کیا آپ بھی پورن دیکھتے ہیں؟


پاکستان سمیت دنیا کے دیگر اسلامی ممالک میں بھی فحش فلمیں دیکھی جاتی ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ اس بات کو درست نہ سمجھیں یا مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا قرار دیں لیکن اگر ہم چند لمحے کے لئے مان لیں کہ یہ بات درست ہے تو سوال اٹھتا ہے۔ ۔ ۔ آخر کیوں؟

کیوں پاکستان سمیت دیگر مسلمان ممالک کے شہری فحش دیکھنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں؟

فائٹ دا نیو ڈرگ نامی ایک تنظیم کے مطابق دنیا کا 60 فیصد فحش مواد امریکہ سے جاری ہوتا ہے 42 کروڑ 80 لاکھ ویب گاہوں اور پرسنل پروفائل پیجز کے ساتھ یہ کام جاری ہے دوسری نمبر پر ہالینڈ 27 فیصد حصہ کے ساتھ اور برطانیہ 7 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے

اگر آپ ان اعداد کو دیکھیں تو مغرب کے تیار شدہ فحش مواد کے دلدادہ مسلمان ممالک بھی ہیں، لیکن سوال پھر وہی۔ کہ آخر کیوں؟

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی سائیکالوجسٹ سدرہ اختر سے یہی سوال کیے تو ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پہلی وجہ دیر سے شادیوں کا رجحان ہے جبکہ دوسری بات مذہبی سختی بھی ہیں، کیونکہ بغیر مذہبی بندھن کے جنسی زندگی کا تصور ممکن نہیں اس لیے لوگ فحش ویڈیو دیکھ کر گزارا کر لیتے ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ ہم براہ راست تو گناہ نہیں کر رہے اور دیکھنے کو گناہ کم ہی سمجھتے ہیں۔

دوسرے سوال پر سائیکالوجسٹ نے کہا مسلمان ممالک میں فحش ویب سائیٹ دیکھنے کا زیادہ رجحان بھی اس لیے ہے کہ ہمارے ہیں قحبہ خانے یا جنسی تعلقات قائم کرنے کے لئے مغرب کی طرح ذرائع موجود نہیں ہیں اور دوسری طرف خواتین بھی ہر کسی کو منہ نہیں لگاتی۔ چونکہ یورپ کی نسبت مسلمان ممالک میں پابندی زیادہ ہیں اس لیے تجسس بھی زیادہ ہے۔

عوام کی رائے میں کچھ دوستوں نے اس کو وقت کا ضیاع کہ کر جواب دیا کہ وہ اب دیکھنا چھوڑ چکے ہیں تو کچھ کا کہنا تھا کہ فرسٹریشن دور ہوتی اور سکون ملتا ہے۔

پاکستان میں فحش ویب گاہیں پاکستانی حکومت کی جانب سے بند کردی گئیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے 8 لاکھ سے زیادہ ایسی ویب گاہیں بند کی ہیں جن میں جنسی مواد نشر کیا جاتا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان ویب سائٹس کو بند کرنے سے فحش مواد تک رسائی بھی ختم ہوئی ہے یا نہیں؟ جواب بھی پڑھ لیجیے۔

پاکستان جیسے ممالک میں فحش مواد تک رسائی کا بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ٹولز ہیں۔ ٹویٹر، انسٹا گرام، فیس بک اور خاص کر واٹس ایپ پر یہ مواد آپ کو فری میں ملے گا اور اگر اس کے باوجود آپ نے ویب سائٹ پر ہی جانا ہے تو ان ویب سائٹس کو پراکسی یا وی پی این کے ذریعے باآسانی کھول سکتے ہیں۔ آپ گوگل پر سیکس گروپ لکھیں آپ کو ہزاروں لنکس ملیں گے آپ کسی بھی گروپ کا حصہ بن سکتے ہیں اور فحش ویڈیوز تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اور گروپس بھی اسی طرز کے ہیں جس طرز کی آپ کو جنسی تسکین چاہیے۔

ہم نے پوشیدہ طور پر کچھ گروپس کا حصہ بن کر مشاہدہ کیا ہے کہ چند ایک گروپ چھوڑ کے دیگر فحش گروپس میں جو مانگ کی جاتی ہے وہ بچوں سے جنسی عمل کی ویڈیوز کی ہے اور یہ ویڈیوز کوئی فحش ویب سائٹس جاری نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر یورپین ممالک کے لوگوں کی ویڈیوز ہوتی ہیں جو خود خاص طور پر بچیوں کو جن کہ عمر 5 سال یا کم ہوتی ہے ان سے جنسی عمل کرتے ہوئے بناتے ہیں اور پھر اس کو بھیجا جاتا ہے۔

بچوں سے جنسی زیادتی میں سوشل میڈیا کا کردار کتنا ہے؟

ایک طرف تو ہزاروں کی تعداد میں ویڈیوز موجود ہیں اور ان کے صارف زیادہ تر 20 سال تک کی عمر کے جوان ہیں۔ لڑکوں کا زیادہ رجحان ان خواتین کی ویڈیوز کی طرف ہے جن کی نسوانیت عام لڑکیوں سے کئی درجہ زیادہ ہے جبکہ خواتین میں چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی عمل کی ویڈیوز مانگنے اور دیکھنے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں حالات گمبھیر ہیں یہاں بھی بچوں سے زیادتی کا عمل کیا جا رہا ہے۔

آپ سوچیے لاک ڈاؤن یا اپنے کمرے میں ہر کسی کے پاس موبائل کے ذریعے ان ویڈیوز تک رسائی حاصل ہے لیکن اس جنسی عمل کے لئے جنس مخالف کی عدم موجودگی اور بچوں تک آسان رسائی موجود ہے۔ ۔ ۔ دماغ میں موجود جنسی تسکین کا بھیڑیا ایسے حالات میں کچھ بھی کر سکتا ہے۔

وقار حیدر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار حیدر

وقارحیدر سما نیوز، اسلام آباد میں اسائمنٹ ایڈیٹر کے فرائض ادا کر رہے ہیں

waqar-haider has 57 posts and counting.See all posts by waqar-haider

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments