فیمنسٹ، کمیونسٹ کہیں کی



ہائے اللٰہ! میری ایک بچی ہے کمیونسٹ کہیں کی۔ جی صحیح سنا ہے آپ کی سماعتوں نے کمیونسٹ ہوگئی ہے۔ ایسی ایسی سخت اور موٹی انقلابی باتیں کرتی کہ پرہیز گار بندہ کانوں کو ہاتھ لگائے۔ صرف کمیونسٹ ہی نہیں، حقوق نسواں پر بھی خوب پر پرزے نکل آئے ہیں۔ غضب خدا کا ناجانے کہاں سے ایسی باتیں سیکھ سیکھ کر آ رہی ہے، ہم نے تو ایسی تربیت کی نہ کبھی حرام کا لقمہ کھلایا، پتا نہیں کن گناہوں کی سزا ہے جو بھگتنا پڑ رہی ہے۔

سوچا تھا کہ لڑکی پیدا ہو ہی گئی ہے تو اب پالنا تو ہے، پالا پوسا، پڑھایا لکھایا، گمان تک میں یہ بات نہ تھی کہ جوان ہوگی تو شادی کرنے سے انکاری ہو جائے گی، کہتی ہے اماں! ابا جیسے کسی آدمی سے شادی کرنے سے بہتر ہے کہ میں اکیلی ہی رہوں، شادی کروں گی تو اپنی مرضی سے، کسی رشتے دار کی گرہ سے نہیں بندھنا مجھے۔

کہاں سے اس کا ان عورتوں نے اپنے جیسی غلط باتوں سے دل بیگانا کر دیا ہے۔ کم بخت انقلابیوں کے جلسوں میں کولہے سے دوپٹہ باندھ کر سیاسی نعرے لگائے گی؟ بھلا اس کے باپ دادا کے پاس کون سا مال موشی ہے، زمیں جائیداد ہے جو یہ سیاست کرنے پر تل گئی ہے۔ ہمارے گھر کی تو عورتیں ووٹ ان کو ڈالتی ہیں جن کو ہمارے مرد ڈالتے ہیں۔ وہ بھی کیا دن ہوا کرتے تھے، ابھی زمانہ آج کی طرح بگڑا نہیں تھا، سلجھا ہوا تھا۔ الیکشنوں کے دن آرہے تھے، گلی میں بڑی گہما گہمی رہتی تھی، کبھی کوئی ایک آکر ووٹ مانگتا تو کبھی دوسرا۔

ڈھول ڈھمکا عروج پر رہتا تھا، جوش اتنا آتا کہ دل کرتا کہ محلے میں جا کر دو چار تقریریں میں بھی کر آؤں۔ تب بے نظیر یہاں لاہور سے کھڑی ہوئی تھی، مگر اس کے دادا نے سختی سے تنبیہ کردی تھی کہ اگر اس گھر میں رہنا ہے تو ووٹ اس نشان پر ہی ڈالنا ہوگا جس کا وہ حکم صادر کریں گے۔ بھلا، ہم باعزت گھروں کی بیٹیاں کیسے اپنا گھر داؤ پرلگاتی اور جا کر کسی عورت کو ووٹ دیتی۔ نا جی ہم سے یہ لچر پن نہیں ہوتا، دل تو بڑا تھا مگر سسر کی بات پتھر پر لکیر تھی، یہ بڑوں کے ادب آداب کی بدولت ہی آج ہم اس مقام پر ہیں۔

کوئی دید لحاظ بھی ہوا کرتا ہے یا بیچ آئے؟ اس کے ابا نے بھی کہہ دیا تھا کہ ان سے اگر سچی محبت ہے تو کسی اور کو ووٹ بالکل نہیں دینا ورنہ میں کاغذ لکھ دوں گا۔ ایک وہ زمانہ تھا اور ایک یہ، دیکھو کیا قیامت ڈھا رہی ہیں یہ کالجوں کی لڑکیاں، اپنے ہم جماعتوں اور کم عمر استادوں کو ساتھ لئے پہنچ جاتی ہیں جلسوں میں، اور یہی نہیں نظمیں بھی پڑھتی ہیں، بینر بھی اٹھاتی ہیں۔ بس جی کیا کہانی سناؤں، کمیونسٹوں فیمنسٹوں میں سے ہو گئی ہے۔

میں نے پتا کرایا ہے ان کا، یہ کوئی اچھے بھلے لوگ نہیں۔ دماغ چوس کر رکھ دیتے ہیں، جیسے واشنگ مشین میں کپڑے صاف ہو جاتے ایسے ہی یہ انقلابی معصوم لڑکوں لڑکیوں کے دماغوں کے ساتھ کرتے ہیں، ایک دم صاف۔ آئے ہائے ان جوان لونڈوں کی تو خیرہے، یہ تو مرد ہیں ان کو کس نے پوچھنا ہے، پولیس اٹھا کے بھی لے گئی تو کیا، میری پھولوں سی لڑکی خراب کر دی ہے۔ اس کی بچپن کی دونوں سہیلیوں نے دوستانہ ختم کر دیا ہے صرف اس کے ذہن کے خمار اور بخار کی بدولت۔

دیکھو نا جو دوستی جیسے پر خلوص رشتے کو ختم کرا دے وہ بھی کوئی نظریہ ہوا؟ اس کا تو رشتہ بھی نہیں آیا سال بھر سے۔ جو آتا ہے وہ اس کے فیس بک کی پوسٹیں دیکھ کر ہی منع کر دیتا ہے۔ لونڈوں کو ڈرانے ہی لگ گئی ہے۔ بھلا کس نے کہا ہے اتنی اوباش اور بد اخلاق کہانیاں لگاؤ ان عورتوں کی، کسی کو مار پڑ رہی ہے، کوئی اٹھا لی گئی ہے، کسی کی عزت لٹ گئی ہے۔ کوئی زمانہ ہے ایسی باتوں کا؟ اچھی عورتوں کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا، یہ تو اوباش عورتیں ہوتی ہیں جن کو کوئی اٹھا لے گیا یا مار کے پھینک گیا۔ جن کی کوئی عزت لوٹے، وہ ایسی ویسی ہی ہوتی ہیں۔ ہم نے تو بس یہی سیکھا ہے اپنے بڑوں سے۔

درس والی آپا بھی یہی کہتی ہیں کہ جو عورتیں حق مانگتی ہیں آوارہ اور آپے سے نکلی ہوئی ہیں۔ اب مردوں اور عورتوں کا کیا مقابلہ۔ ایسی عورتوں کا تو انجام بھی ایسے ہی ہونا چاہیے۔ مگر مجھے تو اس کا خوف کھائے جاتا ہے، باتوں میں آ گئی ہے ان انقلابیوں کی۔ ہم نے تو کالج بھیجا تھا کہ ڈگری لے گی تو ہمارا بھی خاندان میں نام بن جائے گا، لوگ کہیں گے کہ ملک صاحب کی بیٹی نے بڑی درس گاہ سے سیاسیات میں ایم اے کیا ہے، سیاسیات کا زعم بھی بہت ہے ہمارے خاندان میں، لڑکیوں کو کہاں سیاست کی الف بے آتی ہے یہ تو مردوں کا ہی طرہ امتیاز ہوتا ہے، اسی لئے لگتا تھا کہ کہیں باہر کا رشتہ آئے گا تو رخصت کر کے سر سے اس کی شادی کا بوجھ اترے گا مگر نہیں نابلد ہوتی جا رہی ہے۔ سیاست کیا اس کے سر پر سوار ہوئی یہ ہمارے سروں پر سوار ہوگئی ہے۔

اس کی حق سچ کی باتیں اور سرکشی دیکھتی ہوں تو بڑوں کی باتیں یاد آتی ہے، اسی لئے تو نہیں بھیجتے تھے وہ لڑکیوں کو کالجوں میں کہ یہ بگڑ کر ہم سے سوال کرتی ہیں، بھائی کو کیوں دے رہو زمین اور مجھے کیوں نہیں۔ کہیں باپ سے یہ سوال کر بیٹھی تو انہوں نے کہنا ہے کہ میں نے اچھی تربیت نہیں کی۔ ہر بات پر برابری کا تیر کھینچ کے مار دیتی ہے، اس کو ایک جیسا دو، اس کو برابر کا دو، یہ برابری وہ منصفانہ تقسیم، گھر میں عدالت لگ جاتی ہے۔

اب بھلا یہ باتیں ہم عورتوں کے کرنے کی بھی ہیں؟ ایسی منہ پھٹ ہو گئی ہے یہ تک کہنے سے باز نہیں آتی کہ اماں اب آپ کی زندگی بھی اچھی کرنی ہے، ابا کا بھوت اتار دیں سر سے اور اپنی بھی فکر کریں، دیکھیں کیا حال بنا لیا ہے، بھلا میری زندگی کو کون سا کیڑا لگا ہے۔ عورتوں پر بڑھاپہ جلدی آتا ہے مردوں کی نسبت۔

کمیونسٹ کیا، پاگل ہوگئی ہے۔ جمعدار آتا ہے ایک، دروازے پر اس نے پانی مانگ لیا، جھٹ سے نئے شیشے کا گلاس نکالا دے مار ساڑھے چار۔ حالانکہ سامنے میز پر جمعدار کا گلاس پڑا ہوتا ہے مگر کون سمجھائے اس کم عقل کو۔ نیا گلاس ضائع ہوگیا، پورا گلاسوں کا سیٹ خراب کر دیا، ان لڑکیوں کو گھر داری تو سرے سے آتی ہی نہیں، ہم نے ساری عمر بڑوں کو یہی کرتے دیکھا ہے کہ جمعدار کا گلاس الگ سے رکھا جاتا ہے۔ آخر کو وہ بھی تو انسان ہی ہیں۔ میری ساس نے ایک بار ایسے کرنے پر سب کے سامنے جو چوٹی کھنچی تھی مجھے یاد ہے۔

یہ بھی سنتے جائیے، انار کلی بازار کی جیسے لت لگی ہو، وہاں سے ناک میں بالی ڈلوا کے آ گئی، اللہ بخشے میری خالہ کو، ان کے گھر کام کرنے آتی تھی ایک لڑکی، یہی کوئی نو برس کی ہوگی، خالہ جان نے منی کو سہلانے کے لئے رکھا تھا، خالو کے گاؤں سے منگوائی تھی سب اس کو ماچھن ماچھن کہتے تھے ہمیں تو نام نہیں یاد، ناک میں بالی پہنے رکھتی تھی اور بالوں میں پراندہ۔ خالہ کو لگتا تھا کہ وہ خالو کو اچک لے گی۔ خالو بھی اس کو خوب دوسری نظروں سے دیکھتے تھے۔

مگر ہاں میں اس کے ناک کی بالی کی بات سنا رہی تھی، بس یہ بھی ان لوگوں کی طرح بن گئی ہے۔ ملک کی بیٹی ہو کر کمی کمینوں کی رسموں پر اتر آئی ہے۔ اس کی ہم عمر کوئی سمجھانے لگے تو ایسا انقلابی وعظ دیتی ہے کہ سب کی بولتی بند ہو جائے۔ بس کیا کروں میرے تو نصیب پھوٹ پڑے، انقلابی ہوگئی ہے۔ نصیبوں کے پھوٹنے سے یاد آیا، ایک دن اس کی کسی حرکت پر جب میں نے کہا کہ تیری جدت پسندی سے نصیب پھوٹ پڑے تو کہتی اماں جب آپ کو چودہ سال کی عمر میں اٹھارہ سال کا بنا کر شادی ہوئی تھی آپ کے نصیبوں کی ہنڈیا تو اسی روز پھوٹ گئی تھی۔

بات بات پر کہتی ہے مجھے وہ ترغیب نہ دیں کہ میں بھی آپ سی زندگی گزاروں، بھلا شادی کوئی باغ کی پگڈنڈی تھوڑی نا ہے ملک صاحب کو ایک کے بعد دوسرا بیٹا چاہیے تھا تو کر لی انہوں نے دوسری شادی، گزارا کرنا ہی پڑتا ہے عورتوں کو۔ ہاں کبھی کبھی ہاتھ اٹھا لیتے تھے اس میں کون سی قباحت ہے۔ عورت کو صبر کرنا آنا چاہیے۔

مگر میرا بڑا خیال رکھتی ہے، ذرا بیمار ہو جاؤں تو جان نکل جاتی ہے اس کی، مجھے پتا ہے دل دکھتا ہے اس کا بھی کہ اس کی ماں اور دوسری مائیں کیسی زندگی گزارتی ہیں، بس جذباتی ہے۔ اب تو دعا ہے کہ اس کو کوئی اس جیسا انقلابی ہی مل جائے۔ ورنہ اس فیمنسٹ کے ساتھ یہاں کس تنگ نظر نے رہنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments