دھونس کی وبا اور پون صدی کو محیط بلوچستان کا لاک ڈاؤن


پینسٹھ کی جنگ میں انتظار حسین نے شاکر علی سے پوچھا، وطن کے دفاع کے لیے بھی آپ کچھ کر رہے ہیں کہ نہیں؟ شاکر علی نے کہا، میں تو ان دنوں چاند پینٹ کر رہا ہوں۔ تعجب سے انتظار صاحب نے پوچھا، جنگ کے دنوں میں چاند پینٹ کرنے کا کیا مطلب ہوا؟ بولے، چاند ہندوستان میں بھی چمکتا ہے اور پاکستان میں بھی۔

کوئی پانچ برس قبل اپنے ہفتہ وار کالم میں وجاہت مسعود نے یہ حوالہ باندھا تو جنوں کی حکایتیں لکھنے والے قلم کاروں نے وہ سارے کینوس نکال کے سامنے رکھ دیے جو انہوں نے دل کے نہاں خانوں میں چھپا رکھے تھے۔ کسی کینوس پر درد کے کھینچی ہوئی آدھ ادھوری لکیریں کھنچی ہوئی تھیں اور کسی پر جنگ زدہ عمارتوں سے جھانکنے والی سہمی ہوئی زندگی کو پینٹ کیا گیا تھا۔ ان میں ایک کینوس ایسا بھی تھا جو در اصل کینوس نہیں تھا۔ یہ بہن کا سفید دوپٹہ تھا جس پر کسی بے چین روح نے خاک ہوئے ارمان پینٹ کیے ہوئے تھے۔ کچھ حسرتیں بھی پینٹ کی ہوئی تھیں جو ناتمام رہ گئی تھیں۔ اس میں ایک کینوس دھول سے اٹا ہوا تھا جو بلوچستان سے آیا تھا۔ یہ در اصل چیخوں اور آنسووں کی گواہی دینے والے اخبار نویس ارشاد مستوئی کا دامن تھا، جسے دکھائی نہ دینے والے کچھ لوگوں نے دفتر میں گھس کر قتل کر دیا تھا۔ عابد میر غم کی سیاہ راتوں میں اس دامن پر خاموشی پینٹ کر رہے تھے۔

آج پانچ برس بعد سماجی ذرائع ابلاغ کی راہداریوں سے چپ چاپ گزرتے ہوئے عابد میر کی دیوار گریہ پر تین سطری اعلان دیکھا۔ گھر میں آگ لگی ہے، بہت کچھ جل گیا ہے، دوست آگ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پلٹ جھپٹ کے میں اپنے سیل فون کی طرف لپکا۔ عابد میر کا نمبر ملایا، کچھ گھنٹیاں بجیں اور دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی۔ ایسے حالات میں آپ کا فون کاٹ دیا جائے تو یہ کوئی اچھی علامت تو نہیں ہوتی۔ الہی خیر ہو!

کچھ دیر میں عابد میر کا فون آ گیا۔ آداب اور تسلیمات کے بغیر میں نے پوچھا، جانی طور پر تو کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوا نا؟ جواب میں عابد میر ہنسے تو بات وہ نکلی جو عابد میر کے پندرہ برس پہلے کے ایک کہانی نما کالم میں ملتی ہے۔ اس کہانی کے کردار بھولا بلوچ نے فائر بریگیڈ کو فون کر کے کہا، میرے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے جلدی پہنچیے ورنہ سب جل کر راکھ ہو جائے گا۔ فائر بریگیڈ کا عملہ پہنچا تو بھولا بلوچ ایک کونے میں سہما ہوا بیٹھا تھا۔ اہل کار نے ایمرجنسی میں کہا جلدی بتاو کہاں آگ لگی ہے۔ وہ اطمینان سے کھڑا ہوا اور دیوار پر لگے پاکستان کے نقشے میں بلوچستان پر انگلی رکھ کر کہا، یہاں آگ لگی ہے اور ساٹھ سالوں سے لگی ہے۔ کوئی ہے جو اسے بجھا سکے؟

عابد میر نے کہا، جانی نقصان ہوا ہے نہ مالی ہوا ہے کیونکہ میرے مکان میں تو آگ لگی ہی نہیں۔ آگ تو در اصل میرے گھر بلوچستان میں لگی ہے۔ پون صدی سے نہ صرف جانی نقصان ہورہا ہے بلکہ مالی بھی ہورہا ہے۔ مگر بات وہی ہے کہ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ پھیلتی ہوئی اس آگ نے اب ڈنک کے علاقے کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ با اختیار قوتوں کی آشیرباد سے چلنے والے ڈیتھ سکواڈ کے کارندوں نے ایک گھر میں گھس کر ماں کو گولی ماری جو وہیں دم توڑ گئی۔ دوسری گولی اس کی معصوم سی بیٹی برمش کو ماری جو خدا خبر کیسے بچ گئی۔ شاید وہ زمانے کو جگانے کے لیے ابھی زندہ ہے مگر نقار خانے سے طوطی کی صدا اٹھتی ہے تو یار لوگ کان لپیٹ کے نکل جاتے ہیں۔ آپ جیسے لوگ بھی ہاتھی کے کان میں بے فکری کی کروٹ پہ سو رہے ہیں۔ کوئی جیا تو آپ کو کیا ملا کوئی مرا تو آپ کا کیا گیا۔

ذوالفقار زلفی کراچی کے علاقے لیاری میں پلنے بڑھنے والے بلوچ دوست ہیں۔ اپنی آزاد روح میں رنگوں اور خوشبووں کا ایک نگر آباد رکھتے ہیں۔ اچھی فلم دیکھتے ہیں اور اچھی کتاب پڑھتے ہیں۔ دنیا جہاں کی نایاب فلموں پر ان کی زیر تحریر کتاب کا کب سے ہمیں انتظار ہے۔ مگر جس بات کو ان سب باتوں پر فضیلت حاصل ہے وہ بلوچستان ہے۔ وہ جہاں بھی ہوں جس حال میں بھی ہوں، بلوچستان کے خون آلود صحرا انہیں بے چین رکھتے ہیں۔ فلم کی کہانیوں میں، کہانیوں کے کرداروں میں اور کرداروں کے مکالموں میں انہیں بلوچستان کے ہی حوالے دکھائی دیتے ہیں۔

اس بات نے زلفی کو دکھی کر دیا ہے کہ ژوب، نصیر آباد اور حب سے آگے کے پاکستان کو جگانے کے لیے برمش کی ماں کا خون اور برمش کے اپنے زخم کم پڑ گئے ہیں۔ انہیں حیرت ہے کہ ان کے حلقہ احباب میں شامل ایکٹوسٹ، ادیب، دانشور اور سیاسی و سماجی رہنماؤں نے میری زخمی بیٹی کے لیے دو بول بھی گوارا نہیں کیے۔ زلفی کو محسوس ہورہا ہے کہ جیسے وہ اور اس کی بیٹی اچھوت ہوں، جنہیں ہاتھ لگانے سے پاک دامن ہستیوں کا ایمان زائل ہو جائے گا۔ زلفی نے سماجی ذرائع ابلاغ پر احتجاجاً ان دوستوں سے اپنا ناتا توڑ لیا ہے جنہوں نے وقت آنے پر زبان موڑ کے پیٹ میں رکھ لی۔ بدقسمتی کہیے یا کیا کہیے، میں بھی ان میں شامل ہوں۔

ہمارے ان دوستوں کی ناراضیاں بے جا نہیں ہیں۔ ان کا قرض تو اتنا بڑھ گیا ہے کہ کسی دن یہ ہمارے آشیانے بھی پھونک دیں تو ہمارے پاس رونے پیٹنے کا کوئی جواز نہ ہو۔ اس درد کو وہ شخص اچھی طرح سمجھ سکتا ہے جس نے بے بسی اور بے چارگی جیسے الفاظ محض نصابی کتابوں میں نہ پڑھے ہوں۔ میں نے بے بسی کے ڈیرے سوات سے آئی ہوئی خاتون کی ان آنکھوں میں دیکھ رکھے ہیں جو شٹل کاک برقعے کی جالی کے پیچھے سے جھانکتی تھیں۔ اس خاتون کے تین بیٹے پولیس مقابلوں کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ کسی نامعلوم زندان میں چوتھے بیٹے کی گردن کا ناپ لیا جا چکا تھا، خبر آنا باقی تھی۔ خاتون کہتی تھیں، لاش تو دے دیں گے نا؟

راہ تکنا یا آنکھیں بچھانا ہمارے ہاں محاورے اور استعارے میں بولا جاتا ہے۔ مگر میں نے ایسی بڑھیا کے ہاں پرورش پائی ہے جس نے چھ برس تک اپنی ٹوٹی ہوئی چارپائی دروازے کے سامنے لگائے رکھی تھی۔ اس دروازے کے لاک کی چابیاں کم تھیں اور افراد زیادہ تھے۔ ہم اس دروازے کا لاک اس لیے کارڈ جیسی کوئی سخت چیز اٹکا کر کھولتے تھے کہ دستک نہ دینی پڑے۔ دستک دو تو بڑھیا ایک پل کو جی اٹھتی تھی، دروازہ کھلنے پر لاپتہ بیٹا نظر نہ آتا تو واپس مر جاتی تھی۔ شام ہو جاتی تو قرآن بند کر کے تکیے پر رکھتی اور موٹے شیشوں والا چشمہ اتار کر خلا میں گھورنے لگتی۔ سرد سی آہ بھر کے کہتی، کیا کوئی اتنی خبر لانے والا بھی نہیں ہے کہ میرا بیٹا ابھی کہاں ہوگا؟ زندہ بھی ہوگا کہ مر گیا ہوگا؟ باورچی خانے سے دھواں اٹھتا تو طبعیت بجھ جاتی۔ کچھ دیر بعد خود کلامی کے سے انداز میں کہتی، اگر اتنا ہی پتہ چل جاتا کہ وہ کہاں ہے تو میں کم از کم اسے کھانا ہی بھجوا دیا کرتی۔ وہ حمام سے نہا کے نکلتی تو آنکھوں میں آنسو ہوتے تھے۔ نماز پڑھ کے چپ چاپ مصلے پر بیٹھی رہتی۔ پاس سے کوئی بیٹا گزرتا تو اسے بلا کے آہستہ سے پوچھتی، جیلوں میں قیدیوں کو نہانے تو دیتے ہیں نا؟ بیٹا ماں کا ہاتھ پکڑ کے کہتا اماں آپ نے بھی عجیب ہی غم پالے ہوئے ہیں قسم سے۔ جیلوں میں ہمارے گھر کے غسل خانوں سے بھی اچھے غسل خانے ہوتے ہیں۔ انہیں جو شیمپو صابن دیے جاتے ہیں وہ ہماری تنخواہوں میں تو آتے بھی نہیں ہیں۔ بیٹا ہنستے مسکراتے ماں کی ڈھارس بندھا کے اٹھتا تو اپنے کمرے میں چلا جاتا اور تکیے میں منہ دے کے پھوٹ پھوٹ کر رو دیتا۔

مر جانا تو ہم دیکھتے ہی آئے ہیں، جیتے جی مرتے لوگوں کو دیکھنا بھی ہمیشہ سے ہماری ہی آنکھ کا مقدر رہا ہے۔ کسی کے آنسو ہم نے پونچھ لیے ہوں گے، کسی سے آنکھیں چرا کے ہم نکل گئے ہوں گے۔ اگر کسی کا ایک آنسو ہم اپنے صافے میں جذب کرسکے تو خود اپنی ذات پہ احسان کیا، کسی کے لیے اگر ہم رک نہیں سکے تو ایسا نہیں کہ ان کا درد ہم نے محسوس نہیں کیا۔ یوں ہے کہ کبھی خاموشی کے شور میں ہماری آواز دب جاتی ہے۔

بلوچستان میں جھوٹ، جبر اور دھونس کی وبائیں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کا سیاسی، سماجی اور معاشی لاک ڈاؤن کم وبیش پون صدی سے جاری ہے۔ ہدایات یہ ہیں کہ بلوچستان سے ایک محتاط فاصلہ رکھا جائے۔ ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے گریز کیا جائے۔ جانے ان جانے میں مصافحہ کر بھی لیا جائے تو بے حسی کے سینی ٹائزر سے ہاتھ دھو لیے جائیں۔ آپ کو سچائی کا بخار محسوس ہو رہا ہو یا یکجہتی کے درد اٹھ رہے ہوں تو بلوچستان کے قریب جاتے ہوئے ماسک ضرور پہنیں۔ بلوچستان کو بھی تب ہی قریب آنے دیں جب اس نے منہ پر خاموشی کا ماسک چڑھایا ہوا ہو۔ بلوچستان کی کہانیوں کو ہاتھ لگاو تو دستانے ضرور پہن لیا کرو۔ کہانی نقل کرو تو قلم کو پہلے حق اور سچ جیسے مضر اثرات سے پاک کر لیا کرو۔

یہ ساری احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اگر کچھ لکھا تو کیا لکھا۔ لے دے کے اپنے دن کاٹنے کو ایک خاموشی رہ جاتی ہے۔ وبا کے دنوں میں وقت نے دل کے حجرے میں بہت سارے کینوس کھڑے کر دیے ہیں۔ سامنے کے چوکھٹے میں حسیبہ قمرانی کا دوپٹہ لگا ہے جس پر اس کی آنسووں کی نمی ابھی باقی ہے۔ اس کے ساتھ والے چھوٹے چوکھٹے میں برمش کا چھوٹا سا دامن اٹکا ہوا ہے جس پر خون کی نمی بھی ابھی باقی ہے۔ جہاں جہاں سے کینوس سوکھتا جاتا ہے وہاں وہاں میں خاموشی پینٹ کرتا جاتا ہوں۔

یہ وہی خاموشی ہے جو الیکشن والے دن بلوچستان کے سنسان پولنگ سٹیشنوں میں بولتی ہے۔ جو نوے فیصد بلوچ تاریخ کے بیلٹ بکس میں کاسٹ کرتے چلے آرہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments