نعت گوئی، اجمالی تعارف


نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
دنیا کی ہر زبان میں معنی کے اعتبار سے الفاظ دو طرح سے استعمال ہوتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں اور اصطلاحی معنوں میں۔

نعت کے لغوی معنی تعریف یا توصیف بیان کرنے کے ہیں۔ لیکن اپنے ارتقاء کے عمل سے گزرتے ہوئے یہ لفظ اصطلاحاً نبی معظم، رسول مکرم حضرت محمد ﷺ کی تعریف و توصیف کے ساتھ مخصوص ہوگیا ہے۔ لہذا اب جب بھی یہ لفظ بصارتوں میں رنگ بکھیرتا ہے یا سماعتوں میں رس گھولتا ہے تو پردہ ذہن پر صرف اور صرف آقا دو جہان ﷺ کی مدح و توصیف ہی کی قوس قزح بنتی ہے۔

اگر ہم اس لفظ کے تاریخی پس منظر پر تھوڑی سی نگاہ ڈالیں تو اس لفظ کے آثار خود رسول اللہ ﷺ کی زبان اقدس سے بھی ملتے ہیں۔ بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک یہودی لڑکا رسول اللہ ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ بیمار ہوا تو آقا علیہ السلام اس کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے۔ اس کا باپ لڑکے کے سرہانے بیٹھا تورات پڑھ رہا تھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ہل تجدفی التوراۃ نعتی

کیا تم تورات میں میری تعریف ( نعت) کو پاتے ہو؟
اس نے جھوٹ بولا اور کہا، نہیں۔
لڑکا فوراً بولا:
بلٰی واللہ یا رسول اللہ انا نجد لک فی التوراۃ نعتک
ہاں یا رسول اللہ ہم تورات میں آپ کی نعت کو پاتے ہیں۔

نعت کا آغاز دور نبوی ﷺ سے ہی ہوگیا تھا، اب یہ امر محتاج بیان نہیں رہا۔ پھر جیسے جیسے اسلام پھیلتا گیا نعت گوئی بھی اس کے ساتھ ساتھ پھیلتی گئی کہ یہ وعدہ رب کائنات تھا کہ ورفعنا لک ذکرک۔

چونکہ اسلام کا آغاز خطہ عرب سے ہوا جہاں عربی زبان رائج تھی۔ پھر وہاں سے نکل کر اول اول جن علاقوں میں گیا وہاں فارسی زبان بولی جاتی تھی۔ لہذا نعت کے ابتدائی ادوار میں نعت گوئی کے لیے قصیدہ کی ہئیت زیادہ ملتی ہے لیکن بعد میں چل کر دیگر اصناف میں بھی نعت کہی جانے لگی اور برصغیر میں پہنچنے کے بعد یہ زیادہ تر غزل کی ہئیت میں کہی جانے لگی۔ اس کے باوجود جب ہم تفصیلی جائزہ لیتے ہیں تو قدیم و جدید ہر صنف شاعری نے نعت سے ضرور برکت حاصل کی ہے۔ لہذا مثنوی، غزل، قصیدہ، مخمس، ترکیب بند، آزاد نظم، نظم معری، سانیٹ، قطعہ، رباعی، ہائیکو وغیرہ کوئی ایسی صنف نہیں جس میں ہمیں نعت نگاری نہ ملے۔

رواں آنکھوں سے کر لوہو جگر کا
لکھوں احوال میں خیرالبشر کا
محمد ہے در دریائے وحدت
محمد اختر برج نبوت

مثنوی روضۃ الشہداءاز میر ولی
آفاق بہرہ ور ہوا حضرت کی ذات سے
آگاہ ذات نے کیا حق کی صفات سے
تصدیق حکم رب کی ہوئی بات بات سے
رفتار نے لگا دیا راہ نجات سے
سیکھے طریقے قرب خدا کے حضور سے
گم راہ آئے راہ پہ نزدیک و دور سے
مرزا دبیر

کرم میں دوں اسے نیساں سے کس طرح تشبیہ
کروں میں جان کے کیوں کر ترقی معکوس
براق اسپ ترا ابروئے فرشتہ رکاب
کہاں ہے چشم بشر ایسے پاؤں سے محسوس
مومن خاں مومن

گرد بیٹھی کفر کی، اٹھی رسالت کی نگاہ
گرگئے طاقوں میں بت، خم ہو گئی پشت نگاہ
چرخ سے آنے لگی پیہم صدائے لا الہ
ناز سے کج ہو گئی آدم کے ماتھے پر کلاہ
آتے ہی ساقی کے، ساغر آ گیا، خم آ گیا
رحمت یزداں کے ہونٹوں پر تبسم آ گیا
جوش ملیح آبادی

ساقی کوثرہوتم
شافع محشر ہوتم
کفر کو نشتر ہوتم
دافع ہرشر ہو تم
تم سے اچھا کون ہے
رشید مدراسی

انگشت جہاں میں وہ نگینہ ہی تو ہے
اسرار ازل کا وہ خزینہ ہی تو ہے
اے کوثر و تسنیم پہ شیدا! دیکھو
فردوس بریں عکس مدینہ ہی تو ہے
استاذی علامہ محمد بشیر رزمی

مری خرد کو عمل سے وابستگی ملے
تو میں نعت لکھوں
مجھے گناہوں پہ ذوق شرمندگی ملے
تو میں نعت لکھوں
میں اپنے اقدار نیک و بد کا کروں تعین
تو نعت لکھوں
رؤف ظفر

حضور کی نسبت سے میں
معتبر ہوچکا ہوں
منور ہوچکا ہوں
علیم صبا نویدی

سیرت کے انوار
سورج بن کر ابھرے ہیں
ان کے پیروکار
صبیح رحمانی

یوں ہمیں ہر صنف میں آقا علیہ السلام کی توصیف کی قوس قزح بکھری نظر آتی ہے۔

نعت نگاری میں احتیاط:

چونکہ نعت ایسی ہستی کی مدح و توصیف ہے جس کی تعریف خود خالق ارض و سماوات نے کی ہے اور صرف تعریف ہی نہیں کی بلکہ اس در کے تمام تر آداب بھی سکھا دیے ہیں، لہذا ایک نعت گو کے لیے ان آداب اور اسرار کی پابندی از حد ضروری ہے تاکہ اس پل صراط پر چلتے ہوئے قدم نہ ڈگمگائیں اور فردوس نعت کا صحیح لطف اٹھایا جاسکے۔

اس حوالے سے جن چیدہ چیدہ امور کا خیال رکھنا ضروری ہے ان کا اجمال پیش خدمت ہے :۔

۔ خالق اور مخلوق کی حد فاصل کا واضح ادراک۔
۔ انداز تخاطب میں ایسے الفاظ کا استعمال جن میں براہ راست تخاطب سے حتی الامکان گریز۔
۔ الفاظ کے چناؤ میں محنت، جن سے نفاست و نزاکت ٹپکے اور شان رسالت میں بلندی کا احساس ابھرے۔
۔ آقا علیہ السلام کے روبرو عجز و انکسار کی حدوں تک چلے جانا۔
۔ دیگر انبیاء سے تقابل کی فضا سے گریز۔
۔ افراط و تفریط سے پہلو تہی۔
۔ غلو سے پرہیز۔
۔ واقعات کی صحت پر کڑی نظر۔

کن کن موضوعات کو نعت کے لیے چنا جانا چاہیے :۔

نعت گوئی کی مثال ایک سمندر میں غوطہ لگانے کی سی ہے۔ جیسے جیسے نعت گو اس سمندر کی تہہ میں اترتا جاتا ہے اس کی وسعت بڑھتی چلی جاتی ہے اور چشم حیرت آئینہ بن جاتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ ایسی کثیرالجہات ہے کہ ڈیڑھ ہزار سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک اس کا احاطہ نہیں ہوپایا۔ ہر زمانہ اس بحر بے کنار سے موتی نکال رہا ہے۔ لہذا ایک نعت گو کو قرآن، سیرت اور تاریخ کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کے بدلتے ہوئے رجحانات کے مطابق سیرت کی اثرپذیری کا ادراک بھی ہونا چاہیے۔ جہاں نعت میں آقا علیہ السلام کے شمائل و خصائل کا تذکرہ ہو وہاں اپنے زمانے کے اعتبار سے سیرت کا بیان بھی ہو۔

جب انسان کسی سے محبت کرتا ہے تو محبوب کے ساتھ جڑی ہر چیز اس کی محبت کا مرکز و محور بن جاتی ہے لہذا نعت گو کی نظر میں آقا علیہ السلام سے منسوب ہر چیز کی عزت و توقیر بھی بدرجہ اتم ہونی چاہیے۔ وہ مکہ کی گلیاں ہوں، جبل نور ہو، غار حرا ہو یا ثور، ہجرت مدینہ، قیام مدینہ، گنبد خضری، اولاد اطہار وغیرہم سے غیرمشروط محبت کا بیان و اظہار، سب نعت کے موضوعات عالیہ میں سے ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں تادم آخر اپنے حبیب ﷺ کی مدحت جڑا رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments