کرشن چندر کیوں بڑا ہے؟


بڑے ادیب کا کمال یہ بھی ہے کہ وہ خواب دیکھتا ہے اور خواب میں دوسروں کو بھی شریک کر لیتا ہے۔ غور کریں تو 05 سے زائد ناولوں اور پانچ سو سے زائد کہانیاں لکھنے والے کرشن چندر نے ساری زندگی خوابوں کے دروازے پر دستک دی۔ غلامی سے آزادی کا سفر بھی خواب تھا اور آزادی کے بعد ننگے بھوکے ہندوستان کو خوشحالی کے راستہ پر دیکھنا بھی ایک خواب۔ کرشن چندر اس خواب میں رومانیت کوشامل کر لیتے تھے اور ایسا حسن پیدا کر دیتے تھے کہ قاری کے لیے ان کے طلسم اور سحر سے باہر نکلنا مشکل ہوتا تھا۔

اور بقول پروفیسر عبدالسلام کرشن چندر اردو کے واحد ادیب ہیں جنہوں نے زندگی کے ایک ایک تجربے، مشاہدے اور مطالعے کی ایک ایک سطر کی قیمت وصول کر لی ہے۔ اس جملہ سے کرشن چندر کی افسانوی کائنات کی اس حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے، جہاں قلم ہاتھ میں آتے ہی کرشن چندر اپنی دنیا کا خدا بن جاتا تھا۔ پھر دنیا بھر کے تمام کردار، لولے، لنگڑے، اپاہج، کیچوان، دھوبی، چمارسب اس کے جنبش قلم کے محتاج ہوتے تھے۔ یہ کرشن چندر پر تھا کہ وہ تخلیقی اڑان کے لیے کون سی دنیا کے دروازے کھولتا ہے اور کون سی دنیا کے دروازے بند کرتا ہے۔ یہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ اچھے تخلیق کار کو سب سے پہلے یہ انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ اسے کیا نہیں لکھنا ہے۔ لیکن کرشن چندر جانتے تھے کہ انہیں کیا لکھنا ہے۔

اردو زبان میں، پہلے ہی ایک بڑی لکیر کھینچ دی گئی ہے کہ یہ راستہ سنجیدہ ادب والوں کا ہے اور یہ راستہ غیر سنجیدہ ادب والوں کا۔ اور آپ غور کریں تو انسس سو سستر میں کرشن چندر کے انتقال کے بعد سے اب تک انہیں ادب سے باہر تو نہیں لیکن لکیر باہر ضرور کر دیا گیا۔ اردو کے چار ستونوں میں سے ایک کرشن چندر پر گفتگو کے دروازے بند کر دیے گئے۔ اور الزام یہ کہ انہوں نے بہت لکھا۔ بے حساب لکھا۔ ادب کی سنجیدہ محفلوں میں کرشن چندر کا نام محض اس حوالہ سے آتا کہ وہ بسیار نویس تھا۔

کبھی ایشیا کے عظیم افسانہ نگار کے خطاب سے نوازے جانے والے کرشن چندر کو اردو والوں نے یہ تحفہ دیا۔ ان کے نام ایک ایسی گمنامی لکھ دی کہ مکالمے اور گفتگو کے تمام دروازے بند ہوگئے۔ منٹو، عصمت اور بیدی کی شان میں قلابے ملانے والوں کی نظر میں کرشن چندر کی کوئی ادبی حیثیت نہیں رہ گئی تھی اور یہی اردو زبان کا المیہ تھا اور ستر کے بعد سرعت سے ادب میں داخل ہوئی جدیدیت کا جس نے ادب عالیہ کو دیکھنے پرکھنے جانچنے کے اپنے پیمانے بنائے اور پہلا شکار کرشن چندر ہوا، جس کے ادب کوظالمانہ حد تک ردکرنے کا کام کیا گیا۔

گردش ساغر صد جلوہئی رنگیں تجھ سے
آئندہ داری یک دیدہئی حیراں مجھ سے

منٹو، بیدی اور عصمت کی اپنی دنیا تھی۔ آپ غور کریں تو اس دنیا میں صد جلوہئی رنگیں کی فضا نہیں تھی۔ یہ دنیا ئیں بہت حد تک محدود تھیں۔ کرشن چندر ایک ایسا خالق تھا، جس کی سلطنت اور کائنات ہزاروں لاکھوں کرداروں سے آباد تھے۔ وہ لفظوں کا محتاج نہیں تھا بلکہ الفاظ اس پر فریفتہ تھے اور قلم سنبھالتے ہی کرشن کی تخلیقی دنیا کو آباد کرنے چلے آتے تھے۔ وہ انسانیت کا معترف و مداح تھا اور پہلی کہانی یرقان سے ہی لہو لہو وادیاں، سیاست میں الجھی ہوئی دنیا کو محبت کا سبق پڑھانے کا ارادہ کر کے تھا۔ پہلی کہانی یرقان سے یہ اقتباس دیکھئے۔

اور میں بھلا پڑھتے پڑھتے اس کے چہرے کی طرف کیوں دیکھنے لگ گیا تھا ’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محبت؟ نہیں یرقانیت! ۔ ۔ ۔ ۔ یا اللہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے محبت ہے کہ یرقان۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘

یہ پہلی کہانی ہے۔ اسپتال کے بیڈ پر پڑا ہوا ایک مریض ہے۔ وہ بارود کے دھماکے اور گولیوں کی آوازیں بھی سنتا ہے۔ وہ سیاست سے سماج، محبت سے مذہب تک کے ہر یرقانی رنگ کو پہچانتا ہے۔ یہ اسپتال نہیں، بیماروں کی دنیا ہے۔ اور اس میں ایک وہ لڑکی ہے، جو اپنے شوہر کا خط پڑھوانے آتی ہے۔ اور دنیا اچانک یرقانیت سے محبت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ پہلی کہانی سے ہی کرشن چندر نے اپنا موقف ظاہر کر دیا تھا کہ آئندہ برسوں میں وہ کس طرح کے ادب سے اپنے قارئین کا تعارف کرانا چاہتے ہیں۔ یہ پہلی ہی کہانی کا کرشمہ تھا کہ لاہور سے نکلنے والے رسالہ ہمایوں کے مدیر نے لکھا، ایک زبردست قلم کار کی آمد ہو چکی ہے۔ زوردار زبان، سیر حاصل رنگین تخیل اور گہرا نفسیاتی مطالعہ بھی۔

پہلی کہانی کے بعد کرشن چندر نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایشیا کے عظیم فنکار کا خطاب اسے یونہی نہیں مل گیا، ایک زمانہ اس کا معترف تھا۔ اس کی کہانیاں محض بولتی نہیں تھیں بلکہ کبھی کبھی ایسا نشہ طاری کرتی تھیں کہ اس نشہ سے باہر نکلنا مشکل ہوتا تھا۔ وہ اپنے وقت سے آگے کا فنکار تھا۔ وقت سے بہت پہلے۔ اس نے بدلتی ہوئی دنیا، کنزیومر ورلڈ اور آنے والی تبدیلی کو پڑھ لیا تھا۔ ژاں بال سارترے کی طرح اس نے گدھے کی سرگزشت کے نام سے اس المیہ کو رقم کیا جسے ہمارے اردو والے محض طنزیہ تخلیق کہہ کر آگے بڑھ گئے۔

ایک گدھے کی سرگزشت۔ ایک گدھا نیفا میں اور گدھے کی واپسی ایک ایک ایسی Trilogy ہے جس میں اس وقت کے ہندوستان کی تمام دھڑکنیں سنی جا سکتی ہیں اور یہاں اس مستقبل کی گونج بھی ہے، جس کی آہٹیں نہ ہم صرف سن رہے ہیں بلکہ اس آئینہ میں سیاست سے سماج اور معاشرے کے لہو لہان چہرے کی لکیریں اتنی روشن ہیں کہ اس اندھے کنویں میں جھانکیے تو عالمی سیاست بھی بے نقاب ہو کر سامنے آجاتی ہے۔ صرف ایک اقتباس دیکھئے :

”سنو، دھوبی کا تعلق صابن سے ہے۔ اور صابن کی درآمد برآمد کا تعلق کامرس ڈیپارٹمنٹ سے ہے۔ دیکھو تم سیدھے کامرس کے وزیر کے پاس چلے جاؤ۔ اس کے سامنے رامو دھوبی کی ساری بپتا رکھ دو۔ اگر وہ چاہتا ہوگا کہ دھوبی کپڑے دھو دھو کر کپڑے پھاڑتے رہیں اور لوگ اس طرح نئے نئے کپڑے پہننے پر مجبور ہوتے رہیں تو وہ اس سلسلے میں ضرور تمہاری مدد کرے گا۔“

صابن کی درامد برامد، کامرس ڈیپارٹمنٹ، گدھے کا پنڈت نہرو سے باتیں کرنا، اپنی شناخت کے لیے لڑنا، گدھے پر جاسوس ہونے کا شبہ ہونا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج کا ہندوستان دیکھیے تو برسوں پہلے کرشن چندر نے کمزور سیکولر جمہوریت کا مذاق اڑاکر، مذہب، سیاست اور معاشرے پر طنز کرتے ہوئے ہمارے انسان ہونے کی پول کھول دی تھی۔ یعنی ہم انسان کہاں تھے، گدھے تھے اور سیاسی پارٹیوں سے مذہبی ٹھیکیدار تک مسلسل ہمارا استحصال کر رہے تھے۔

ایک دنیا اس کے سامنے منٹو کے کھول دو کی طرح ننگی پڑی تھی اور وہ کہانیوں سے ہو کراسی راستہ پر چلا، جس پر وکٹرہیوگو، تالستائے جیسے لوگ پہلے بھی چل چکے تھے۔ اور ان کے بارے میں کبھی کسی نے شکوہ نہ کیا کہ ان لوگوں نے اتنا کیوں لکھا۔ کرشن چندر نے ڈرامے لکھے۔ بچوں کا ادب لکھا۔ ایک زمانے پر طنز کیا، اور غور کریں تو بچوں کا ادب محض بچوں کا ادب نہیں ہے۔ اسے آرام سے بڑے بھی پڑھ سکتے ہیں اور اسی طرح لطف اندوز ہوسکتے ہیں جیسے بچے۔

الٹا درخت ہی دیکھئے۔ کیا یہ صرف بچوں کا ادب ہے؟ کیا گدھے کی واپسی جیسے نالوں کو محض طنزیہ ادب کے خانے میں ڈالا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کرشن چندر کوسنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ وہ 46 سال کی زندگی جیا اور شان سے جیا۔ قلندری و آزادگی ایسی کہ فکشن کا کانسہ ہاتھ میں لیا اور ہراس گلی کوچے سے گزر آیا جہاں بھوک کی حکومت تھی اور انسانیت سسکتی ہوئی۔ کشمیر سے کنیا کماری تک ہر داستان سرائے سے گزرا۔

ہر بازار میں ٹھہرا۔ غالب کے لفظوں میں کہوں تو ایک ٹین کا لوٹا مع سوت کی رسی کے اٹھایا۔ کبھی شیراز جا نکلا کبھی نجف، حقیقت میں یہ وہ نہ بجھنے والی پیاس تھی جو فلمی دنیا سے سیاست اور سماج کے ہر شعبے کی سیر کراتی ہوئی کرشن چندر کو نئی نئی کہانیاں لکھنے پر مجبور کر رہی تھی۔ کرشن چندر کے پاس کئی بڑے ناول اور پچاس سے زائد ایسی کہانیاں ہیں جنہیں کسی بھی عالمی شاہکار کے سامنے فخر کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ وہ پہلا فنکار تھا جس نے کہانی کو علامتوں اور فنٹاسی کا دروازہ دکھایا اور کہانی کو اشتراکی فلسفہ اور رومانیت سے الگ طلسمی حقیقت نگاری اور رومانی حقیقت نگاری کی طرف لے آیا، اور بقول انتظار حسین، نئی روایت میں رنگی ہوئی ان کی حقیقت نگاری پورے عہد کو اپنے ساتھ بہالے گئی۔

وہ ایک بڑا فنکار اور عظیم قصہ گو تھا۔ اس کی دلاویز نثر، قدرتی مناظر اور حقیقت نگاری کی عمدہ تصویر کشی اور اس کا مخصوص اسلوب پڑھنے والو ں کو حیران کر دیتا تھا۔ ملک راج آنند نے اس کے افسانوں کو شاعرانہ حقیقت نگاری سے تعبیر کیا۔ مہا لکشمی کابل، کچرا بابا، کالو بھنگی، یوکلپٹس کی ڈالی، برہمن، جوتے، پشاور ایکسپریس تک غور کیجئے، تویہ وہی رجحان تھا، جس کے بارے میں وکٹوہیوگو نے لکھا تھا۔ کوئی طاقت اس وژن کو روک نہیں سکتی، جس کا وقت آ گیا ہے۔

اور بقول کرشن چندر اجتماعی خوبصورتی کو پالینے کا جنون کچھ ایسا تھا کہ فنکارانہ اظہار کے طور پر اس نے لکڑی کی ایک بے جان سی گاڑی کو کردار میں ڈھال لیا۔ جب چاروں طرف ریل گاڑیاں چلائی جا رہی تھیں۔ انسان، انسان کا دشمن بن گیا تھا، درندگی انتہا پر تھی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے تھے۔ لیکن یہاں بھی کرشن چندر کے اندر کا فنکار لکڑی کی بے جان سی گاڑی میں ان لاشوں کے ڈھیر سے الگ اس زندگی کو سننے کی کوشش کر رہا تھا جہاں پھول جیسے بچوں کے چہرے تھے اور ایک گنگناتی، مسکراتی ہوئی ندی کی طرح زندگی امید کی علامت بن گئی تھی۔ یہ اقتباس دیکھئے۔

”میں لکڑی کی ایک بے جان گاڑی ہوں۔ لیکن پھر بھی چاہتی ہوں کہ اس خون، گوشت اور نفرت کے بوجھ سے مجھے نہ لادا جائے۔ میں قحط زدہ علاقوں میں اناج ڈھوؤنگی۔

کسان، کھیت، نکسل واد، دہشت گردی، فسادات سے لے کر ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والی محبت تک جس قصہ گوئی کی روایت کرشن چندر نے قائم تھی اس کے مد مقابل دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔ وہ اپنی چھوٹی سی تخلیق دنیا کا خدا تھا۔ اسے واقعات، کردار وں اور مکالموں کے ساتھ جنون کی عشق تک کھیلنے کا ہنر آتا تھا۔ اس لیے قرۃ العین حیدر کو کہنا پڑا۔ ہلکی ہلکی شعریت، حسن کاری، زندگی کا احساس، لکھنے والے نے ایک طلسمی آئینہ اس زاویہ سے بیٹھایا کہ ہماری مانوس دنیا ایک مختلف رنگ میں نظر آنے لگی۔

اور حقیقت یہی ہے کرشن نے اپنی افسانوی کائنات سے اس بدھیئت، بدشکل، لہو لہو دنیا کو رومانی حقیقت نگاری کے قریب کر دیا تھا۔ وہ اس بات سے واقف تھے کہ انسان کا زندہ ہونا کتنا ضروری ہے۔ یہ مکمل زندگی ایک جنگ ہے۔ یہاں ہر انسان ارٹیسٹ ہیمنگوے کا بوڑھا آدمی ہے جو سمندر سے اپنی بقا اپنے تحفظ کے لیے جنگ لڑ رہا ہے۔ کرشن چندر اس جنگ کے لیے تیار تھے لیکن یہاں وہ اسلحے اور بارود کی زبان لے کر نہیں آئے بلکہ اس جنگ کے لیے انہو ں نے رومان اور محبت کی فصلیں بچھائیں اور آدے گھنٹے زندہ رہنے کو بھی انسانی وجود کے لیے اہم قرار دیا۔

ان کی کہانی آدھے گھنٹے کا خدا دیکھے۔ دو آدمی اس کا پیچھاکر رہے ہیں۔ وہ اچھا تیراک ہے لیکن اس حقیقت سے واقف ہے کہ آدھے گھنٹے بعد وہ پکڑ لیا جائے گا۔ اور وہ دو آدمی اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اسے ہلاک کر دیں گے۔ اور اب یہ آدھے گھنٹے اس کردار کے پاس ہیں اور وہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے جتنی زندگی گزاری وہ دوسروں کے لیے تھی۔ اب اس آدھے گھنٹے پر اس کا اپنا قبضہ ہے۔ یہ اقتباس دیکھئے۔

”مگر آدھ گھنٹہ تو بہت ہوتا ہے۔ یکایک اس کا جی چاہا کہ وہ بانہیں پھیلا کر زور سے قہقہ لگائے۔ ایسا خوش نصیب آدھ گھنٹہ کس کی زندگی میں آیا ہوگا۔ شروع سے آخر تک اس کا اپنا۔ اس کے آغاز سے انجام تک مکمل باخبر۔ اس آدھ گھنٹہ میں وہ اپنی تقدیر پر پوری طرح قادر تھا۔ وہ اس آدھے گھنٹے کا خدا تھا۔“

غور کریں تو اس ساحر انہ بیان سے کرشن چندر انسان کے وجود، اس کی عظمت، تمام زندگی کی انسانی کشمکش اور جدو جہد کو ایک ایسے مقام پر پہنچا دیتا ہے، جہاں اس کے طلسمی آئینہ میں ہماری مانوس دنیا ہمیں مختلف رنگ میں نظر آنے لگتی ہے۔ اور کمال دیکھئے کہ آخری وقت تک یہ طلسمی آئند اس کے ہاتھوں میں تھا۔ کہتے ہیں، موت سے قبل بھی وہ لکھنے کی میز پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے عنوان لکھا۔ ادب برائے بطخ۔ ممکن ہے، اس کے بعد فکر میں غلطاں و پیچاں رہا ہو۔ عنوان لکھنے کے بعد اس نے آگے لکھنا شروع کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نورانی کو بچپن سے ہی پالتو جانوروں کا شوق تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کبوتر، بندر، رنگ برنگی چڑیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کہتے ہیں، اس کے بعد ہی انہیں دل کا دورہ پڑا۔ اور 46 برس کی عمر میں کرشن چندر نے ہمیشہ کے لئے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا اور اس دنیا میں جا نکلا جہاں بہت پہلے ایک بچے نے زمین میں ایک بیج بویا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پودا آسمان کی جانب، جانے کے بجائے زمین کی گہرائیوں کی طرف اگنے لگا تھا۔ زمین کی گہرائیوں کو دیکھنے کے بعد اب یہ سفر پورا ہوگیا تھا۔ ممکن ہے۔ وہ درخت دوبارہ اوپر کی طرف اٹھنے لگا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنا اوپر کہ اس کی شاخیں تھامے کرشن چندر آسانی سے آسمان کی طرف چلا گیا ہو۔

سیلانی آدمی تھا۔ اس کے لئے ناممکن کچھ بھی نہیں تھا۔ اور دیکھئے آخر میں انسانوں کے ساتھ ساتھ اسے کبوتر، بندر، رنگ برنگی چڑیاؤں کی بھی یاد آ گئی تھی۔ گدھے تو پہلے ہی اس کی کہانیوں میں آچکے تھے۔ مگر غور کریں تو آخر میں وہ اپنے نقادوں کو سوچنے اور حیران کرنے کے لئے ایک عنوان دے گیا تھا۔ ادب برائے بطخ۔ بھلا کب تک ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی میں ادب کو قید رکھو گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مانا کہ ادب بطخوں کا ٹرٹرانا نہیں ہے مگر کبھی کبھی آزاد چھوڑ دو گے تو ادب کا بھلا زیادہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments