سوشانت اور اسحاق بلوچ کی بہن کی خودکشی


پڑوسی ملک کے فلم ایکٹر سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کی خبر موضوع بحث بنی رہی اس سے مینٹل ہیلتھ ایشوز پہ بحث ہوتی رہی تو کہیں جنت کے ٹھیکیدار اس بات پہ سیخ پا نظر آئے کہ لوگ سوشانت کی مغفرت کی دعا کیوں کر رہے ہیں کچھ لوگ مذہبی تعلیمات و رسومات پر عمل سے دوری کو ڈپریشن کی وجہ گردانتے رہے۔

اکثر لوگوں کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر مینٹل ہیلتھ ایشوز سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے کچھ لوگ اس سے لاعلم رہتے ہیں اور اندر ہی اندر اپنے آپ کو کھا رہے ہوتے ہیں کچھ اس پہ کھل کر بات کرتے ہیں اور اپنے زندگی کو پرانی ڈگر پر لانے کی کوشش کرتے ہیں تو کچھ معاشرتی رویوں کے خوف سے اس پہ بات کرنے سے کتراتے ہیں۔

جس دن سوشانت نے اس دنیا سے دوری کا فیصلہ کیا اسی دن بلوچستان میں اسحاق بلوچ کی بہن نے اپنے لاپتہ بھائی کی جدائی کے غم اور اس کی واپسی کی کوئی امید نہ پا کر خودکشی کر لی جس پر بہت ہی چنیدہ لوگوں نے بات کی نہ ہی کسی میڈیا آؤٹ لیٹ نے خبر دی۔ جب ہم مینٹل ہیلتھ کی بات کرتے ہیں تو ان لوگوں کی حالت کا سوچیں جن کے پیارے سالوں سے غائب ہیں۔ ان کے اہلخانہ کی ذہنی صحت کی کیا حالت ہو گی جو ماؤرائے عدالت قتل کر دیے جاتے ہیں۔

جنگ کے ماحول میں پروان چڑھے بچوں کی ذہنی صحت پر کیا اثرات پڑے ہوں گے۔ وہ جو سالوں تک اپنے گھروں سے دربدر رہے کیونکہ ان کے علاقوں میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن ہو رہے تھے اور جب واپس گئے تو گھر مسمار اور کاروباری مراکز تباہ ہو چکے تھے لیکن امن و امان کی صورتحال آج بھی وہی ہے زندگی کی ضمانت آج بھی نہیں ٹارگٹ کلنگ عروج پر ہے۔

ان بلوچ ماؤں اور بہنوں کی ذہنی صحت پر کیا اثرات پڑتے ہوں گے جب ان کے پیاروں کی تشدد زدہ لاشیں ویرانوں سے ملتی ہیں۔
چھے ماہ سے زائد عرصے سے لاپتہ ادریس خٹک کے اہلخانہ کی ذہنی اذیت کی ذمہ دار تو یہ ریاست ہے اور اس ریاست سے سوال نہ کرنے والے بے حس لوگ۔
طاہر داوڑ کے قتل کو ڈیڑھ سال گزر گیا آج تک ان کے قاتلوں کا تعین نہیں کیا جا سکا اس کے اہلخانہ شدید اذیت میں ہیں ان کا بیٹا انصاف کے لیے دہائیاں دے رہا ہے۔
ان ریاستی مظالم کے علاوہ ہر وہ شخص جو مہذب ہونے کا لبادہ اوڑھے ہوتا ہے اپنے رویے اور افعال سے اردگرد موجود متعدد لوگوں کا استحصال کر کے ان کو شدید ذہنی اذیت دیتا ہے۔

چاہے وہ کوئی جاگیردار ہو یا کوئی مل اونر جو ورکرز کا مالی استحصال کر کے انہیں ذہنی اذیت میں مبتلا کرتا ہے۔ کسی مدرسے کا مولوی ہو جو بچوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر ان کا جنسی استحصال کر کے ان کو ذہنی اذیت دیتا ہے کوئی مذہبی شدت پسند ہو جو آزادی اظہار پر لوگوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کرتا ہے یا کسی پرائیویٹ سکول کا سربراہ جو نہ صرف اپنے سکول میں خواتین ٹیچرز کا مالی استحصال کرتا ہے بلکہ ان ٹیچرز اور طالبات کا جنسی استحصال بھی۔ اس طرح کے ہزاروں عوامل لوگوں کو ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار کرتے ہیں جن سے نبرد آزما ہونے میں معاشرہ سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے نتیجتاً کچھ لوگ زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں یا پھر گھٹ گھٹ کر جیتے نہ مرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments