کرونا وبا کے بھیانک سائے


پاکستانی معاشرہ ایک منقسم معاشرہ ہے۔ بد قسمتی سے بحثیت قوم ہم کبھی بھی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ پاکستان میں کرونا وائرس خوفناک مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ بڑے بڑے لوگ اس کی زد میں آ رہے ہیں۔ اب تک چالیس کے قریب گراں قدر ڈاکٹرز۔ متعدد فرنٹ لائن پیرا میڈیکل اسٹاف ممبرز اور درجنوں ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ کئی اعلیٰ سرکاری افسر بشمول عسکری اداروں کے اہلکار اس نامراد وبا کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ابھی نا جانے کتنے اور پیاروں کی قربانی کا خراج دینا پڑے گا۔ اگر بر وقت ساری قوم مناسب احتیاط سے کام لیتی تو ہم اس کے قہر و غضب سے بچ سکتے تھے۔

دنیا کے ان ایک سو اسی ممالک کی طرح بچ سکتے تھے جو ہم سے پہلے اس موذی وبا کا نشانہ بنے اور شرح اموات میں ہم سے کہیں پیچھے ہیں۔ لیکن ہم اپنی ازلی حماقتوں۔ دیدہ دانستہ لاپرواہی اور۔ روایتی منافقت کے نتیجے میں احتیاط کا دامن چھوڑ کر متاثرہ ممالک کی صف اول میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب متحرک قیادت کی عدم موجودگی۔ قوت فیصلہ کی کمی اور ادارہ جاتی کشمکش ہے۔ علاوہ ازیں وہ لوگ بھی اس مہلک وبا کے پھیلاؤ میں غیر ارادی طور پر ملوث ہیں جنھوں نے سازشی نظریات کے پھیلاؤ میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کی مایوس کن کوشش کی۔

ایک وقت تھا جب حکومت پوری طرح متحرک تھی۔ قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے متحرک تھے۔ اور عوام چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دے رہی تھی۔ قریب تھا کہ ہم اس موذی وائرس کو مکمل طور پر شکست دینے میں کامیاب ہو جاتے کہ تاک میں بیٹھا ہوا سازشی ٹولہ میدان میں کود پڑا۔

کبھی اس وبا کو چین اور امریکہ کی سازش کہا گیا۔ کبھی یہ افواہ اڑائی گئی کہ کرونا مریضوں کو ڈاکٹرز زہر کا انجیکشن دے کر مار رہے ہیں۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس موذی وائرس کے سبب مرنے والے نوجوان ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یکے بعد دیگرے ہم نے کئی نوجوان اور ہنستے مسکراتے چہرے ہمیشہ کے لیے گنوا دیے جن کے سامنے ایک روشن مستقبل اور شاندار کیرئر تھا۔ انہوں نے دوسروں کو بچاتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانی دی ہے۔ ہم جنہیں کمال جہالت اور شرمناک ڈھٹائی سے قاتل قرار دیتے رہے۔

کبھی یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ مقتدر طبقہ اس وبا کا ہدف کیوں نہیں بنتا؟ کبھی یہ کہا جاتا کہ محض ڈالروں کے لیے سب ہنگامہ برپا ہے۔ عجیب عجیب کہانیاں سننے کو ملتیں۔ جبکہ محض ایک ہفتے میں نصف درجن ممبران اسمبلی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اخبارات سرخیوں سے بھر گئے عامۃالناس میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ اس کے باوجود ہم روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقائق کامنہ چڑاتے رہے۔

چیین اور امریکہ کی طرف ہم مشکوک انگلیاں اٹھانے سے ہم یہ بات بھول گئے کہ مذکورہ ممالک بذات خود اس خدائی آفت کے زخم خوردہ ہیں۔ جس بل گیٹس نے چپیں ڈالنی تھیں۔ فی الوقت تو وہ اپنے ہم وطنوں کی زندگیاں بچانے سے قاصر ہے۔ اور ہم سارا مدعا ہی اس پر ڈال کر بیٹھے رہے۔ کرونا کے مریض کہاں ہیں؟ میڈیا دکھا کیوں نہیں رہا؟ کیا کیا سننے میں نہیں آ رہا تھا؟ آج اسی میڈیا کی کئی نامور شخصیات آخرت کو سدھار چکی ہیں اور اکثر بے بسی سے قرنطینہ میں دن گزار رہی ہیں جبکہ ہم میڈیا کو کذب و افترا کے فروغ کا طعنہ دیتے رہے۔ یہ بے بنیاد پراپیگنڈہ اتنا پھیلا کہ مختارے کو ”گھر بیٹھو“ کا مشورہ دینے والے اسے باہر نکل کر دوسروں کے جوڑوں میں بیٹھنے پر اکسانے لگے۔

یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف سازش
شیعہ کی سنی کے خلاف سازش
سنی کی وہابی کے خلاف سازش
سائنس کی مذہب کے خلاف سازش

ہم سازش، سازش سازش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کا راگ الاپتے رہے۔ اور کرونا کی مہلک وبا کے بے رحم وار نے تباہی پھیلا دی۔ بے جا تعصب کی عینک اتار کر ذرا دیکھنے کی توفیق ہو تو آؤ دیکھو ہسپتالوں میں کتنے شیعہ کتنے سنی، کتنے کافر کتنے مسلمان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

میں نہ مانوں کی رٹ لگانے والے اس غم نصیب بیٹے کی مدد کو کیوں نہ پہنچے جس کا باپ کرونا کے باعث جاں بحق ہوا اور تدفین کے لیے کوئی حامی و ناصر دستیاب نہ تھا اور بے یار و مددگار اپنے باپ کی لاش کو دفنانا پڑا۔ کہاں گئے وہ بے حس جاہل جو کرونا وائرس کے وجود ہی کے منکر تھے۔

تسلیم کہ حکومت کی گومگو کی پالیسی نے تشکیک کے ماحول کو پروان چڑھایا اور عوام کو کنفیوز کیا۔ وفاق اور سندھ کی چپقلش نے معاملات کو خراب کیا۔ فاضل عدلیہ نے غیر ضروری مداخلت کی۔ دنیا کے کسی اور کرونا زدہ ملک میں ان کی عدالتوں نے حکومت کے کاموں میں مداخلت نہیں کی۔ خصوصاً وفاق اور عدالت نے سندھ کی متحرک حکومت کی نہ صرف حوصلہ شکنی کی بلکہ اس کی شبانہ روز محنت کو عوام کی نظروں میں بے وقعت بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

لیکن اصل سوال یہ کہ ہم نے کیا کیا؟ اجتماعی دعاؤں سے اجتماعی شاپنگوں تک کا سفر ایک ماہ میں طے کر لیا۔ حفظ ما تقدم کے طور پر جب مکہ۔ مدینہ اور کربلا جیسے مقدس مقامات بند تھے تو کیا ہمارے لیے جلسے جلوس اور تراویح و جمعہ وغیرہ زیادہ ضروری تھے؟ اور نتیجہ یہ کہ چند دنوں میں ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں کبھی چین، اٹلی اور اسپین جیسے ممالک تھے۔ مذکورہ ممالک تو اس وبا کی ہولناکیوں سے نجات پا چکے ہیں اور بالخصوص جس طرح نیوزی لینڈ نے اس قدرتی آفت کو شکست دی ہے قابل تحسین ہے۔ ہم بھی بچ ہی جائیں گے۔ لیکن بحثیت مجموعی اس غفلت کی سب کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ اب نہ جانے کتنی زندگیوں کا خراج دینا پڑے گا۔ کتنے پیاروں کو کھونا پڑے گا۔

بیشتر سیاسی اور مذہبی قیادت نے بھی سادہ لوح عوام کے جذبات سے کھیلنے کی مذموم کوشش کی۔ محراب و منبر کے اکثر غازیوں نے خطابت کی شمشیر برہنہ کے وہ جوہر دکھائے کہ ریاست کی بے بسی پر ترس آنے لگا۔

ایک غیر جانبدار مبصر کی حیثیت سے آپ جسے چاہیں الزام دیں۔ میری نظر میں اس ساری صورتحال کے بڑے ذمہ داروں میں وہ صحافی بھی شامل ہیں جو سازشی نظریات کو پروان چڑھاتے رہے۔ وہ قاری بھی شامل ہیں جو ان کی تشہیر کرتے رہے۔ ہر وہ شخص جس نے افواہوں کو جنم دیا۔ آگے بڑھایا۔ واہ واہ سمیٹی اور بغلیں بجائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس صورتحال کا ذمہ دار ہے۔

کیونکہ ان لوگوں کے غیر ذمہ دارانہ رویے سے عوام میں کنفیوزن پھیلا۔ متانت اور سنجیدگی سے عاری کج فہم طبقات نے فکری بحران پیدا کیا اور حکومتی زعما کے گمراہ کن آئیں بائیں شائیں نے اور بڑھاوا دیا۔

کہاں ہے کرونا کا مریض؟ ۔ ۔ کہاں ہے کرونا کا مریض؟ کہ کر ہذیان بکنے والوں کو اب میتیں اٹھتی دیکھ کر اگر موت نہیں تو شرم تو ضرور آتی ہو گی۔ یا شاید شرم نام کی چیز کا تعلق بھی کفار کی سازش سے ہے۔ سازشی سیاست کھیلنے والے یہ چھوٹے چھوٹے مختارے گھر تو نہ بیٹھے لیکن بھولی بھالی عوام کے جوڑوں میں ضرور بیٹھ گئے۔ اور بات اب واقعی بڑھ جکی ہے۔ موجودہ ملکی صورت حالات انتہائی تشویشناک ہے۔ اور کرونا کے مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments