سنتھیا رچی اور طیبہ گل: ایک خاص اور دوسری خاک کیوں ہوئی؟


آج کل پاکستانی میڈیا چاہے وہ پرنٹ ہو الیکٹرانک ہو یا پھر سوشل ہو سنتھیا رچی کے الزامات اور اس کی گونج سے گونج رہی ہے، باقی سارے اہم قومی بین الاقوامی معاملات، کورونا کی ہولناکیاں، ٹڈی دل کی یلغاریں، پیٹرول و ڈیزل کی مجرمانہ قلت، چینی مافیا کے سرکاری سرپرستی میں عوام کی جیبوں پہ کاری وار، آٹے کی تیزی سے بڑھتی قیمتیں، عوام کی قوت خرید سے باہر نکلتی اشیاء ضرورریہ کی قیمتیں، سانحات حادثات میں گھرے ارض وطن کی تیزی سے دگرگوں ہوتی سیاسی، معاشی، سماجی حالت زار پس پشت چلے گئے ہیں۔

ہم پہلے تفصیلات میں جائے بغیر سنتھیا رچی کے الزامات پر بات کر لیتے ہیں جس کی ابتدا اس نے ٹویٹر پر شہید محترمہ بینظیر بھٹو پر انتہائی گھٹیا اور بے ہودہ الزام یہ لگا کر کی کہ یہ بات اسے پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے بتائی، یہاں سے شروع ہوئی سنتھیا اور پیپلز پارٹی کے جیالوں کے سوشل میڈیا جنگ، اس سارے معاملے میں پیپلز پارٹی کے جیالے حق پہ اس لیے ہیں کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو سے عشق و عقیدت رکھنے والوں کی سنتھیا رچی کے غلیظ گرے ہوئے جھوٹے لغو الزامات سے شدید دل آزاری ہوئی بلکہ اکثر کو میں نے ان گھٹیا الزامات پہ آنسو بہاتے ہوئے بھی دیکھا، سنتھیا رچی جس کے کردار پہ کوئی انگلی اٹھائے بغیر صرف اتنا کہوں گا کہ اس کی اپنی حرکات و سکنات اس کے اپنے کردار کی آئینہ دار ہیں، اس نے ایک ایسی پاکدامن، انتہائی شریف نفس اور باکردار سیاسی رہنما پہ واہیات الزامات لگائے جن کے جوابات دینے کے لیے وہ ہستی دنیا میں ہی موجود نہیں۔ شہید بینظیر بھٹو ملک اور بیرون ملک بے انتہا عزت اور احترام کی نظر سے ایک ترقی پسند، امن کی داعی اور جمہوریت پسند رہنما کے طور جانی اور پہچانی جاتی تھیں۔ سنتھیا رچی کے ان الزامات نے ملک کے طول و عرض میں پیپلز پارٹی کے کارکنان، شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی عزت و تکریم کرنے والے ان کے ہمدردان، سول سوسائٹی، شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والوں اور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے کو دلی رنج و غم سے دوچار کر دیا۔

سنتھیا رچی نے کچھ دن پیپلز پارٹی کے کارکنان کے ساتھ سوشل میڈیا پہ ٹاکرا جاری رکھنے اور شدید ترین لعنت ملامت کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، رحمان ملک اور مخدوم شہاب الدین پر بھی انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات لگا دیے جس سے ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔ ملکی میڈیا پہ نامور میڈیا پرسنز نے سنتھیا کو اپنے پروگراموں میں مدعو کرکے ان سے ان کے الزامات پہ وضاحت کے ساتھ ثبوتوں اور ان کی پاکستان میں ایک دہائی سے زائد موجودگی سمیت ان کی پراسرار سرگرمیوں کے متعلق بہت سے سوالات پوچھے ہیں جن میں اب تک سنتھیا کا مشکوک کردار اور سرگرمیاں آہستہ آہستہ سامنے آ رہی ہیں۔

ملک میں سنتھیا کے الزامات کو لے کر بحث چھڑ گئی ہے کہ اس کے الزامات کی مکمل تحقیقات ہونے چاہیے اور اگر وہ درست ہیں تو ذمے داران کے خلاف سخت ایکشن ہونا چاہیے، اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ سنتھیا نے جو الزامات پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پہ لگائے ہیں کیا ایسے الزامات وہ مستقبل قریب میں کسی اور جماعت کے رہنماؤں اور کچھ طاقتور اداروں کے طاقتور لوگوں پہ بھی لگا سکتی ہیں، جیسا کہ وہ خود کہہ رہی ہیں کہ وہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کو بھی نہیں چھوڑے گی۔

تو اس وقت کیا صورتحال بنے گی۔ یقیناً سنتھیا کے الزامات کی مکمل، فوری، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات ہونی چاہیے اور سچ جھوٹ کا پتہ بھی لگنا چاہیے، اگر الزامات سچے ہیں اور ثابت ہوتے ہیں تو ذمے داران کو کڑی سزا ملی چاہیے جبکہ جھوٹے ثابت ہونے کی صورت میں سنتھیا کو نشان عبرت بنانا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی غیر ملکی ہماری سیاست کے معتبر اور معزز سیاسی رہنماؤں پہ بہتان لگانے کی جرات نہ کر سکے۔

ان الزامات کے شور میں مجھے طیبہ گل بھی یاد آ گئی جو ایک بے پہنچ، کمزور کم حیثیت عورت تھی، اس نے ملک کے ایک انتہائی طاقتور، با اثر ترین ادارے کے سربراہ جو جب چاہے ملک کے صدر و وزیراعظم پہ بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے پہ اسی نوعیت کے الزامات لگائے اور اپنے الزامات کی سچائی کے ثبوتوں کے طور پر وڈیو اور آڈیو کلپس بھی دیے جو میڈیا کی زینت بھی بنے ایک دو روز تک تو طیبہ گل کے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسانی کا واقعہ پاکستانی میڈیا پہ چھایا بھی رہا، پاکستان میں عورتوں کے حقوق کے چیمپیئنز طیبہ کے حق کے لیے آواز بھی اٹھاتے نظر آئے اور حکومت نے اس طاقتور ترین ادارے کے چیئرمین کے خلاف انکوائری کا اعلان بھی کیا، مگر پھر نجانے وہ انکوائری کہاں دفن ہوگئی، کن مکروہ ذاتی اور سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ گئی۔ نجانے کیوں انتظامی نوعیت کے معاملات پہ سوموٹو نوٹس لینے والے منصفوں کو سانپ سونگھ گیا اور نہ صرف طیبہ گل کے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسانی قصہ پارینہ بن گئی بلکہ اس غریب عورت اور اس کے شوہر کو اس پاداش میں نجانے کن کن صعوبتوں کو برداشت کرنا پڑا۔

آج طیبہ گل اس لیے بھی یاد آئی کہ جب سنتھیا رچی کو وی آئی پی پروٹوکول مل رہا ہے ایک ایسی غیر ملکی عورت کو جو دس سال سے پاکستان میں نجانے کن وجوہات کی بنا پر، کن پراسرار سرگرمیوں کو سرانجام دے رہی ہے، اس کی حقوق، اس کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتی و دست اندازی پہ اسے انصاف ملنے کی باتیں ہو رہیں تو طیبہ گل کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالے کے بھی اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں، طیبہ گل کے ساتھ مبینہ جنسی ہراسانی میں ایک انتہائی طاقتور ادارے کا انتہائی طاقتور سربراہ ملوث ہے اور اس طاقتور ترین شخص کا احتساب کرنے میں ذاتی، سیاسی مفادات اور معاملات آڑے آ رہے ہیں اور محض اس بنا پر طیبہ گل کو خاک سمجھ کر خاک میں ملانا درست نہیں بلکہ اسے بھی سنتھیا رچی کی طرح اہمیت دی جانی چاہیے اور اسلامی عدل و انصاف کے تقاضوں اور آئینی میں دیے گئے انسانی حقوق کی بنیاد پہ طیبہ گل کو بھی انصاف فراہم کیا جانا چاہیے۔

سنتھیا ڈان رچی اور طیبہ گل کے کیسوں میں صرف الزامات کی حد تک تو مماثلت ضرور ہے مگر واقعاتی طور پر دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ طیبہ گل پاکستانی شہری ہیں جن کے آئینی شرعی حقوق انہیں آئین پاکستان نے دیے ہیں جبکہ دوسری خاتون پاکستانی شہری نہیں ہیں اور ان کے الزامات بہت پرانے ہیں جن کو ثابت کرنا بھی شاید بہت ہی مشکل ہو۔ بہرحال میرا صرف اتنا استدلال ہے کہ سنتھیا رچی کو خاص اور طیبہ گل کو خاک نہ سمجھا جائے اور دونوں کے معاملات میں غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انصاف کو یقینی بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments