اعلیٰ عدالتیں اور کرونا وائرس سے متعلقہ مقدمات


عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں کرونا سے متعلق چند مقدمات میں عدالتی کارروائی ہمارے پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی۔ موقر صحافتی اداروں مثلاً بی بی سی، وائس آف امریکہ، ڈان اور ایکسپریس کی کوریج کی ایک ٹائم لائن پیش ہے۔ اپریل، مئی اور جون کی سماعتوں میں عدالتوں نے وسیع تر ملکی مفاد اور عوامی فلاح و بہبود کی خاطر حکومت کو حکم دیا کہ وہ بیوٹی پارلر اور نائی کی دکانیں بند کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے، شاپنگ مال اور بازار کھولے تاکہ لوگ نئے کپڑے خرید سکیں۔

بتایا کہ مارکیٹس اور کاروباری سرگرمیوں کو ہفتہ اور اتوار بند رکھنا آئین کی خلاف ورزی ہے، حکومتوں کو سفری پابندیاں لگانے سے منع کیا، حفاظتی کٹ کا مطالبہ کرنے والے ڈاکٹروں کو سوشل میڈیا پر شہرت کا متمنی قرار دے کر جرمانہ کیا۔ یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں کرونا اتنا سنگین نہیں جتنی رقم خرچ کی جا رہی۔ اور اب 8 جون کو حکم دیا کہ ڈاکٹرز کو حفاظتی سامان ہر حال میں دستیاب ہونا چاہیے، ہفتہ اور اتوار کو مارکیٹیں کھولنے کا حکم واپس لے لیا، بتایا کہ کرونا وائرس لوگوں کو مار رہا ہے، اب وقت نہیں رہا، ایک لاکھ سے زائد کرونا مثبت کیس آ گئے ہیں۔

13 اپریل۔ وائس آف امریکہ: کراچی میں یونین کونسل سیل کرنے اور بین الاضلاعی سفر پر حکومتی پابندی منسوخ۔ سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے کہا کہ کراچی میں 11 یونین کونسلز سیل کرنے کی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی۔ حکومت کو سیل شدہ علاقوں میں متاثرہ افراد کی تعداد کا بھی علم نہیں اور وہاں کھانا اور طبی امداد فراہم کرنے کا بھی کوئی منصوبہ نہیں۔

سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی جانب سے بین الاضلاع مشروط سفری پابندی پر تشویش کا اظہار کیا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے آرڈیننس 2020 کے ذریعے بین الاضلاع سفر پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس حکم کے تحت یہ پابندی لگائی گئی؟ آرٹیکل 15 وفاقی حکومت کا دائرہ اختیار ہے۔

عدالت نے پنجاب حکومت کی جانب سے بین الاضلاع مشروط سفری پابندی کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دے دیا۔

26 اپریل، بی بی سی:  ڈاکٹروں کی حفاظتی لباس یا پی پی ایز مانگنے کی درخواست خارج، درخواست گزاروں کو جرمانہ: لاہور ہائیکورٹ

پاکستان کی لاہور ہائیکورٹ نے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں کی طرف سے دائر اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے جس میں استدعا کی گئی تھی کہ حکومت ڈاکٹروں کو ذاتی حفاظتی لباس اور کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے ڈاکٹروں کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کرے۔

حکم نامے میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے لکھا کہ حقائق کی جانچ پڑتال اور حکومتی موقف جسے درخواست گزار غلط ثابت نہیں کر پائے، جاننے کے بعد ’بادی النظر میں درخواست ناجائز اور سوشل میڈیا پر آسان تشہیر حاصل کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔‘

عدالت فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر متعلقہ ادارہ یا حکام یہ سمجھیں کہ ایسی درخواست دائر کرنے سے مذکورہ درخواست گزار ڈاکٹروں نے سول سروس کے قواعد یا متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی کی ہے یا ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے تو اتھارٹی ان کے خلاف کارروائی کرنے میں آزاد ہو گی۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ درخواست گزار عدالت کے سامنے جمع کروائے گئے دستاویزات سے بھی نہ تو اپنا موقف درست ثابت کر سکے اور نہ ہی مدعا علیہ یعنی حکومتی موقف کو غلط ثابت کر سکے اور اس کے باوجود وہ مسلسل پی پی ایز کا مطالبہ کرتے رہے۔

4 مئی 2020، بی بی سی: کسی چیز میں شفافیت نظر نہیں آ رہی: سپریم کورٹ

سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے سیکرٹری ہیلتھ سے استفسار کیا کہ کیا انھوں نے اسلام آباد میں واقع حاجی کیمپ جس کو قرنطینہ سینٹر بنایا ہوا ہے، وہاں کا دورہ کیا ہے؟
جس پر سیکرٹری صحت کا کہنا تھا کہ انھوں نے وہاں کا دورہ کیا ہے اور وہاں بستر اور پانی تو موجود ہے لیکن بجلی نہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ حاجی کیمپ کو کس کے کہنے پر قرنطینہ سینٹر بنایا گیا تھا تو عدالت کو بتایا گیا کہ ایسا این ڈی ایم اے نے کیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ این ڈی ایم اے کی طرف سے رپورٹ تو آ جاتی ہے لیکن ان کا نمائندہ موجود نہیں ہوتا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ ہو کیا رہا ہے؟ انھوں نے کہا کہ کسی چیز میں شفافیت نظر نہیں آ رہی۔ انھوں نے کہا کہ اگر تھوک میں خریدے جائیں تو ایک ماسک دو روپے کا ملتا ہے۔ انھوں نے استفسار کیا کہ ان چیزوں پر اربوں روپے کیسے خرچ ہو رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں یہ چیزیں کیسے خریدی جا رہی ہیں اور سارے کام لگتا ہے کاغذوں میں ہی ہو رہے ہیں۔

سیکرٹری ہیلتھ نے عدالت کو بتایا کہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں روزانہ ایک ہزار کرونا کیسز سامنے آ رہے ہیں اور کرونا کیسز مثبت آنے کی شرح دس فیصد ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے جاری کی گئیں ریگولیشنز پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے مساجد کھول دیں جبکہ مارکیٹیں بند کر دیں۔
انھوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا مساجد میں کرونا وائرس نہیں پھیلے گا۔ انھوں نے کہا کہ 90 فیصد مسجد میں ریگولیشنز پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔

14 مئی، جنگ: نائی کی دکانیں کیوں بند ہیں، لوگ عید پر بال کیسے کٹوائیں گے؟ سندھ ہائی کورٹ

سندھ ہائی کورٹ، لاک ڈاؤن میں چھوٹے دکانداروں کو کاروبار کی اجازت سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے سندھ حکومت کو باربر کی شاپس کھولنے کے لیے نظر ثانی کی ہدایت کر دی۔

دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ جب چھوٹی بڑی مارکیٹوں کو کھول دیا گیا تو نائی کی دکانیں کیوں بند ہیں؟ انہوں نے کہا کہ باربر کی دکانیں بند رکھی جا رہی ہیں تو لوگ عید پر بال کیسے کٹوائیں گے؟ نائی کی دکان کے لیے بھی ایس او پیز بنا دیں، عمل درآمد نہ ہو تو انہیں بند کر سکتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ان سے پوچھا کہ باقی مارکیٹیں کھول دی گئی ہیں تو حجام اور بیوٹی پارلرز کیوں نہیں کھول سکتے؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ حجام کی دکانوں اور بیوٹی پارلرز سے کرونا وائرس کے پھیلنے کا زیادہ خدشہ ہے، حجام اور بیوٹی پارلرز ہوم سروس فراہم کر سکتے ہیں۔

18 مئی ڈان: ملک بھر میں شاپنگ مالز اور کاروباری مراکز کھولنے کی ہدایت، لوگ نئے کپڑے لینا چاہتے ہیں : سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے ہفتہ اور اتوار کے روز مارکیٹس اور کاروباری سرگرمیاں بند رکھنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور ساتھ ہی ملک بھر میں شاپنگ مالز کھولنے کی ہدایت کر دی۔

سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عید پر رش بڑھ جاتا ہے، ہفتے اور اتوار کو بھی مارکیٹیں بند نہ کرائی جائیں، آپ نئے کپڑے نہیں پہننا چاہتے لیکن دوسرے لینا چاہتے ہیں، بہت سے گھرانے صرف عید پر ہی نئے کپڑے پہنتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کرونا وائرس ہفتہ اور اتوار کو کہیں چلا نہیں جاتا، کیا کرونا نے بتایا ہے کہ وہ ہفتے اور اتوار کو نہیں آتا؟ یا ہفتہ اور اتوار کو سورج مغرب سے نکلتا ہے؟ ہفتہ اور اتوار کو مارکیٹیں بند کرنے کا کیا جواز ہے؟ مارکیٹس اور کاروباری سرگرمیوں کو ہفتہ اور اتوار بند رکھنا آئین کی خلاف ورزی ہے، پنجاب اور اسلام آباد شاپنگ مالز کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو سندھ میں شاپنگ مالز بند رکھنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

عدالت نے کہا کہ سندھ شاپنگ مالز کھولنے کے لیے وفاقی حکومت سے رجوع کرے، اجازت کے بعد صوبے شاپنگ مالز کھولنے میں رکاوٹ پیدا نہ کریں۔ 2 دن کاروبار بند رکھنے کا حکم آئین کے آرٹیکل 4، 18 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔

عدالت نے ہدایت کی کہ تمام وسائل صرف کرونا پر خرچ نہ کیے جائیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں وسائل خرچ کرنے سے متعلق اپنا موقف دیں، پاکستان میں کرونا اتنا سنگین نہیں جتنی رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ کرونا وائرس سے زیادہ سالانہ اموات دیگر امراض سے ہوتی ہیں، این ڈی ایم اے اربوں روپے کرونا سے متعلق خریداری پر خرچ کر رہا ہے، عدالت نے این ڈی ایم اے حکام کو نئی ہدایات لے کر آگاہ کرنے کا حکم بھی دیا۔

18 مئی وائس آف امریکہ: جو دکانیں سیل کی ہیں وہ کھول دیں: سپریم کورٹ

حکومت اور تاجروں کے درمیان موجود تنازع پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ دکانیں سیل کرنے کے بجائے ایس او پیز پر عمل درآمد کرائیں۔ جو دکانیں سیل کی گئی ہیں انہیں بھی کھول دیں۔ تاجروں سے بدتمیزی کرنی ہے نہ رشوت لینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے تاجر کرونا کے بجائے بھوک سے ہی نہ مر جائیں۔

چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری سندھ کو فوری طور پر طلب کرتے ہوئے کمشنر کراچی کو ہدایت کی کہ عید کے موقع پر ہفتے اور اتوار کو بھی مارکیٹیں بند نہ کی جائیں۔
ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے کہا کہ پشاور میں کوئی شاپنگ مال نہیں۔ پشاور میں تمام کاروباری مراکز کھلے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ صوبے میں کوئی بھی شاپنگ مال نہیں ہے البتہ باقی مارکیٹس کھلی ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بھی شاپنگ مالز کھولنے کی یقین دہانی کرائی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کرونا کے ایک مریض پر اوسط کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں؟ کرونا پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کہاں جا رہے ہیں؟ اب تک تقریباً 200 ارب روپے خرچ کیے گئے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر آدمی پر 25 لاکھ روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ یہ صرف این ڈی ایم اے کا بجٹ ہے باقی صوبوں اور اداروں کو ملا کر 500 ارب بنے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے ملک میں 500 سے 800 لوگ مر رہے ہیں تو ہم کیا کر رہے ہیں۔ یہ پیسہ ایسی جگہ چلا گیا ہے جہاں سے ضرورت مندوں کو نہیں مل سکتا۔ ایک مریض پر لاکھوں روپے خرچ ہونے کا کیا جواز ہے؟
ممبر این ڈی ایم اے نے کہا کہ میڈیکل آلات، کٹس اور قرنطینہ مراکز پر پیسے خرچ ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کرونا اس لیے نہیں آیا کہ کوئی پاکستان کا پیسہ اٹھا کر لے جائے۔ اربوں روپے ٹین کی چارپائیوں پر خرچ ہو رہے۔ مجھے نہیں لگتا کرونا پر پیسہ سوچ سمجھ کر خرچ کیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments