عمومی حکومتی و عوامی رویے اور موجودہ صورتحال


پاکستان کی حد تک تو یہ بات وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ یہاں سیاست عوامی فلاح کے امور سے یکسر الگ ہے۔ اس کی بنیاد شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور حصول کو یقینی بنانے کی بجائے مخالفوں سے نفرت میں پنہاں ہے۔ اور شاید اسی لئے یہاں ریاستی مسند تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مخالف سیاستدانوں کو لتاڑنے کا نسخہ نہایت کارآمد اور آزمودہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب نئی حکومت تشکیل پاتی ہے تو عوام حکومت اور ریاست سے اس کردار کی توقع کرتی ہے جس کی بنا پر نہ تو انہوں نے اپنی قیادت کی صلاحیتوں کو جانچا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا انتخاب ایسے کسی پیمانے پر کیا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سبب اگر حالات مزید سنگینی اختیار کرتے ہیں تو اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہونے چاہیے۔

کہتے ہیں کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے۔ اسی لئے حکومتی نمائندے اقتدار میں آکر ایسی ماں کا روپ اپناتے ہیں جو بھوک سے تڑپنے والے بچوں کو چولہے پر موجود خالی ہنڈیا میں اچھے پکوان تیار ہونے کی نوید سناتی رہتی ہے جس کا انتظار کرتے کرتے بچے تھک کر سو جاتے ہیں۔ یہ ماں اپنے بچوں کو سوتیلی ماؤں یعنی سابقہ حکومتوں کے مظالم کے قصے بھی سناتی ہے تاکہ بچوں کو یقین ہو جائے کہ ان کے مسائل کی شناخت کر لی گئی ہے اور حل تلاش کرلئے گئے ہیں اور وہ اب محفوظ آغوش میں ہیں۔ اس غرض سے انتہائی محنت اور جانفشانی سے اعداد و شمار کا کھیل تیار کیا جاتا ہے جس کے ذریعے نہ صرف گزشتہ حکومتوں کو لعن طعن کی جاتی ہے بلکہ ایسے معاشی اشاریوں پر بہتری لانے کی حکمت عملی بھی تیار کی جاتی ہے جس کے ثمرات عوام تک پہنچنے کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں ہوتے۔

اگلے مرحلے میں اہم دور کا آغاز ہوتا ہے جس میں حکومت اور ریاست کو مل کر اصلاحی اقدمات کرنے ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انہیں مشکل فیصلے بھی کہا جاتا ہے جس میں عوام کو ایک بار پھر قربانی دینے کے لئے تیار ہونے کا پیغام دیا جاتا ہے۔ اس موقع پر حکومت اچانک ماں کے روپ سے نکل کر دیہات کے اس نائی کا روپ دھار لیتی ہے جسے چڑیا دکھا کر بچے کے ختنے کرنے کی بے پناہ مہارت حاصل ہوتی ہے۔ ہر دو صورتوں میں ریاستی حکمران اپنے ان رویوں کو ایک مہربان ماں کا ہی روپ قرار دیتے ہیں اور اس زعم میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ انتہائی مشکل فیصلے کرتے ہوئے بھی عوامی تائید اور اعتماد رکھتے ہیں۔

اس طرح کی متضاد کیفیت میں مسلسل رہنے سے انہیں ہر خامی اور کمزوری کو ایک بہتر وجہ فراہم کرنے کی مہارت ہوتی جاتی ہے۔ سیاستدان اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ عوام نے مخالفوں پر لگائے گے جن نفرت آمیز بیانات کی بنا پر ان کو منتخب کیا تھا اس کی آنچ کو دھیما نہیں پڑنا چاہیے تاکہ کہیں ان کا ووٹر مایوسی میں مخالف کیمپ کی جانب نہ چل پڑے۔

اوپر بیان کردہ تناظر میں موجودہ حکومت نے بھی گزشتہ حکومتوں کی طرح سبھی حربے آزما لئے ہیں۔ بیک وقت کئی محازوں پر مخالفین کی پکڑ دھکڑ اور ان کی کردار کشی کا عمل نقطۂ عروج پر جاری ہے۔ کرپشن کے الزامات کے حوالے سے شروع کیے گئے آپریشنز میں اب تک پھوٹی کوڑی بھی وصول نہیں ہو سکی لیکن میڈیا ٹرائل سے سیاسی فوائد بہر حال حاصل کیے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دو سال سے نیب جو کہ اپنی نوعیت کا انوکھا اور منفرد ادارہ ہے حکومت کی مشکلات کو آسان کرنے کے لئے ہراول دستے کا کردار ادا اکر رہا ہے۔ اس کی کارروائیوں کی رفتارضرورت کے مطابق تیز اور آہستہ ہوتی رہتی ہے۔ اب تو ایک عام آدمی بھی اس کے یک طرفہ احتسابی رجحان اور بھاؤتاؤ کے لئے استعمال ہونے سے پوری طرح آگاہ ہے۔

کرونا کی وبا کا مقابلہ بھی کچھ اسی انداز سے کیا جا رہا ہے۔ لاک ڈاؤن ہونا چاہیے یا نہیں؟ اس کو سمارٹ کیسے بنایا جائے؟ اجتماعی مذہبی اور سماجی رسومات کو کیسے جاری رکھنا ہے یا وغیرہ وغیرہ۔ چلیں ایسے سوالات اور گفتگومیں تضاد تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اصل تشویش کی بات یہ ہے کے حکومت ہر طرح کی ممکنہ صورت حال سے متعلق اپنے موقف کو درست ثابت کرنے لئے غیر واضح اور مبہم پیغامات کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔ اس دوران میں وفاق اور سندھ حکومتوں کے موقف کے ٹکراؤ نے عوام کی ایک بڑی تعداد میں مایوسی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے۔

ضرورت اس بات کی تھی کہ حکومت وبائی مرض کے حوالے سے کیے گے اہم فیصلوں پر نہ صرف پارلیمنٹ میں بحث کا اہتمام کرتی بلکہ عوامی سطح پر سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی ہر پہلو سے ممکنہ فیصلوں اور ان کے متوقع اثرات کا جائزہ لیتیں اور عوامی سوچ کو سامنے لاتیں۔ اس کا ذمہ دار صرف حکومت یا سیاستدانوں کو قرار دینا درست نہیں ہوگا۔ عوامی سطح پر ان مسائل کو صرف صحافتی حلقوں میں بہتر انداز سے اجاگر کیا گیا لیکن این جی اوز اور سول سوسائٹی تنظیموں کا کردار مقامی سطح پر خدمات کی فراہمی کے لئے سہولت کاری تک محدود رہا اور کوئی موثر آواز مطالبات کی صورت میں واضح طور پر بلند نہیں کی گئی۔ یہاں پر طلعت حسین، بینظیر شاہ اور شاہ زیب خانزادہ کی مثبت اور موثر صحافیانہ خدمات کا ذکر ضرور کرنا ضروری ہے جنہوں نے وبائی مرض کے پھیلاؤ کے حوالے سے بروقت اور مسلسل طور پر خطرات کی نشاندہی کی اور حکومت کی سمت کاری کے لئے اہم توجہ طلب مسائل اجاگر کیے ۔

تاریخی اعتبار سے کمزور معیشت اور سماجی ناہمواری کے سبب حکومتیں اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پر جوابدہی سے پہلو تہی کرنے کے لئے مذہبی جماعتوں اور شخصیات کے اثر کو بھی استعمال میں لاتی رہی ہیں۔ اس لئے پاکستان میں بھی ایسی جماعتوں اور افراد کا اثر ورسوخ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں دو مذہبی شخصیات نے بالواسطہ طور پر حکومتی ذمہ داریوں کا دباؤ عوام کی طرف منتقل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کیا۔ ایک صاحب نے وبائی مرض کو عوام کی بے راہروی اور مذہب سے دوری کی وجہ قرار دیا اور دوسرے صاحب نے رہے سہے لاک ڈاؤن کی دھجیاں عبادت گاہوں کو کھولنے یا نہ کھولنے کی بحث کے ذریعے ہوا میں بکھیر دیں۔

میں اپنی بحث کو اس نقطے پر سمیٹتا ہوں کہ فلاحی ریاست کے تصور کو مضبو ط کرنے اور جمہوریت کے ثمرات حاصل کرنے کے لئے عوام کو اپنی سوچ کو اجتماعی بہتری اور شفاف طرز حکومت کے حصول کی طرف مرتکز کرنے کی ضرورت ہے ورنہ گلشن کا کاروبار ایسے ہی چلتا رہا ہے اور ایسے ہی چلتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments