طارق عزیز سے جڑی کچھ یادیں کچھ باتیں: ’ہمارے دور کے محبوب پہچانے نہیں جاتے‘


یہ جنوری سنہ 1976 کی بات ہے۔

اتوار کا دن تھا اور دوپہر کا وقت۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام نیلام گھر کی ریکارڈنگ تھی۔ پروگرام کا کارڈ بڑی تگ و دو کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔

اس دن یکم محرم بھی تھی۔ چنانچہ پروگرام کے آغاز میں بتایا گیا کہ آج ابتدائی مرحلے کے تمام سوالات محرم الحرام کی مناسبت سے پوچھے جائیں گے۔

پہلے مرحلے کے امیدواروں کے انتخاب کا سلسلہ جاری تھا مگر طارق صاحب ہم سے دور دور ہی تھے۔ اتنے میں انھوں نے سوال پوچھا کہ امام حسین کا نام ان کی پیدائش کے وقت کیا رکھا گیا تھا۔ کسی نے اس کا جواب حسین بتایا کسی نے شبر۔ جب سات آٹھ لوگوں سے سوال کیے جانے کے بعد بھی درست جواب نہ ملا تو طارق عزیز نے اعلان کیا کہ صرف وہ لوگ ہاتھ کھڑا کریں جنہیں درست جواب آتا ہے۔ پورے ہال میں صرف ہمارا ہاتھ اٹھا۔

طارق عزیز صفیں چیرتے ہوئے ہم تک پہنچے۔ ہم نے انھیں جواب دیا ‘حرب’۔ طارق عزیز نے حیرانی سے ہماری طرف دیکھا اور فلک شگاف نعرہ لگایا۔ جواب درست ہے! ہمارا انتخاب دوسرے مرحلے کے لیے ہو چکا تھا۔

اس کے بعد ہم دوسرے اور تیسرے مرحلے کو باآسانی عبور کرتے ہوئے آخری مرحلے تک پہنچ گئے۔ جہاں موٹر سائیکل کے لیے سوالات کی بولی دینی تھی۔ طارق عزیز کی محفوظ بولی اٹھارہ سوال تھی۔ جو تیرہ سوال میں ہمارے نام چھوٹی۔ یعنی ہمیں اٹھارہ میں سے تیرہ سوالات کے درست جواب دینے تھے۔ طارق عزیز نے ہم سے پوچھا ‘آپ کا شعبہ۔۔۔ہم نے جواب دیا اردو ادب۔’

یہ بھی پڑھیے

’دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں‘ کو طارق عزیز کا آخری سلام

اب سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور ہم بغیر کسی غلطی کہ تیرہ سوالات کے مسلسل درست جواب دے کر موٹر سائیکل جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔

اس کے بعد طارق عزیز سے نیلام گھر کی سالگرہ کے پروگرام میں ملاقات ہوئی۔ اس پہلی سالگرہ کے پروگرام میں سال بھر میں سب سے بڑا انعام جیتنے والوں کے درمیان مقابلہ تھا۔ پہلی سالگرہ کا پروگرام بھی ہمارے نام رہا۔ جب کہ دوسری سالگرہ کے پروگرام میں منظر اکبر نے کار جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔

پھر سنہ 1980-81 میں نیلام گھر کے پروڈیوسر تاجدار عادل اور سکرپٹ ایڈیٹر مدثر رضوی نے ہمیں نیلام گھر کی ریسرچ ٹیم کا حصہ بننے کی دعوت دی۔ اب گاہے بگاہے تاجدار عادل کے کمرے میں طارق عزیر سے ملاقاتیں بھی ہونے لگیں۔

تاج دار عادل اور طارق عزیز ایک جگہ موجود ہوں اور شعر و شاعری کا سلسلہ نہ ہو یہ ممکن نہیں تھا چنانچہ ہم ان دو حضرات کی شاعری سے بھی لطف اٹھانے لگے۔ طارق عزیز گاڑھی بالائی والی چائے پینے کے بعد موڈ میں ہوتے تو اپنی زندگی کے متفرق واقعات بھی سناتے۔

پاکستان ٹیی ویژن کی اولین نشریات کے لیے ان کا انتخاب کیسے ہوا۔ انھوں نے ٹی وی کیمرے کی براہ راست نشریات کا سامنا کیسے کیا۔ انسانیت، سالگرہ اور قسم، اس وقت کی مشہور فلموں کے تجربات بیان کرتے۔

پاکستان پیپلز پارٹی میں کیسے شامل ہوئے، جنرل شیر علی نے ان کے رزق کے دروازے کیسے بند کیے۔ پھر انھوں نے پیپلز پارٹی کس طرح چھوڑی۔ یہ سب واقعات ہم نے ان ہی ملاقاتوں میں سنے۔

ایک مرتبہ بتانے لگے کہ لوگ انھیں اپنے مسائل سناتے ہیں۔ مگر انھیں دکھ ہوتا ہے جب وہ ان سب لوگوں کی مدد نہیں کر پاتے۔

انھوں نے شعر سنایا:

بے سہارا کوئی ملتا ہے تو دکھ ہوتا ہے

میں بھی کیا ہوں کہ کسی کام نہیں آ سکتا

شعر سن کر سبھی بھڑک اٹھے۔ پوچھا کس کا شعر ہے۔ کہنے لگے صابر ظفر کا ہے۔

پھر طارق عزیز اور نیلام گھر لاہور چلا گیا۔ لاہور جانے کے بعد بھی کچھ عرصہ تک اس پروگرام سے ہمارا تعلق قائم رہا۔ مگر جب پروگرام کے پروڈیوسر تبدیل ہوئے تو ہمارا تھوڑا بہت سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔

سنہ 2011 میں سینٹر آف سوک ایجوکیشن نے ہمیں سوک ایجوکیشن ایوارڈ دینے کے لیے اسلام آباد مدعو کیا تھا۔ ہمارا میریٹ ہوٹل میں قیام تھا صبح ناشے پر طارق عزیز سے ملاقات ہوئی جو ٹی وی کی کسی میٹنگ کے سلسلہ میں اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ ہم ناشتہ لے کر ان کی میز پر جا بیٹھے۔ مسکرائے۔۔۔پہچانے کی کوشش کی۔ پھر ہمارا نام لیا، میں مسکرایا تو شعر پڑھا۔

زمانہ کس قدر تبدیل کر دیتا ہے انسان کو

ہمارے دور کے محبوب پہچانے نہیں جاتے

میں نے آہستہ سے کہا، شعر میں تو پامال ہے۔ کہنے لگے مجھے معلوم ہے مگر ابھی نہ ہم پامال ہوئے ہیں نہ آپ اسے ’تبدیل‘ ہی رہنے دیجیے۔

خدا حافظ ۔۔۔۔طارق صاحب۔۔۔خدا حافظ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).