اقدس روشن بین ۔۔۔ ایک روشن دن کے اختتام پر لکھی سطریں


یہ کہانی ہے اقدس روشن بین کی۔ حیدر علی ایران کے شہر قزوین کے معروف ڈاکٹر تھے۔ اقدس، حیدر علی اور صفیہ کے سات بچوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ تین بہنوں اور چار بھایئوں کے ساتھ بچپن گذرا۔ حیدر علی بچوں کی تعلیم پر شدید زور دیتے رہے۔ ان کا شوق اور امید تھی کوئی ایک بچہ ان کے نقش قدم پر چلتا ہوا ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرے۔
اقدس پڑھائی میں اپنے بھائی بہنوں میں سب سے زیادہ تیز تھی۔ حیدر علی نے بھی اپنی پوری توجہ اس پر رکھ دی۔ اجل کو جلدی تھی اور ڈاکٹر حیدر علی جوانی میں صفیہ کو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ دنیا سے لڑنے کو تنہا چھوڑ گئے۔ صفیہ نے رونے دھونے اور سینہ کوبی کرنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے غور کرنا شروع کیا کہ اب خود کو اور ان سات بچوں کو کیسے سنبھالیں۔ قزوین کا بڑا سا گھر اور ڈاکٹر کی کلینیک فروخت کر کے تہران میں ایک تین منزلہ گھر خریدا۔ نیچے کا پورشن اپنے لیئے اور باقی دو منزلوں میں اسٹوڈنٹس کا ہوسٹل بنا دیا۔ ایران کے مختلف شہروں سے طالب علم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آتے سب کو یونیورسٹی کے اپنے ہوسٹل میں جگہ نہیں مل سکتی تھی۔ صفیہ کا یہ ہوسٹل بہت کامیاب رہا۔ اپنی اور بچوں کی باعزت اور معیاری زندگی گذارنے کے اسباب ہو گئے۔
اقدس بھی اپنی تعلیم کے مراحل بخوبی طے کر رہی تھی۔ اس نے اپنے بابا کو خواب پورا کرنے کی ٹھانی ہوئی تھی۔ بڑے دو بھایئوں نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کر کے کاروبار شروع کر دیا۔ اپنی مرضی سے شادیاں کیں۔ بہنوں میں سے ابھی کسی کی شادی نہ ہوئی تھی۔
چودہ سالہ خوبصورت اقدس کو اسکول جاتے آتے دیکھ کر محلے کے ایک متمول گھرانے کا لڑکا احمد اس پر عاشق ہو گیا اور رشتہ بھیج دیا۔ اقدس نے پرزور احتجاج کیا۔ روئی، مچلی لیکن صفیہ نے اپنے مشکل حالات دیکھتے ہوئے اس رشتے کو قبول کر لیا۔ اور دو بڑی بہنوں کے ہوتے ہوئے بھی اقدس کو بیاہ دیا گیا۔
اٹھارہ سالہ خوبصورت نوجوان احمد ایک خوابوں میں رہنے والا شخص تھا۔ گھر والوں نے اسے ذمہ داری سکھانے کی خاطر اسے فوج میں بھرتی کروا دیا۔ پھر اس کی شادی کی ضد بھی مان لی۔ روتی بلکتی اقدس سسرال آ پہنچی۔ ازدواجی زندگی کے فرائض اور ذمہ داری سے ناآشنا ڈری سہمی رات ہوتے ہی ساس کے کمرے میں آجاتی کہ مجھے اپنے پاس سلا لو مجھے وہاں نہیں جانا۔ ساس سمجھا بجھا کر اسے کمرے میں بھیجتیں اور اسے جانا ہی پڑتا۔ پندرہ سال کی عمر میں بیٹی کی ماں بن گئی۔ اور اگلے برس بیٹا بھی گود میں آ گیا۔ احمد کی تبدیلی تہران سے سنندج جیسے خشک اور ویران شہر میں ہو گئی۔ اقدس کا دل ہی نہ لگا۔ احمد فوج کی نوکری جیسے تیسے کرتا رہا لیکن یہ اس کی طبیعت سے میل نہیں کھاتی تھی۔ شوق بھی کئی اپنا رکھے تھے۔ ساز بجانے کا، مصوری کا، شاعری کا۔ اقدس کا سارا وقت گھر اور بچے سنبھالنے میں گذرتا۔ احمد رات گئے گھر لوٹتا اور اپنے مشاغل میں لگ جاتا۔ لاڈلا اور نازوں میں پلا تھا مزاج میں گرمی بھی تھی۔ ذرا ذرا سی بات پر طیش میں آجاتا اور ہاتھ بھی اٹھ جاتا۔ اس کے علاوہ مزاج میں عاشقی بھی تھی۔ دل کہیں اور بھی پھینک آیا۔ اقدس کی زندگی میں مزید تلخی گھل گئی۔

خانم جون – (1974)

نوروز کی چھٹیوں میں اقدس بچوں کو لے کر ماں کے پاس آئی تو واپس جانے سے انکار کر دیا۔ احمد نے بھی طلاق دینے میں دیر نہیں کی نہ دوسری شادی کرنے میں۔ بچوں کا بٹوارا ہو گیا۔ بیٹی باپ کے پاس اور بیٹا ماں کے پاس۔ اقدس نے وقت ضائع کیے بغیر اسکول میں داخلہ لے لیا۔ ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے کام بھی کرتی رہی۔ بیٹے کو نانی سنبھالتی۔ ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد اقدس نے اپنے بابا کا خواب پورا کرنا چاہا۔ میڈیکل میں داخلہ بھی ہو گیا۔ لیکن گھر کے مالی حالات اتنے مستحکم نہ تھے۔ دو سال بعد اسے چھوڑنا پڑا۔ ایک ڈاکٹر کی کلینیک میں کام مل گیا۔ دو سالہ میڈیکل تعلیم کام آئی۔ انجکشن لگانا، ڈرپ چڑھانا، بلڈ پریشر لینا، مرہم پٹی کرنا آ گیا تھا۔ ساتھ ہی زچہ بچہ کی دیکھ بھال بھی کر لیتی تھی۔
زندگی کی گاڑی چلتی رہی۔ دونوں بچے ایک دوسرے سے دور پلتے رہے۔ پھر احمد کا ٹرانسفر دوبارہ تہران میں ہو گیا۔ اب بھائی بہن کبھی کبھار ملتے۔ اقدس کی دونوں بڑی بہنوں کی بھی شادیاں ہو گیں۔ اقدس کے ایک سال بڑے بھائی کو ایک لڑکی سے محبت ہوئی اور شادی کر لی۔ لڑکی کا باپ نودرات اور قالینوں کا کروبار کرتا تھا۔ بھائی کو بھی اس کام کی سدھ بدھ ہو گئِی۔ اقدس کی بھی اپنی بھابی سے بکی دوستی ہو گئی اور ساتھ ہی نوادرات کی پہچان بھی سیکھ لی۔ اسے اس کام میں بے پناہ دلچسپی پیدا ہو گئی۔ بھائی اور اس کی بیوی لندن چلے گئے جہاں انہوں نے نودرات اور قالینوں کی ایک چھوٹی سی دوکان کھول لی۔ ایران سے قالین منگوانے کے لیئے انہیں ایک بندا چاہیئے تھا جس پر اعتماد بھی ہو اور اسے قالینوں کی پہچان بھی ہو۔ اقدس اس کام کے لیئے موزوں ترین تھی۔ وہ صبح اپنے کام پر جاتی، گھر آتی، پھر شام کو دوبارہ قالینوں اور نودرات کی تلاش میں تہران کے مشہور بازار “نادری” میں گھومتی۔ کچھ اسے بھائی اور بھابی نے سیکھایا کچھ خود اس میں قابلیت آ گئی ، نوادرات کو پہچاننے کا گر آ گیا۔ دست باف قالینوں کی بہت مانگ تھی۔ وہ دیکھ کر بتا سکتی تھی کہ قالین کتنا پرانا اور اس کی بافت کیاں کی ہے۔ قالین جتنا پرانا ہو اس کی قدر اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ اقدس نے اس کام میں مہارت حاصل کر لی۔ پرانے شاہوں کی زمانے کے چاندی کے برتن، سینیاں، پیالے، سماوار، منقش گلاس اور پینٹینگز غرض ہر انوکھی اور نایاب چیز اقدس کی نگاہیں پہچان لیتیں۔
صفیہ نے سوچا اپنی زندگی میں بچوں کو ان کا حصہ دے دے۔ گھر بڑا تھا اچھے داموں بک گیا۔ سب کو دے کر ایک حصہ صفیہ نے اپنے لیئے رکھا۔ بنک میں رکھوا کر مہینے کی آمدنی ہونے لگی۔ اقدس نے بھی ایک چھوٹا سا فلیٹ خرید لیا۔ اقدس کی ایک بڑی بہن جلد ہی بیوہ ہو گئی اور بے اولاد رہی وہ اقدس کے پاس آ گئی۔ صفیہ اپنے سب سے بڑے بیٹے کے پاس منتقل ہو گئی۔ بچے بڑے ہو رہے تھے۔ اقدس کی بیٹی ایک بار ملنے آئی تو اس نے بھی واپس باپ کے پاس جانے سے انکار کر دیا کہ سوتیلی ماں کا رویہ ٹھیک نہیں تھا۔ اس کے اپنے تین بچے ہو گئے تھی سوتیلی بیٹی کا وجود کھٹکتا تھا۔ احمد کو بھی کچھ خاص پرواہ نہ تھی۔ اب اقدس پر دونوں بچوں کی ذمہ داری آن پڑی جو اس نے بڑی خوبی سے نبھائی۔ کلینیک کی نوکری چھوڑی ِ کیونکہ بزنس کے لیئے پوری توجہ اور پورا وقت درکار تھا۔

1977 – ہماری شادی پر

نودرات کا بزنس خوب چمکا اور اب اقدس کے لندن کے پھیرے بھی لگنے لگے۔ ایک دو بار جاپان بھی گئی اور وہاں سے بھی نادر چیزیں خرید لائی۔ دونوں بہن بھائی اور اس کی بیوی نے جی جان سے محنت کی۔ آمدنی بھی خاطرخواہ ہونے لگی۔ اقدس کو اپنی پڑھائی نامکمل رہ جانے کا بہت افسوس تھا۔ اس نے بچوں کو اعلی تعلیم دلانے کا تہیہ کیا۔ دونوں بچے ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد انہیں بیرون ملک مزید پڑھائی کے لیئے بھیج دیا۔ بیٹے نے لندن میں داخلہ لے لیا اور ساتھ ہی اپنے ماموں اور ماں کے بزنس میں بھی ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔
اقدس نے اب ریئل اسٹیٹ میں دلچسپی لی۔ گھر خریدے، بیچے، زمین لے کر فلیٹس بنوائے اور کرائے پر چڑھائے۔ اپنے لیے بھی ایک بڑا سا گھر بنوایا۔ اس کی زندگی میں خوشحالی آ گئی۔ صفیہ اب عمر رسیدہ ہو چکی تھی۔ ایک دن گر گیں کولہے کی ہڈی ٹوٹی اور عمر بھی کے لیئے معذور ہو گئی۔ بڑے بھائی کچھ کچھ برادران یوسف کی شکل اختیار کر گئے۔ صفیہ نے اپنی رقم بنک سے نکال کر بیٹوں کے حوالے کر دی لیکن معذور ماں کو بیٹوں کے لیئے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ اقدس ماں کو اپنے پاس لے آئی۔ اور بیوہ بہن کے ساتھ معذور ماں کی ذمہ داری بھی اقدس نے اپنے سر اٹھا لی۔ تیسے نمبر کا بھائی نشے کی لت میں مبتلا ہو گیا۔ خاندان کے سب لوگوں نے اس سے قطع تعلق کر لیا۔ وہ نوکری بھی کر نہیں سکتا تھا۔ اقدس نے اسے ایک فلیٹ لے کر دیا اور اپنے ساتھ کام پر بھی لگایا لیکن وہ کام نہیں کر سکا۔ اقدس نے اس کا ماہانہ خرچا لگا دیا۔ اور باقاعدگی سے اس سے ملنے جاتی اور کھانے پینے کا سامان لے جاتی۔ دو بار اسے علاج کے لیئے خاص کلینک میں داخل کرویا دونوں بار وہ باہر آ کر پھر اس لت مییں لگ گیا۔ کچھ سال بعد اوور ڈوز سے فوت ہو گیا۔
اقدس کو باغبانی کا بہت شوق تھا۔ تہران سے دور “کرج” نامی شہر میں ایک پھلوں کا باغ خریدا اور ایک باغبان کی مدد سے اس میں مزید درخت اور سبزیاں لگایں۔ ایک ایک پودے کی آبیاری کی۔ ہر ویک اینڈ وہاں جاتی اور لطف اندوز ہوتی۔ درختوں میں ڈھیروں پھل لگتے۔ سبزیاں الگ بہار پر آتیں۔ اقدس انہیں توڑتی اور اپنے سارے بھائی بہنوں، دوستوں اور دیگر رشتے داروں کو پہنچاتی۔
ایران کے انقلاب نے ہر تجارت اور درآمد برآمد کو نقصان دیا۔ اقدس کا بزنس بھی متاثر ہوا۔ لیکن اب اقدس خود بھی اتنا کام کرنا نہیں چاہتی تھی۔ اپنی پرانی شیورلٹ میں گھومتی۔ گاڑی بہت آہستہ چلاتی۔ پیچھے آنے والے تنگ آ کر ہارن دیتے وہ سنی ان سنی کر کے اسی اسپیڈ پر چلتی جاتی۔ کسی کے بقول ہم پیدل جاتے تو شاید جلد تر پہنچ جاتے۔
دونوں بچوں کی شادیاں ہو گیں اب وہ نانی دادی بن گئی۔ ایران والا بھائی بیمار ہو گیا۔ اقدس اس کی تیمارداری کو پہنچ گئی۔ بھائی فوت ہو گیا بیوہ بھابی سے تعلق اور رابطے برقرار رکھے۔ بزنس بالکل ختم ہو گیا۔ لیکن اقدس کے پاس اتنا تھا کہ باقی زندگی آرام سے گذر سکتی تھی۔

بیٹے اور پوتوں کے ہمراہ

اقدس بے حسین ہونے کے علاوہ ذہین بھی تھی۔ کم عمری میں شادی اور کم عمری میں ہی بچے ہو گئے۔ وہ اپنے بچوں کی ماں نہیں لگتی تھی۔ لوگ اکثر اسے ان کی بہن سمجھتے تھے۔ لیکن وہ بڑے فخر سے لوگوں کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے کہتی ” یہ میری اولاد ہیں۔ مجھے ان کی ماں ہونے کا افتخار حاصل ہے”دبلی پتلی پھرتیلی اور انتہائی خوش مزاج۔ جو ملتا گرویدہ ہو جاتا۔
اقدس روشن بین ملیحہ اور پرویز کی ماں، ہمایوں، اردشیر اور سرمد کی دادی، ارمان اور ماہین کی پڑ دادی اور میری ساس تھیں۔ جنہیں سب چھوٹے بڑے خانم جون کہتے ہیں۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں۔
ساری زندگی اپنے پیروں پر کھڑی رہیں اور کسی کی مدد اور سہارے کی امید نہیں رکھی۔ ہم بہت بلاتے تھے کہ ہمارے پاس آ کر رہیں۔ ملیحہ اصرار کرتی رہی کہ میرا گھر بڑا ہے یہاں آ جایں لیکن ان کی خود داری اور ہلکے سے غرور نے یہ بات قبول نہ کی۔ کہتی تھیں کہ جب تک میرے ہاتھ پیر چلتے ہیں میں اپنے ہی گھر میں رہوں گی۔ جب کسی قابل نہ رہوں اور محتاج ہو جاوں تو مجھے کسی اولڈ ہوم میں داخل کر دینا۔ کسی پر بوجھ بننا مجھے گوارا نہیں اور میں اپنے گھر کے علاوہ اور کہیں رہنا نہیں چاہتی۔ انہوں نے اپنا گھر اپنے سلیقے سے سجایا تھا۔ ان کا گھر بھی نادر قالینوں اور اینٹیک چیزوں سے بھرا ہو تھا۔ نفیس چیزیں ان کی خوش ذوقی کا ثبوت تھیں۔
اسی سال فروری میں ہم ایران گئے۔ پرویز تو جاتے رہتے تھے میں تیس سال بعد گئی تھی۔ سوچا تھا ایران کو خوب گھوم پھر کر دیکھیں گے۔ لیکن کورونا نے سارے منصوبے ڈھا دیئے۔ میں دکھ سے سوچتی رہی کہ آخر میں کیوں آئی یہاں۔ نہ کہیں آ جا سکے نہ گھوم پھر سکے۔ بس ملیحہ اور خانم جون سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اب سوچتی ہوں تو تسلی ہوتی ہے کہ شاید میں اسی لیے گئی تھی کہ خانم جون سے آخری بار مل لوں۔ وہ یہاں ناروے کئی بار آئیں اور ہم ہر بار اصرار کرتے رہے کہ وہ مستقل ہمارے پاس آ جایں۔ وہ ہر بار کہتیں ابھی تو میں واپس چلی جاوں گی لیکن اگلی بار آوں گی تو ہمیشہ کے لیئے رہ جاوں گی۔ ہم جانتے تھے کہ وہ نہیں آئیں گی۔

کرج کے باغ میں

ہماری ان سے ہر روز ہی فون پر بات ہوتی رہتی تھی۔ کبھی ایک آدھ دن کا وقفہ آجاتا۔ پرویز دو دن تک فون ملاتے رہے لیکن بات نہیں ہوئی، موبائل بھی بند آ رہا تھا۔ ایران میں کورونا کے باعث لوگوں کا ملنا جلنا بہت کم رہ گیا ہے۔ ملیحہ سے بات ہوئی تو اس کا بھی یہی کہنا تھا کہ دو دن سے خانم جون سے بات نہیں ہو پارہی۔ آخر کار ملیحہ اور خاندان کے کچھ مرد گئے پولیس کی مدد سے گھر کا دروازہ توڑا گیا۔ اقدس اپنے بنائے ہوئے گھر میں اپنے ٹی وی روم میں اپنے پسندیدہ صوفے پر بیٹھی ابدی نیند سو رہی تھی۔ ایک عظیم خاتون جو تمام مشکلات سے مردانہ وار لڑی اور جیتی۔ اپنی زندگی اپنی پسند اور شرائط پر بسر کی۔ آج موت بھی اپنی مرضی کی اپنائی۔

مجھ سے ان کی پکی والی دوستی تھی۔ کبھی بھی ساسوں والا رویہ نہیں اپنایا۔ مجھ سے کبھی ناراض نہیں ہوئیں۔ شروع میں مجھے فارسی نہیں آتی تھی اس کے باوجود وہ مجھ سے ڈھیروں باتیں کرتیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے شاید ان کی آدھی باتیں بھی پلے نہیں پڑ رہیں۔ پھر جب مجھے فارسی کی شدھ بدھ ہو گئی تو وہ ہماری لمبی لمبی باتیں ہوتیں۔ وہ بہت خوش ہوتیں کہ میں اتنی دلچسپی اور دھیان سے ان کی باتیں سنتی ہوں۔ اپنی زندگی کی کہانی اور جدوجہد کی داستان مجھے سناتی رہتیں۔ میں ان کی تگ و دو سے شدید متاثر ہوئی۔ وہ کہتی تھیں کہ جو وقت انہوں نے ایک کلینیک میں کام کر کے گذارا وہ ان کے لیئے سب سے زیادہ باعث طمانیت ہے۔ بعد کے واقعات کی میں چشم دید گواہ بھی ہوں۔ کس طرح اپنی معذور ماں اور بیوہ بہن کی خدمت کی، کس طرح کرج والے باغ کی آبیاری کی۔ اسی باغ میں میرے بچے سایئکلیں دوڑاتے بھرتے۔ اس میں بنے سوئمنگ پول میں تیرتے، کھیلتے۔ جعرات کی شام کو ہی ہم سب لدے پھندے باغ پہینچ جاتے۔ باغ میں ایک دو بیڈ رومز کا گھر بھی تھا۔ باتھ روم اور کچن بھی۔ رات وہیں گذارتے۔ کباب سیخ پر ہوتے۔ سماوار میں چائے دم ہوتی رہتی۔ میں اور خانم جون ناشپاتیاں توڑتے۔ ایران عراق جنگ میں بھی ہم راتوں کو اسی باغ میں پناہ لیتے رہے۔ مکمل بلیک آوٹ میں جب تہران پر بمباری ہوتی ہم اس کی دہشت ناک آوازیں اتنی دور سے بھی سن سکتے تھے۔ یہ ساری یادیں میرے دل میں تازہ رہیں گی۔
مجھے ان سے اپنی وہ آخری ملاقات یاد آئی۔ تہران کے جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے ہوئے تھے وہ ہم سے ملنے آیں۔ اگلے دن ہماری پرواز تھی۔ ہم لابی میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ میں نے اپنے ایران کے سفر نامہ میں لکھا بھی تھا” ساس صاحبہ چائے کے ساتھ اپنے آنسو بھی پی رہیں ہیں۔ جانے اب کب ملاقات ہو۔” آج اطلاع ملی کہ یہ ملاقات اب اس جنم میں نہیں ہو سکے گی۔

یہ تصویر میں نے اس برس فروری میں بنائی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments