فراست صاحب! ہم آپ کو نہیں بھولے


بہت سے لوگ محمد فراست اقبال صاحب کو پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سے وابستہ ایک باصلاحیت اور محنتی بیوروکریٹ کے طور پر جانتے ہوں گے، لیکن بیوروکریسی کے روایتی پروٹوکول کی ہاہاکار اور اعلی عہدے کی چکاچوندی سے ہٹ کر وہ علم و آگہی کی روشنی سے منور ایک درویش اور بے نیاز قسم کی باذوق اور وضع دار ادبی شخصیت تھے۔ بیوروکریٹک رویے سے بالکل پاک اور سادہ انسان۔ ان کی دانش، برمحل اشعار سے مزین برجستہ گفتگو، حاضر دماغی اور ادب نوازی جیسے اوصاف ان کی ہمہ جہت شخصیت کا خاصا تھے۔ ایک حساس شاعر کی طرح، ان کی ذات میں بھی پرت در پرت کئی دکھ تھے لیکن انہیں ان دکھوں کو چھپانے اور نبھانے کا سلیقہ بھی خوب آتا تھا۔

فراست صاحب سے ہمارا تعلق ایس ایم ایس کے ذریعے قائم ہوا۔ 2009 ء میں ”نوائے اوچ“ کے نام سے ہم نے ایک نیوز الرٹ سروس کا آغاز کیا تھا۔ قومی، مقامی اور بین الاقوامی منظر نامے کو ادبی شکل میں محض چند سطور میں مقید کر کے اسے فون بک میں موجود تمام دوستوں کو ارسال کر دیتے تھے۔ ہر دن کے اختتام پر ہماری اس سروس کا آخری ایس ایم ایس ”شب بخیر“ کے نام سے ہماری ژولیدہ فکری اور بے ربط خیالات پر مشتمل ہوتا۔ ہماری اس کاوش کو سب سے پہلے سراہنے والے فراست صاحب تھے۔

2013 ء کے نزعی دن تھے۔ دراصل ان کا موبائل نمبر ایک صاحب نے دیا تھا کہ آپ اس نمبر کو بھی اپنی فون بک میں محفوظ کر لیں اور ایس ایم ایس بھیجتے رہا کریں۔ ہم نے روٹین کے مطابق اس نمبر پر ایس ایم ایس بھیجنا شروع کر دیے۔ ایس ایم ایس بھیجنے کے چند دنوں بعد اسی نمبر سے توصیفی کلمات پر مشتمل ایک مسیج ہمیں موصول ہوا۔

دوسرے روز رات تقریباً 9 بجے کا وقت تھا، ”شب نامہ“ بھیجنے کے بعد ہم خیر پور ڈاہا روڈ پر ارشد کے ڈھابے پر چائے سے حظ اٹھا رہے تھے کہ اسی نمبر سے کال موصول ہوئی۔ ہم نے اٹینڈ کی تو دوسری طرف سے نفاست و شائستگی سے بھرپور انتہائی خوبصورت کھنکتی آواز سنائی دی۔ اپنے تعارف کے بعد ہماری نیوز الرٹ سروس کو سراہتے ہوئے، ہمارے بارے میں تفصیلات پوچھنے لگے۔ نام، ولدیت، کیا کرتے ہیں، کہاں رہتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

جب ہم نے اپنے شہر کا نام بتایا تو کچھ سوچ کر کہنے لگے کہ ”اوچ شریف۔ ۔ ۔ یہ ڈیرہ غازی خان کے ضلع میں ہے؟“ ہم گویا ہوئے کہ ”نہیں سر! یہ ضلع بہاول پور کی ایک سب تحصیل ہے“ ۔ پھر کچھ سوچ کر کہا ”اچھا اچھا۔ ۔ ۔ بہاول پور۔ ۔ ۔ اسلامیہ یونیورسٹی والا بہاول پور“ ۔ پھر رسان سے کہا ”نعیم صاحب! میں مظفر گڑھ میں ڈی سی او کے طور پر تعینات ہوں۔ آپ کو کسی بھی وقت میری مدد کی ضرورت ہو تو ضرور یاد کیجیے گا“ ۔ اس وقت ان کے لہجے میں عاجزی اور انکساری جھلک رہی تھی۔

ایس ایم ایس کے ذریعے قائم ہونے والا یہ اچھوتا تعلق ان کی وفات تک ایس ایم ایس کے ذریعے ہی قائم رہا۔ ہماری بدقسمتی سمجھیں یا وقت کی بے برکتی۔ چاہنے کے باوجود ان سے کبھی نہ مل پائے۔ ہمارا آبائی گاؤں ٹبہ برڑا سرکی۔ ۔ ۔ جہاں ہمارا بچپن اور لڑکپن گزرا، ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور میں سندھ و چناب دریاؤں کے حسین سنگم پر واقع ہے۔ ایک بار ٹیلی فونک گفتگو کے دوران انہوں نے پوچھا کہ آپ اپنے ”شب بخیر“ کے ایس ایم ایس میں اپنے گاؤں کے ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔ آپ کا گاؤں کہاں واقع ہے۔

ہم نے بتایا کہ ہمارا بچپن اور لڑکپن آپ کی ”قلم روئے سلطنت“ کی حسین اور سر سبز و شاداب فضاوں میں گزرا۔ انہوں نے ہمارے گاؤں کا نام پوچھا اور 2014 ء کے سیلاب کے ہنگام جب گاؤں کی سمت جانے والے راستے اتھل پتھل تھے، وہ سیت پور میں اپنی گاڑی کھڑی کر کے کئی کلومیٹر کا فاصلہ موٹر سائیکل پر طے کر کے ہمارے گاؤں وارد ہوئے۔ ہمارے علاقے کے معروف زمیندار جام اقبال سرکی سے کہا کہ ”یہاں نعیم صاحب رہتے ہیں، مجھے ان کے گھر لے چلیں“ ۔ اب جام صاحب حیران و پریشان کہ یہ نعیم صاحب کون ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ نعیم نام کا کوئی شخص گاؤں میں نہیں رہتا۔ تب فراست صاحب نے ان کی پریشانی بھانپتے ہوئے انہیں ہمارے والد صاحب کا نام بتایا تو انہوں نے کہا ”اوہ۔ ۔ ۔ اچھا۔ ۔ ۔ استاد شبیر صاحب کے گھر۔ ۔ ۔ وہ تو ہمارا استاد گھرانہ ہے“ ۔

اب زمیندار صاحب کی معیت میں فراست صاحب اور ان کی ”اقتدا“ میں تحصیل بھر کی ساری انتظامیہ پیدل روی کرتے ہوئے ہمارے گھر روانہ ہوئے۔ ”قصر ناز“ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ بھائی جان کے پاس پڑھنے والے کسی بچے نے دروازہ کھولا اور زمیندار، پولیس اور اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر حواس باختہ ہو گیا۔ بھائی جان کو آ کر بتایا ”استاد جی! چھاپہ پڑ گیا ہے“ ۔ شبیر بھائی نے اختر بھائی کو حقیقت حال جاننے کے لئے گیٹ پر بھیجا۔ جو مہمانان گرامی کو گھر لے آئے۔

شبیر بھائی اپنی جسمانی معذوری کے باعث چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ اک شان بے نیازی سے ان کی چارپائی کے پائنتی بیٹھ کر فراست صاحب نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ ”میں نعیم احمد ناز کا دوست اور مداح ہوں“ پھر بھائی جان سے ان کی معذوری اور بیماری کی بابت دریافت کیا ”۔ اچانک بھائی جان سے کہا“ کیا آپ میری نعیم صاحب سے بات کرا سکتے ہیں؟ دراصل میرا موبائل فون گاڑی میں رہ گیا ہے ”۔

افسوس کہ اس وقت ہم اوچ شریف میں تھے۔ لہذا ان سے روبرو ملاقات اور سگنلز پرابلم کے باعث موبائل فون پر بھی ”دوبدو“ بات نہ ہو سکی۔ بعدازاں اسی دن شام کو انہوں نے ڈی سی او ہاؤس مظفر گڑھ کے ٹیلی فون نمبر سے بات کی اور شگفتہ لہجے میں بتایا کہ میں نے آپ کے گھر کا ”سرپرائز وزٹ“ بھی کیا تھا اور آپ کے بھائی کے ساتھ چائے پیتے ہوئے آپ کے ”شب بخیر“ والے مسیجز کی خوشبو کو محسوس کرتا رہا لیکن آپ ”غیر حاضر“ تھے۔

14 اگست 2014 ء کو مظفر گڑھ کی ضلعی انتظامیہ نے یوم آزادی کی ایک تقریب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات سرانجام دینے والے لوگوں کو خصوصی ایوارڈز دینے کا فیصلہ کیا۔ فراست صاحب نے خصوصی طور پر فون کر کے دعوت دی اور ایوارڈ کے لئے نامزد کیا، تاہم ہم اس وقت بھی کچھ وجوہات کی بنا پر شرکت نہ کر سکے۔ انہوں نے معذرت قبول کرتے ہوئے ہمارے حصے کا ”فروغ اردو ایوارڈ“ مع اپنے ”آٹوگراف“ کے اپنے پی اے کے ہاتھ بھجوا دیا۔

شاید فراست صاحب سے ہمارا حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی نسبت والا تعلق تھا جو بن ملے اور بن دیکھے ہی شروع ہوا۔ ان کا شمار بھی نسبتوں والے لوگوں میں سے تھا۔ وہ ایک نیک روح تھے۔ آسانیاں دینے اور بانٹنے والے۔ ۔ ۔ انسان اور انسانیت سے پیار کرنے والے سچے، سیدھے اور مرنجان مرنج انسان۔ انہوں نے ہمیشہ دوسروں کا دکھ درد محسوس کیا اور اس کا مداوا کرنے کی کوشش کی۔ مظفر گڑھ سے تبادلے کے بعد ان کو پنجاب صاف پانی کمپنی کا پہلا چیف ایگزیکٹو افسر مقرر کیا گیا۔

بعد ازاں ممبر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ رہے اور پھر پنجاب کے سیکرٹری مینٹی نینس۔ ۔ ۔ لیکن کسی بھی مقام یا عہدے پر ان کی عاجزی اور بندہ پروری میں فرق نہیں آیا۔ ہماری ایک عزیز خاتون بغیر ان کو ملے صرف ان کی تصویر دیکھ کر ان کی شخصیت سے اتنی متاثر ہو گئیں کہ ہمارے توسط سے فراست صاحب سے آٹو گراف مانگ لیا۔ وہ واقعی ایک عظیم انسان تھے، شاید قدرت اللہ شہاب کا پرتو۔ ۔ ۔

حاتم طائی نے کوہ ندا سے آنے والی صداؤں کا راز موت کی وادی میں ڈھونڈا تھا۔ 21 جون 2017 ء کو ایسی ہی ایک صدا محمد فراست اقبال کو بھی آئی اور وہ چپ چاپ اس دار فانی سے کوچ کر کے عازم خلد بریں ہو گئے۔ اپنی زندگی میں بیک وقت کئی دکھوں، مسائل اور بیماری سے لڑنے والے فراست صاحب اپنی موت سے نہ لڑ پائے۔ خدائے کریم ان کی روح کو ہمیشہ آسودہ رکھے، اہل خانہ کو صبر و قرار دے۔

گزشتہ روز فراست صاحب کے ہونہار صاحب زادے علی حیدر نے ان کی ذاتی ڈائری سے ان کا کلام شیئر کیا۔ جسے پڑھ کر آنکھیں جل تھل ہو گئیں۔ آنسوؤں کے ان قطروں میں ان زمانوں کے نقش تیرتے تھے جو اب صرف یادوں میں بہتے ہیں۔ اس خوبصورت غزل میں فراست صاحب کا درد کتنی نزاکت اور شدت احساس کے ساتھ جھلک رہا ہے۔ آپ بھی ملاحظہ کیجئے۔

اب دوا مانگے ہے تجھ سے نہ شفا ہی مانگے
تیرا بیمار تو بس اذن رہائی مانگے
تم تو ہاتھوں میں وہی کاسہ سر لے آئے
وہ کہ ہر روز نیا طرز گدائی مانگے
وہ تو اترا ہے تیرے دل پہ بھی اور طور پہ بھی
جانے تو کون سی اب جلوہ نمائی مانگے
دیدہ و دل کو رہ یار بنا ہی لیتے
پر وہ ظالم ہے کہ راہیں بھی جدا ہی مانگے
جانے اب کون سے قریوں سے ہوا آتی ہے
یہ تو سانسوں کے عوض نقل مکانی مانگے
اک نمی چاہوں کبھی آنکھ میں دھندلی دھندلی
وہ ستم گر ہے کہ اشکوں کی روانی مانگے
اپنی بے ساختہ باتوں کو وہ جانے الہام
میری ہر بات پہ لیکن وہ گواہی مانگے
رونق سطح زمیں پہ نہیں قانع کیوں دل
کیوں فراست یہ دفینوں کی نشانی مانگے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments