ہمارے سشانت کو ریسٹ ان پیس کہنے سے کیا ہو جائے گا؟


میں حساس ہوں۔ جن سے انسیت محسوس کرتی ہوں انہیں تکلیف میں دیکھنا مشکل لگتا ہے۔ پھر یہ جو سلیبریٹی ہوتے ہیں انہیں ہم ذاتی طور پر نہیں جانتے لیکن ان کے نبھائے کرداروں، ان کی شکلوں کے ساتھ ہم ایک خاص قسم کا لگاؤ محسوس کرتے ہیں۔ ہنستے مسکراتے ان کے چہرے، فلمیں دیکھتے ہوئے ہم ان کے ساتھ اتنا جڑ جاتے ہیں کہ اداس سین پر ان کے ساتھ رو دیتے ہیں، مشکل میں پھنسے ہیرو کے لئے دعا کرنے لگتے ہیں، حالانکہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اختتام اچھا ہو گا اس کے باوجود ہم اس دو گھنٹوں کے لئے بسائی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ ایسے میں کبھی ہیرو دل کو بھا جاتا ہے تو کبھی کوئی چھوٹا کردار نبھانے والا اور ہم فلم ختم ہونے کے بعد اس کا نام گوگل کر کے اس کی تصویریں دیکھنے لگتے ہیں۔ میرے تیرہ سالہ بھانجے کو لگتا ہے کہ شتروگھن سنہا اور ڈیوین جانسن بہت مضبوط ہیں انہیں کبھی کوئی ہرا نہیں سکتا۔

کیسی عجیب بات ہے کہ اس معاشرے میں، مجھے یہ بھی کوئی اور آ کر بتائے گا کہ میری نظر کو کون اچھا لگنا چاہیے اور کس کس کے لئے مجھے دل میں تعصب رکھنا چاہیے۔ آپ سوچیں عمر میں آپ سے دو تین سال کا فرق رکھنے والا، زندگی سے بھر پور ہنستا مسکراتا نوجوان چہرہ، آپ کو بھلا بھی لگتا ہو، اس کی اداکاری بھی آپ کو پسند ہو، اچانک اس کی موت کی خبر ملنے سے کیا آپ پریشان نہیں ہوں گے۔ اس پر افتاد یہ کہ آپ سوشل میڈیا کھولیں تو اس مرے ہوئے شخص کو لوگ گالیاں بک رہے ہوں، خودکشی کرنے پر اسے ڈبل جہنمی قرار دے رہے ہوں۔

بے چارے کے پاس زندگی میں ہی سکون نہیں تھا اور اگر اسے کوئی RIP (ریسٹ ان پیس) کہہ رہا ہوتو اس پر بھی ہلہ بول دیا جاتا ہے کہ کافر کے مرنے پر افسوس نہیں، بھئی ہم اس کے مذہب کی بنیاد پر اسے دیکھ ہی نہیں رہے، ہم تو اسے انسان سمجھ کر افسوس کر رہے ہیں، ہمیں تو وہ تاریک راہیں نظر آ رہی ہیں جن سے کبھی کبھار ہمارا بھی گزر ہو تا ہے لیکن ہمت کر کے ان سے خود کو کسی نہ کسی طرح نکال لیتے ہیں لیکن وہ جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ”سرفراز دھوکہ نہیں دے گا“ خود کو دھوکہ دے گیا، وہ کم ہمت نکلا اور ان تاریک راستوں میں روشنی تلاش نہیں کر پایا اور وہیں بھٹکنا گوارا کر لیا۔

ہمیں تو یہ خوف ستاتا ہے کہ ہمارے آس پاس نہ جانے مزید ایسے کتنے نوجوان ہوں گے جو اپنے دل کا درد کسی سے بیان نہیں کر پاتے، اور اسی شش و پنج میں اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ اس معاشرے میں جہاں سانس لینے کی آزادی نہیں، جہاں ہم آرٹ بھی اپنی مرضی کا نہیں دیکھ سکتے، جہاں یہ خوف ہو کہ جلد یا بدیر ارطغرل نہ دیکھنے والوں کو بھی کافروں کی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا وہاں کیسے امید رکھی جا سکتی ہے کہ ہم کسی دوسرے فرد کو صرف اور صرف انسان سمجھیں، اس کے درد کو کم تر نہ سمجھیں اس کے بارے میں جنت اور جہنم کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیں، چاہے وہ طیارے میں جاں بحق ہونے والی ماڈل ہو، عرفان خان ہو، یا پھر سوشانت سنگھ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments