اس کو اپنے تابع کرنے کی کوشش شروع کی۔ اب تک انسان کی تقریباً بارہ ہزار پانچ سو نسلیں گزر چکی ہیں اور ان میں بارہ ہزار نسلوں نے زندگی بالکل ویسے گزاری جس طرح ان کے آبا و اجداد گزارا کرتے تھے اور یہ ترقی نامی چیز صرف آخری پانچ سو نسلوں میں آئی اور ان میں بھی صحیح طور پر ان آخری دس نسلوں میں آئی جو سرمایہ دارانہ نظام کے زیر سایہ صنعتی انقلاب میں پروان چڑھیں اور دنیا صرف ان دس نسلوں کی ترقی کی کوششوں سے تباہ ہو رہی ہے۔

آج بھی بہت سارے افریقی افراد صرف جینے اور فراغت کا مزہ لیتے ہیں اور ترقی برائے ترقی کی دوڑ میں مال جمع کرتے کرتے زندگی نہیں گزارتے۔ ہم انہیں بے وقوف سمجھتے ہیں کہ وہ جب تک پہلے کمایا ہوا خرچ نہیں ہو جاتا کام پر نہیں نکلتے اور وہ ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں جو ایسے مستقبل کی فکر میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں جو کسی نے نہیں دیکھا اور مال جیب میں ہونے کے باوجود کام کرتے جاتے ہیں اور مال چھوڑ کر آخرکار اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔

ان مسائل پر قابو اب ڈی گروتھ سے ہی پایا جا سکتا ہے جس میں نہ صرف معیشت کو چھوٹا کرنا پڑے گا بلکہ اس کو نئے طریقوں سے استوار کرنا پڑے گا کیونکہ سرمایہ دار معیشت کو اسی نظام میں رہتے ہوئے چھوٹا کرنا فساد کو دعوت دینا ہے۔ سرمایہ داری نظام ذاتی ملکیت کی پرستش، کارپوریشن، تنخواہ کی غلامی، قرضہ اور سود کے اداروں پر مشتمل ہے اور یہی اس کو قائم رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ ڈی گروتھ کے مفکرین کے نزدیک اگر ہم نے سیاسی طاقت ان ساہوکاروں سے چھین کر ایسے معاشرے کی بنیاد نہ رکھی جو ”کم“ پر مطمئن ہو جائے، روپے پیسے کی دوڑ سے باہر نکلے اور بجائے انفرادیت کے، اجتماعیت پر زور دے، تو نوع انسانی کا اس کرہ ارض پر بہت زیادہ عرصہ قیام ممکن نہ رہے گا۔

اگر ہم نے کنزیومر ازم کی دوڑ نہ چھوڑی اور ماحولیاتی تبدیلی کی واپسی کا سفر نہ شروع کیا تو آنے والی نسلیں صرف تباہی دیکھیں گی۔ ڈی گروتھ کا مطلب اپنی زندگی میں صرف آرام اور آسائش کی قربانی دینا نہیں بلکہ کاموں میں شراکت، چیزوں کے استعمال میں کمی، اور وقت اچھے اور تعمیراتی مقاصد (جیسا کہ آرٹس، میوزک، خاندان، قدرتی ماحول، کلچر اور کمیونٹی) میں وقت کا استعمال کرنے میں ہے۔ ایک نیا طرز زندگی بنانا اور مقبول کرنا پڑے گا لیکن یہ سب مانتے ہیں کہ انقلاب کے بغیر سرمایہ داری نظام کے علمبرداروں سے سیاسی طاقت چھیننا ممکن نہیں کہ ڈی گروتھ پر عمل پیرا ہوا جا سکے۔ اب کیا ایسا ممکن ہو سکے گا اور معاشی ترقی کے دجال پر کوئی قابو پا سکے گا؟ اس کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments