مختلف امراض سے مرنے والوں کی تعداد زیادہ لیکن خوف کورونا کا


آج یعنی 8 جون 2020 سے پاکستان میں نئے کورونا وائرس کے اس ”متعدی دورانیہ“ یعنی انکوبیشن کا آغاز ہو رہا ہے جسے ماہرین وبا کا عروج کہتے ہیں۔ چودہ روز یا دو ہفتوں کے اس دورانیہ میں انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس عرصے میں انتہائی ضرورت کے بغیر گھروں سے نہیں نکلنا چاہیے۔ اگر نکلنے کی بہت ہی زیادہ مجبوری ہو تو سماجی فاصلہ برقرار رکھنے، باہر موجود گتے، لکڑی یا دھات سے بنی کسی بھی شے سے ہاتھ مس نہ ہونے دینے، ماسک باندھے رکھنے اور گھر آ کر باہر کے کپڑے دہلیز میں ہی اتار کے گرم پانی یا واشنگ مشین میں ڈال دینے اور ہاتھوں کو صابن کی جھاگ میں کم سے کم بیس سیکنڈ تک بھگوئے رکھنے کے بعد دھونے پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔

اب اگر سب نہیں تو اکثر لوگ آگاہ ہو چکے ہیں کہ نئے کورونا وائرس کے بارے میں شروع میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا اور اب تک جو کچھ اس کے بارے میں جان پائے ہیں وہ نہ صرف بے حد متنوع بلکہ حیران کن بھی ہے۔ اس کے علاج کے لیے شروع سے اب تک تجرباتی طور پر ادویہ استعمال کی گئی ہیں۔ مختلف طرح کی وائرس مخالف دوائیں استعمال کی جا رہی ہیں مگر ان کا موثر پن بھی سو فیصد نہیں ہے۔ پلازما سے لے کر لیلیاماب نام کی انٹی باڈی پیدا کرنے والی دوا تک استعمال ہو رہی ہیں۔ مگر موثر علاج پھر بھی نہیں ہے۔

پہلے اسے نزلہ زکام کی طرح بتایا گیا۔ ایسا بھی ہے مگر 75 سے 80 فیصد لوگوں میں۔ پاکستان میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق شدید مریضوں کی شرح 25 فیصد تک ہے جن میں کے تین سے پانچ فیصد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے باقی 74 فیصد کورونا کا شکار ہونے سے پہلے بھی کسی نہ کسی مزمن مرض میں مبتلا تھے۔ اگرچہ ایسا ہے لیکن اس کے بارے میں تحقیق آ چکی ہے کہ اگر ان پہلے سے مریض لوگوں کو کورونا متاثر نہ کرتا تو وہ کئی کئی سال بلکہ پچاس ساٹھ سال کی عمروں والے تو دو تین عشرے بھی مزید جی سکتے تھے۔ ساتھ ہی کسی نے ایک اچھی مثال دی، اگر کوئی پہلے سے چار بڑے امراض میں مبتلا ہو بھی ہو لیکن وہ گولی لگنے سے مر جائے تو اس کی موت کی وجہ گولی لگنا ہی قرار پائے گی، نہ کہ امراض۔ کورونا بھی ایک طرح کی گولی ہی سمجھیے۔

یہ بھی بتایا جاتا رہا کہ مختلف وجوہات سے لاکھوں لوگ مر جاتے ہیں۔ اس وبا کو بس بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ جی ہاں میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی معلومات کا اثر تو بہر حال ہوتا ہے۔ اسی طرح لوگ محتاط ہو سکتے ہیں اور اسی طرح مریض ہونے یا موت کا شکار ہو جانے سے محفوظ بھی رہا جا سکتا ہے۔ میں آج سے پورے بیس برس پیشتر ریاست ہائے متحدہ امریکہ گیا تھا جہاں ایڈز سے متعلق احتیاطوں کے بارے میں ہر جگہ ہدایات درج تھیں۔

میں مارے ڈر کے کچھ بھی نہیں چھوتا تھا مگر وہاں بسنے والا میرا میزبان میری ان حرکتوں پر ہنستا تھا کیونکہ وہاں یہ وبا کئی سال پہلے سے تھی اور لوگ اس کے ساتھ رہنے کے عادی ہو گئے تھے۔ آج بھی دنیا میں ایڈز سے متاثر افراد کی تعداد ساڑھے چار کروڑ کے قریب ہے لیکن علاج ہو جاتا ہے اور اموات نسبتاً کم ہو چکی ہے۔ لوگ مرض کے ساتھ بھی کئی سالوں تک جیتے رہنے لگے ہیں۔

دنیا میں ہر سال مرنے والوں کے اعداد و شمار تلاش کیے تو مجھے 2017 کے اعداد و شمار دستیاب ہو سکے جن کے مطابق دنیا میں مختلف اسباب سے اموات یوں تھیں :

1۔ امراض قلب و رگ و ورید ایک کروڑ ستتر لاکھ نوے ہزار افراد
2۔ سرطان پچانوے لاکھ ساٹھ ہزار افراد
3۔ سانس سے متعلق امراض انتالیس لاکھ دس ہزار افراد
4۔ پھیپھڑوں میں سوزش پچیس لاکھ ساٹھ ہزار افراد
5۔ نسیاں پچیس لاکھ دس ہزار افراد
6۔ معدہ اور آنتوں کی امراض تئیس لاکھ اسی ہزار افراد
7۔ شیرخوار بچوں کے نقائص سترہ لاکھ اسی ہزار بچے
8۔ اسہال پندرہ لاکھ ستر ہزار افراد
9۔ ذیابیطس تیرہ لاکھ ستر ہزار افراد
10۔ جگر کے امراض تیرہ لاکھ بیس ہزار افراد

11۔ ٹریفک حادثات بارہ لاکھ چالیس ہزار افراد
12۔ امراض گردہ بارہ لاکھ تیس ہزار افراد
13۔ تپ دق گیارہ لاکھ اسی ہزار افراد
14۔ ایڈز نو لاکھ اکاون ہزار افراد
15۔ خودکشی سات لاکھ ترانوے ہزار آٹھ سو تئیس افراد
16۔ قتل چار لاکھ پانچ ہزار تین سو چھیالیس افراد
17۔ ملیریا چھ لاکھ انیس ہزار آٹھ سو ستائیس افراد
18۔ رعشہ تین لاکھ چالیس ہزار چھ سو انتالیس افراد
19۔ ڈوبنے سے دو لاکھ پچانوے ہزار دو سو دس افراد
20۔ سرسام دو لاکھ اٹھاسی ہزار اکیس افراد

21۔ غذائی کمی سے دو لاکھ انہتر ہزار نو سو ستانوے افراد
22۔ لحمیات کی کمی سے دو لاکھ اکتیس ہزار سات سو اکہتر افراد
23۔ حمل اور پیدائش کے دوران ایک لاکھ ترانوے ہزار چھ سو انتالیس مائیں
24۔ شراب نوشی سے ایک لاکھ چوراسی ہزار نو سو چونتیس افراد
25۔ منشیات خوری سے ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار چھ سو تیرہ افراد
26۔ مقامی جنگوں میں ایک لاکھ انتیس ہزار سات سو بیس افراد

27۔ ہیپاٹائٹس ایک لاکھ چھبیس ہزار تین سو اکیانوے افراد
28۔ جل جانے کے سبب ایک لاکھ بیس ہزار چھ سو بتیس افراد
29۔ زہر خورانی سے بہتر ہزار تین سو اکہتر افراد
30۔ گرمی سردی سے ترپن ہزار تین سو پچاس افراد
31۔ دہشت گردی سے چھبیس ہزار چار سو پینتالیس افراد
32۔ قدرتی آفات سے نو ہزار چھ سو تین افراد

پھر ہم آج تک یعنی پانچ ماہ میں کورونا سے دنیا بھر میں ستتر لاکھ لوگوں کے مریض پڑ جانے اور چار لاکھ افراد کے مر جانے سے کیوں خائف ہیں؟ پہلی بات تو یہ کہ اعداد و شمار ایک سال کے ہیں اور پوری دنیا کے۔ 4 نمبر وجہ کو دیکھیے پھیپھڑوں کی سوزش سے سال بھر میں مرنے والوں کی تعداد 25 لاکھ ہے یعنی پانچ ماہ میں تقریباً دس لاکھ افراد لیکن اگر ایک ہی شہر میں اس اثنا میں دو لاکھ افراد مر جائیں تو وہ وبا کہلائے گی۔

پھر دیکھیے کہ موت کی مندرجہ بالا وجوہ میں سے ایڈز اور ہیپاٹائٹس ایسے امراض ہیں جو ایک سے دوسرے کو لگ سکتی ہیں وہ بھی خاص طریقوں سے جیسے ایڈز جنسی عمل کے دوران وائرس کے منتقل ہونے سے یا ہیپاٹائٹس کسی بھی طرح مریض شخص کے خون کے صحت یاب شخص کے خون سے اختلاط سے۔ مطلب ہے ایک سے دوسرے کو نہ کہ کورونا کی طرح ایک سے ستائیس کو۔ ان دو وائرسوں سے ہوئی مرض اور اموات تکلیف دہ تو ہوتی ہیں مگر ذلت آمیز نہیں۔

نہ ہی ہر شے یہ دونوں امراض پیدا کرنے والے وائرس کی زد میں ہوتی ہے جیسے کہ نوول کورونا وائرس کے، جو کھانسنے، چھینکنے تا حتٰی سانس لینے تک سے خارج ہونے والے مواد کے مہین ذروں سے ہر جانب اور ہر شے پر بکھر جاتے ہیں۔ بہت سی اشیاء پر وہ 24 گھنٹوں سے 72 گھنٹوں موجود اور متاثر کرنے کے لیے مستعد رہتے ہیں۔

آخری بات : اس وائرس کے بارے میں کسی کو پہلے سے کوئی علم نہیں تھا کیونکہ یہ روئے ارض پر پہلی بار نمودار ہوا ہے۔

اگر ڈبلیو ایچ اور اور ساری حکومتیں احتیاطی تدابیر نہ کرتیں اور پروپیگنڈا نہ کرتیں تو اموات چار لاکھ کی بجائے چار کروڑ یا زیادہ بھی ہو سکتی تھیں۔ اس لیے خدارا اپنا اور اپنے ماں باپ، بہنوں بھائیوں، اہلیاؤں بچوں اور دوستوں رشتہ داروں کو محفوظ بنانے کی خاطر خود کو محفوظ بنائیے اور ان دو ہفتوں میں بے حد احتیاط سے کام لیں۔ اٹلی اور امریکہ نے ان ہی دو ہفتوں میں محتاط رہنے سے اغماض برتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments