مشک: پاکستانی ڈرامہ، فلم اور تھیٹر کا معیاری امتزاج


پاکستان فلم انڈسٹری یقیناً اپنے اس دور سے نکل آئی ہے جب ایک مخصوص قسم کی فلموں کی بھرمار تھی غیر معیاری اداکاری، بے ربط ایڈیٹنگ، شہوت زدہ موسیقی، بے رنگ پرنٹ اور غیر حقیقی ڈبنگ۔ جس کی وجہ سے ناصرف معیاری اور گھریلو گھریلو قسم کی تفریح کے خواہاں سینما سے دور ہوگئے تھے بلکہ سینما بھی بند ہوتے چلے گئے، کئی سینیماز کی جگہ شاپنگ مالز نے لے لی۔ انہی دنوں میں ہمارے شہر کا آخری بچ جانے والا سینما بند ہوا اور دوبارہ نہ کھل سکا۔

میرے فلیٹس کی بلڈنگ کے بالکل سامنے والی بلڈنگ ہمارے شہر کے مشہور سینما کی ہوتی تھی اور اب رہائشی عمارت ہے۔ حد یہ کہ بی اور سی گریڈ فلمیں دکھانے والے غیر معیاری سینما تک بند ہوگئے۔ مگر پچھلے کچھ سالوں میں پاکستان فلم انڈسٹری میں بہت تیزی سے تبدیلی آئی ہے۔ بہتر پرنٹ، مختلف اور ربط والی کہانی، کہیں بہتر اداکاری دیکھنے کو ملتی ہے۔ لیکن ابھی بھی ہمارا مین اسٹریم سینما ایک مخصوص قسم کی تفریح فراہم کر رہا ہے۔ جس میں سنجیدہ ناظر کے لیے کچھ خاص نہیں۔

ٹی وی پہ چیلنز کی بھرمار ہونے کے باوجود اس کا معیار ناقص ہوتا جا رہا ہے۔ عموماً ڈراماز کی کہانی یکساں ہوتی ہے، نہ بھی ہو تو ایک جیسے اداکار، ایک جیسی ادائیگی، ایک جیسی باڈی لینگوئیج، ساونڈ ایفیکٹس کی جگہ باربار آفیشل ساؤنڈ ٹریک اور کئی منطقی غلطیوں کی بناء پہ اپنی کشش کھوتے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی نئے دور کے مسائل سے ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث نئی نسل کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ ہمارے ٹی وی چینلز وہ اخلاقیات حقائق کے طور پہ دکھانے پہ مصر ہیں جو ویسے تو کبھی بھی ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں رہیں لیکن یوٹیوب اور نیٹ فلکس جیسے پلیٹ فارمز آجانے کے باعث نئے دور کے دیکھنے والوں کے لیے یہ مزید ناقابل قبول ہوتے جا رہے ہیں۔ ترکی کے کئی ڈراموں خاص طور سے ارطغرل کی وسیع پیمانے پہ پسندیدگی کی ایک بہت بڑی وجہ ان ڈراموں کی معیاری عکس بندی، اداکاری اور منطقی اور باربط کہانی ہے۔

لیکن آج بھی کچھ نام ایسے ہیں کہ جب سامنے آتے ہیں تو سنجیدہ اور معیاری کونٹینٹ دیکھنے کا متلاشی ناظر اس یقین سے انہیں دیکھتا ہے کہ یہ اس کے ذوق کی تسکین ضرور کریں گے۔ اور ان ناموں میں ثانیہ سعید اور سرمد سلطان کھوسٹ نمایاں ہیں۔ زی فائیو کی فلم ”مشک“ رابیعہ قدیر اور سیمل نعمان کی لکھی ڈرامہ مووی ہے۔ سرمد کھوسٹ کی بہن کنول کھوسٹ کی ہدایتکاری میں بنی اس فلم کے پروڈیوسر سرمد کھوسٹ ہیں۔ ان دونوں بہن بھائیوں کے نام کے ساتھ کئی معیاری ڈرامے جڑے ہیں اور میرے لیے یہی بنیادی محرک تھا جس کی بناء پہ میں نے اس فلم کا پوسٹر دیکھتے ہی فوراً زی فائیو کی سبسکرپشن لی اور یہ فلم دیکھی۔

اسٹیج ڈرامہ کے پیرائے میں فلمائی اس مووی کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ یہ صرف دو کرداروں پہ مشتمل ہے۔ آپ کو اس قسم کی موویز ہالی ووڈ اور بالی ووڈ میں شاید بہت سی مل جائیں لیکن پاکستان میں شاید یہ اپنی نوع کی پہلی مووی ہے۔

کہانی کا آغاز ایک بڑے سے کمرے سے ہوتا ہے جہاں ایک طرف ایک دروازہ ہے جس کے ساتھ لائبریری سجی ہے رائٹنگ ٹیبل ہے، بالکونی میں کھلنے والا بڑا سا شیشے کا دروازہ ہے جو احساس دلا رہا ہے کہ یہ مکان کسی پہاڑی علاقے میں موجود ہے۔ سلائیڈنگ ڈور کمرے کو مزید وسعت کا احساس بخش رہا ہے ساتھ ہی اس بات کا احساس بھی دلا رہا ہے کہ یہ بادلوں کے پیچھے چھپے سورج کے ڈھلنے کاوقت ہے۔ یہ سلائیڈنگ ڈور مکمل کہانی میں ایک اہم کام سر انجام دیتا رہا ہے۔

تھیٹر کے ہی انداز میں کمرے کے بالکل وسط میں نشست کے لیے صوفے رکھے ہیں جن کے پیچھے ستار رکھا ہے اس صوفے کے پیچھے گھر کا داخلی دروازہ ہے۔ کمرے کی سیٹنگ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا/ کی مالک نا صرف اعلٰی ذوق کی حامل شخصیت ہے بلکہ اس کے پاس اپنے ذوق کی تسکین کے لیے وسائل بھی موجود ہیں۔

سب سے پہلے چند فائرز اور نسوانی چیخوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ پھر لائبریری کے ساتھ موجود دروازے سے پہلے کردار کی انٹری ہوتی ہے یہ کردار نمرہ بچا نے نبھایا ہے جو پہلے بھی اپنی معیاری اداکاری سے ایک نمایاں مقام حاصل کر چکی ہیں۔

یہ کردار کمرے سے ملحق بک شیلف پہ نہایت اطمینان سے کتاب اٹھا کر ورق گردانی میں مصروف ہوجاتا ہے۔ یہ کردار ڈھیلا ڈھالا گہرے رنگ کا ماڈرن طرز کا لباس پہنے ہے لباس اور نوادراتی انداز کے حامل زیورات پہنے یہ کردار پہلی نظر میں ہی اپر کلاس خاتون کا تاثر دے رہا ہے۔ چند لمحوں بعد داخلی دروازے سے دوسرا کردار داخل ہوتا ہے جو کہ ثانیہ سعید نبھا رہی ہیں۔ یہ کردار زرد رنگ کی ساڑھی میں ملبوس ہے جو انہیں متوسط گھرانے کی گھریلو خاتون ظاہر کر رہا ہے۔

باہر سے آنے والا کردار گھبرایا ہوا ہے کیوں کہ اس پہ فائرز کیے گئے تھے۔ بات چیت آگے بڑھتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ یہ فائر گھر میں موجود خاتون نے کیے تھے۔ یہ خاتون ملک کی مایہ ناز مصنفہ صوفیہ نور ہیں جو اپنے اکھڑ طبیعت، شوقین مزاجی اور تنہائی پسند ہونے کی وجہ سے بدنام ہیں، دوسرا کردار زوئے کبیر نامی خاتون کا ہے جو اپنا تعارف صحافی کے طور پہ کرواتی ہیں جو دور دراز کے ایک صحرائی شہر سے صرف اس معروف مصنفہ کا انٹرویو لینے کئی گھنٹوں کا سفر کرکے سدپارہ پہنچی ہیں۔

یہاں سے دونوں کرداروں کے بیچ دلچسپ مکالے کا آغاز ہوتا ہے۔ مووی کے آغاز سے اختتام تک یہ دو کردار کئی رنگ بدلتے ہیں، آپ ناصرف مکالموں سے بلکہ ان دونوں خاتون اداکاروں کی باڈی لینگویج اور بدلتے تاثرات سے بھی جان سکتے ہیں کہ اس وقت کون سا کردار غالب ہے اور کون سا مغلوب۔

پوری مووی میں کوئی بھی باقاعدہ گانا شامل نہیں صرف کچھ دیر کے لیے ایک کلاسیکی موسیقی کا ایک رکارڈ پرانے طرز کے گرامو فون پہ بجایا جاتا ہے۔ باقی پوری مووی کسی بھی قسم کے بیک گراؤنڈ میوزک سے عاری ہے۔ آپ کرداروں کے چلنے، ورق پلٹنے، چیزوں کو رکھنے کی آوازیں بخوبی سن سکتے ہیں۔

سلائیڈنگ ڈور کے پار منظر کہانی کے آگے بڑھنے کے ساتھ ناصرف موسم بدلنے بلکہ وقت کے آگے بڑھنے کا بھی پتا دے رہا ہے۔ سلائیڈنگ ڈور کے کھلنے بند ہونے پہ کبھی بارش کی بڑھتی اور مدھم ہوتی آواز سنائی دیتی ہے اور کبھی پرندوں کی چہکار کی۔ پوری کہانی ڈھلتی شام سے لے کر طلوع آفتاب تک چلتی ہے۔ جس دوران ان دو کرداروں کے علاوہ صرف ایک اور کردار کا تذکرہ بار بار آتا ہے۔ اور یہی تیسرا کردار آپ کے سامنے موجود دونوں کرداروں کی آپس کی کیمسٹری کو بار بار بدلنے کا ذمہ دار ہے۔

ہو سکتا ہے میں یہاں اس مووی کی کہانی بیان کروں تو یہ کوئی بہت منفرد یا دلچسپ کہانی نہ لگے حالاں کہ مجھے اس کہانی نے بھی بہت لطف دیا۔ لیکن لکھے گئے معیاری مکالمے، ناظرین کو باندھ لینے والی اداکاری، ایک مکمل ماحول بناتا سیٹ اور ساؤنڈ ایفیکٹس اسے مزید منفرد بنا دیتے ہیں۔

دلچسپ مکالموں کے ساتھ بڑھتی کہانی میں آپ یہ بھی محسوس کر سکتے ہیں کہ مصنفہ کا کردار کیسے کھلتا ہے اور ہر کچھ دیر بعد مصنفہ کے کردار کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ کبھی آپ کو اس کردار سے نفرت محسوس ہوگی کبھی ہمدردی کبھی آپ کو اس کا انداز ظالمانہ لگے گا اور کبھی مکمل طور پہ جسٹیفائیڈ۔ جبکہ زوئے کبیر کا کردار طویل دورانیے تک مبہم رہتا ہے۔ اتنا ہی مبہم جتنا عام زندگی میں ایک سیلیبرٹی کے سامنے ایک غیر معروف اسٹرگلنگ صحافی کا ہو سکتا ہے۔

مووی کے مکالموں کی زبان کافی حد تک سہل اردو پہ مشتمل ہے۔ کہیں کہیں انگریزی بھی شامل کی گئی ہے وہ بھی زوئے کبیر کی زبانی جب وہ کوئی ایسی بات کہنا چاہتی ہے جو اگر اردو میں کہے تو شاید اس کے جذبات اس کے ہاتھ میں نہ رہیں۔ ممکن ہے کئی افراد کے لیے اتنی انگریزی بھی قابل قبول نہ ہو لیکن مجھے اس انگریزی نے بھی مزا دیا کیوں کہ یہ انگریزی مکالمے زوئے کبیر کے کردار کا دلچسپ پہلو دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں جو آخر میں کھلتا ہے۔

”مشک“ کی کہانی بہت دھیمے انداز میں آگے بڑھتی اور اختتام پذیر ہوتی ہے جو پہلی بار میں کوئی چونکا دینے والا اختتام نہیں لیکن جب آپ مکمل کہانی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے اتنی دیر میں غیر محسوس انداز میں محبت کے کئی رنگ دیکھ لیے، ایک باغی محبت جس کا محور جسمانی کشش ہے، ایک عام سی محبت جو شاید ہر میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے، ایک غیر فطری سی محبت اور ایک نئے انداز کی محبت جس کو سمجھنے کے لیے آپ کو ان دونوں کرداروں کے ساتھ چلنا بہت ضروری ہے۔

یہ مووی شاید مشہور زمانہ رومان کو پسند کرنے والے شائقین کو خاص متاثر نہ کر سکے لیکن منفرد موضوعات اور معیاری اداکاری کے شائقین اس سے ضرور لطف اندوز ہوں گے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments