گلوبل وزڈم کا زمینی فرد ۔ آصف فرخی


ڈاکٹر آصف فرخی کی ناگہانی رخصت نے ہم سب کو ششدر کر دیا ہے۔ ہم سب حالت غم میں ہیں۔ میں جب ان کو یاد کرنے بیٹھتی ہوں تو یادوں کے دھاگوں کی الجھی ہوئی پوتھلی میرے آگے پھیل جاتی ہیں کون سا دھاگہ کیسے کھولوں۔ وہ میرے ہم پیشہ ڈاکٹر تھے۔ اس حوالے سے ان کی کمیونٹی ہیلتھ کے بلند منصب اور کام گنواؤں، ادیب، افسانہ نگار، نقاد، کالم نگار، مترجم، معلم، مدیر کے حوالے سے کچھ لکھوں یا ادبی تحریکوں کو سماجی روشن میں ڈھالنے والے متحرک و کامیاب کراچی لٹریچر فیسٹول کے منتظم کو یاد کروں۔

ہندوستان کے جس خطے سے وہ ہجرت کا دکھ لے کر آئے، ان کے اجداد نے بھی اسی تہذیبی شکست و ریخت کا سامنا کیا جو ہمارا بھی قصہ ہے۔ پھر ان کے سندھ میں بسنے والے لوگوں کی نئی تہذیب سے جڑنے کی مثال سناؤں۔ ان کی ہمہ جہتی پر مقالہ نہیں مقالات، کتاب نہیں کتب، سوال و جواب نہیں تھیسس لکھے جائیں تو بھی شاید مکمل احاطہ نہ ہوپائے لیکن میں شاعرہ کی حیثیت میں ان کی بے وقت موت سے عجیب کیفیت میں گرفتار ہوگئی کہ موت و حیات کی معنویت میری سامنے پھر آ کھڑی ہے۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ زندگی کا کوئی اپنا معنی نہیں لیکن ہم اس کے ہر پل کو اپنے تخلیقی وفور، صلاحیتوں اور عمل سے معنی دیتے جاتے ہیں۔

پھرکوئی بلند تخلیق کار اپنے عمل و افکار سے اسی عام زندگی کو امر کرجاتا ہے۔ تخلیق کار کا فن جتنا لطیف و دقیق اور زمانے سے ہم آہنگ ہوتا ہے اتنا ہی اس فانی انسان کی امرتا قائم ہوتی ہے۔ مجھے اس سچ کا بارہا احساس ہوا کہ آصف فرخی نے اپنی زندگی کے کسی بھی لمحے کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے اپنے ادبی گھرانے کے ورثے کو نئے زمانے سے باندھ لیا۔ اپنے سماجی، سیاسی شعور کو کراچی لٹرری فیسٹول کی صورت میں کراچی کی روح میں ڈھال دیا۔ سندھ کی مٹی میں لگے تقسیم کے بعد کے انسانوں کی ادھوری جڑوں کو زمین سے جوڑا۔ غلط فہی اور عداوتوں کو تحریروں کے ذریعے ہم آہنگی اور پیار میں بدلنے کی کوشش کی۔ وہ گلوبل وزڈم کے آدمی تھے تراجم اور بین الاقوامی ادب کو ہم تک لے آئے۔

نئے ادیبوں سے ان کے حسن سلوک کا تذکرہ اپنے حوالے سے کروں گی۔ مجھے جب اجمل کمال نے آج میں گوشے کی صورت میں شایع کیا تو مجھے یاد ہے کراچی کے اسی گلشن اقبال سے جہاں میں بڑی ہوئی۔ آصف فرخی صاحب کا پہلا فون آیا۔ آپ ثروت زہرا ہیں۔ فہمیدہ ریاض اور میری خواہش ہے کہ آپ کسی شام اپنی نظمیں ان کے گھر ہونے والی نشست میں سنائیں۔ مجھے 90 کے اوائل میں اس گھر میں ہونے والے نشستوں میں نہ جانے کتنے ادیبوں کے درمیان سنا گیا۔

میں ان کے گھر کی ادبی نشستوں میں مستقل جاتی رہی اور سیکھتی رہی۔ اسلم فرخی بھی موجود ہوتے دنیا زاد میں وہ مستقل چھاپتے رہے۔ کراچی لٹریچر فیسٹول میں میری شمولیت ہمیشہ ان کی عزت افزائی کے باعث ہوئی۔ میری دونوں کتب کی تقاریب میں مضامین پڑھے کے لیے بصد شوق تشریف لائے۔ میرے عرب امارات آنے کے بعد رابطہ پہلے جیسا نہ تھا مگر پھر بھی وہ باخبر رہتے۔

میں سمجھتی ہوں کہ سندھ کی زمین پر اردو زبان اور ثقافت کا پودا انہوں نے نہ صرف سینچا بلکہ سندھی تہذیبی، لسانی استعاروں کے گلابوں سے ملا کر نئی پنیری بھی لگائی۔ پہ ان کی دانش ورانہ دور اندیشی تھی جس کا قرض ہم پر ہمیشہ رہے گا۔ زندگی و موت کی ازلی تاریخ نے مجھے پھر مرہم دیا۔

اگر آصف فرخی پیوند خاک ہو بھی گیا تو کیا۔ ان کی شخصیت اور اس سے گندھی محبت ہمارے درمیان مہکتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments