سکندر اعظم کا پنجاب پر حملہ (325 – 326قبل مسیح )۔


سکندر جب دریائے سندھ پر پہنچا تو اس نے اپنے لشکر کا ایک حصہ بڑی بڑی سات کشتیاں تیار کر کے دریائے سندھ کے راستے روانہ کیا، اور خود دریا پار کر کے ٹیکشاشیلا کی ریاست میں داخل ہوا جہاں کا راجہ ”امبھی“ تھا جس کی حکومت درہ خیبر سے لے کر دریائے جہلم تک کے علاقے پر تھی، راجہ امبھی نے سکندر کی طاقت دیکھتے ہوئے اس کی اطاعت اختیار کی، اور سکندر کی بہت مہمان نوازی بھی کی تب سکندر نے اس کو اس ریاست کے حکمران کے طور پر برقرار رکھا، یہاں ایک قابل ذکر واقعہ پیش آتا ہے کہ ٹیکشاشیلا کی درسگاہ کے سات اساتذہ نے سکندر پر اس کی ملک گیری کی ہوس کی بابت بھرے دربار میں سخت تنقید اور مخالفت کی جس پر سکندر نے ناراض ہو کر ان کے قتل کا حکم دے دیا اور ان اساتذہ کو کلمہ حق کی پاداش میں قتل کر دیا گیا۔ یعنی روشن ضمیری اور حق گوئی بنیادی طور پر علم کی ہی خاصیت ہے۔

اس سے آگے دریائے جہلم کے پار، پنجابی راجہ پورو کی حکومت تھی۔ یونانی زبان میں اکثر الفاظ کے آخر میں ”س“ کا اضافہ کر دیا جاتا تھا اسی وجہ سے ”پورو“ کو پورس کہا گیا پورس یونانی تلفظ کا لفظ ہے ”یہ پورو کی ریاست لاہور سے کافی آگے تک قائم تھی لاہور کا کچھ خاص ذکر اس حملے کی روداد میں نہیں ملتا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاہور ان دنوں کوئی غیر اہم قسم کا دیہہ ہو گا۔

ملتان اس وقت اس ریاست میں شامل نہ تھا اور ایک الگ ریاست کی حیثیت رکھتا تھا جو بہاولپور تک پھیلی ہوئی تھی۔ دریائے جہلم سے پار کے علاقے کا راجہ ”پورو“ تھا جس کی سکندر کے لشکر کے ساتھ جنگ مونگ رسول کے قریب ہوئی تھی۔ اس وقت اور سامان جنگ کی کچھ دریافت شدہ باقیات آج گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی رسول کی تاریخی عمارت میں قائم کیے گئے ایک چھوٹے سے میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔

اس معرکے سے قبل آج کی جی ٹی روڈ کے نزدیک کے علاقے میں دریا پار کر آنے والے ایک یونانی دستے کا مقابلہ کرتے ہوئے راجہ پورو کا بیٹا ہلاک ہو گیا تھا۔ قصہ مختصر کے، تو جنگ کے نتیجے میں سکندر کی افواج نے آگ اور تیر اندازی و نیزہ بازی سے پورو کے لشکر میں شامل ہاتھیوں کو خوفزدہ کر دیا اور ان ہاتھیوں نے مڑ کر بھاگتے ہوئے اپنی ہی فوج کی صفیں الٹ دیں اسی وجہ سے ”پورس کے ہاتھی“ محاورہ بن گیا جو آج تک مستعمل ہے۔

اسی معرکے میں سکندر کا مشہور اور پسندیدہ گھوڑا بیوسیفالس بھی ہلاک ہوا جس کی یاد میں فتح کے بعد اس کی یاد میں ایک قصبہ آباد کیا گیا اور یہاں اس گھوڑے کی یادگار بنائی گئی جو افتاد زمانہ کی وجہ سے آج معدوم ہو چکی ہے لیکن یہ قصبہ آج بھی پھالیہ کے نام سے موجود ہے۔ شکست کے بعد زخموں سے چور راجہ پورو کو جب زنجیروں سے جکڑ کر سکندر کے سامنے لایا گیا، راجہ پورو غیر معمولی طور پر طویل القامت اور بہت بہادر شخص تھا، تو سکندر اس کی بہادری اور شاندار شخصیت سے بہت متاثر ہوا۔ یہاں وہ مشہور مکالمہ ہوا کہ جب سکندر نے پورو سے پوچھا کہ تم سے کیا سلوک کیا جائے تو پورو نے تاریخی جواب دیا کہ وہی جو بادشاہ، بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں اس پر سکندر نے اس کی زنجیریں کھولنے کا حکم دیا اور اسے اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔

اس طرح سکندر اور پورو کی آپس میں دوستی قائم ہو گئی سکندر نے پورو کو بدستور علاقے کا حکمران رکھا اور پورس نے اپنی فوج کے ایک چنیدہ دستے کو سکندر کے ساتھ روانہ کیا، جنہوں نے یونانی افواج کے ہمراہ ملتان کے محاصرے میں شمولیت اختیار کی۔ ملتان سے سکندر کی افواج کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، یہیں فصیل سے چلایا گیا ایک تیر سکندر کے پاؤں کی ایڑی پر لگا جس سے سخت تکلیف ہوئی اور خون بہنے لگا، اس تکلیف کے عالم میں سکندر ہنسنے لگا اور کہنے لگا کہ آج معلوم ہوا کہ دیوتاؤں کو بھی درد ہوتا ہے اور ان کا خون بھی بہتا ہے، کیونکہ سکندر کے درباری خوشامد سے اس کو کہا کرتے تھے کہ آپ انسان نہیں بلکہ ایک دیوتا ہیں۔ تو سکندر نے یہ کہہ کر ان ہی پر طنز کیا تھا۔

ان سخت معرکوں اور یہاں کی شدید ترین گرمی نے سکندر کے لشکر میں مایوسی پھیلا دی اور سکندر خود بھی بخار میں مبتلا رہنے لگا یہ بھی سکندر اور اس کی افواج کے یونان واپسی کے فیصلے کی وجہ بنی، تو سکندر نے بلوچستان اور سندھ کے راستے سمندر تک جا کر بحری جہازوں پر یونان کا واپسی کا سفر اختیار کیا اس راستے کے دوران سکندر کے لشکر کے ساتھ شامل تاریخ دان ایک ایسی وادی کا ذکر کرتے ہیں جہاں سونے کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے شاید یہ سیندک کی وادی کا ذکر ہو۔ یونان پہنچ کر سکندر کی صحت خراب ہو گئی اور وہ تینتیس سال کی عمر میں ملیریا بخار میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو گیا کچھ روایات کے مطابق ملتان کے محاصرے کے دوران سکندر کے پاؤں میں لگنے والا تیر زہر آلود تھا جس کے اثر سے ہی اس کی ہلاکت ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments