کیا عوام جاہل ہیں؟‎


پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے مایوسی اور غصے کی انتہائی حالت میں لاہور کے عوام کو جاہل کیا کہہ دیا سیاست کی ہنگامہ خیز فضا میں مزید اضافہ ہوگیا۔ سنا ہے انہوں نے اپنے اس بیان پر معذرت بھی کرلی ہے مگر جو طوفان ان کے اس فرمودے سے سے اٹھا تھا اب وہ تھمتے تھمتے ہی تھمے گا کہ سیاست کے پاکستان میں ہی کیا دنیا بھر میں یہی چلن ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ اب سیاست میں ہیں۔ اس سے پہلے وہ پاکستان کی میڈیکل کونسل کی سیاست میں متحرک رہی ہیں اور ساتھ ساتھ ایک نامی گرامی طبیب بھی۔ ان کا غصہ اور مایوسی سمجھ میں آتی ہے۔ وہ کونسا معالج ہوگا جو ذیابیطیس کے مریضوں کو شکر، بلڈ پریشر کے مریضوں کو نمک اور جگر کے امراض میں مبتلا افراد کو الکوحل استعمال کرتے دیکھ کر غصے اور مایوسی کا شکار ہوکر ایسے مریضوں کی جہالت پر ایمان نہ لاتا ہوگا۔

اگر یاسمین راشد نے کورونا کے سنگین خدشات کے باوجود لوگوں کو احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھ کر جاہل کہا تو کیا عجب کیا۔ لیکن کیا ڈاکٹر صاحبہ کے بیان کا یہ مطلب لیا جائے کہ لوگوں کو کورونا کی تباہ کاریوں کا چونکہ علم نہیں ہے اس لیے ان کو جاہل کہنا چاہیے؟ یا لوگ باگ جب احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کرتے تو اس کے اسباب کچھ اور ہیں؟ ذیابیطس کا مریض جب میٹھا کھانے سے نہیں رکتا، ہائی بلڈ پریشر کا مریض جب مصالحہ دار اور چٹ پٹی غذائیں نہیں چھوڑتا یا جگر کے امراض میں مبتلا لوگ جب شراب نوشی ترک نہیں کر پاتے تو اس کا سبب کیا ان کے علم میں کمی کو ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ یہ معاملے اگر تعلیم سے حل ہوسکتے تو آج دنیا میں منشیات کا استعمال بند ہوچکا ہوتا۔ سگریٹ نوشی ختم ہو چکی ہوتی۔ دنیا سے موٹاپے کا خاتمہ ہوچکا ہوتا۔ ہر معاشرے کا ہر فرد آپ کو صبح و شام سیر گاہوں میں چہل قدمی کرتا نظر آرہا ہوتا اور ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد کہیں کم ہوتی۔ سر دست صرف کورونا اور اس سے بچاؤ کے لئے تجویز کردہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے اور نہ کرنے والے معاشروں پر غور کیجئے اور دیگر بیماریوں کو گفتگو کے دائرے سے باہر رکھئے۔

اس وقت یہ طالب علم ایک تحقیق کا حصہ ہے جو کورونا کے پھیلاؤ کو کسی سازش کا شاخسانہ سمجھنے والوں سے متعلق ہے۔ یہ تحقیق نتائج تک پہنچنے میں وقت لے گی لیکن کم از کم اتنا واضح ہے کہ جن ملکوں کے سربراہوں نے کورونا وبا کے ذیل میں سائنسدانوں اور معالجین کی رائے سے ہٹ کر کوئی دوسری رائے یا راستہ اختیار کیا وہاں اس وبا کے متاثرین اور اس کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ چین کے بعد جرمنی، اٹلی اور اسپین وہ ممالک تھے جہاں مریضوں کی تعداد میں یکدم بے پناہ اضافہ دیکھنے کو ملا لیکن ان ملکوں میں صرف سائنسدانوں اور ڈاکٹرز کی رائے کو حرف آخر مانا گیا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ اٹلی اور سپین دو ہفتے قبل سیاحوں کے لئے کھل چکے ہیں۔ ان کے برعکس جن ممالک کے سربراہ خود ڈاکٹر بن کر عوام کو لیکچر دیتے رہے۔۔۔ کبھی کچھ کہا اور کبھی کچھ۔۔۔۔ وہاں کے نتائج بھی آپ کے سامنے ہیں۔

میں آئرلینڈ میں رہتا ہوں۔ 12 مارچ کو اس ملک کے وزیراعظم جو خود بھی ایک ڈاکٹر ہیں نے صرف ایک بات کی اور وہ یہ تھی کہ یہ ایک وبا ہے اور اس سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے “مکمل لاک ڈاون”۔ اپریل میں آئرش حکومت نے اس لاک ڈاؤن کا دوبارہ جائزہ لیا اور پانچ مرحلوں میں لاک ڈاؤن کو کم کرنے کا اعلان کیا عوام نے کسی چون و چرا کے بغیر حکومتی اقدامات پر عمل کیا۔۔ دشواری کا شکار رہے مگر گھروں میں بیٹھے اور بالآخر وبا سے نجات پانے کا راستہ اپنے لیے نکال لیا۔۔جو کچھ آئرش وزیراعظم نے کہا ملک کے کسی ایک گروہ نے بھی اس کے خلاف نہ تو کچھ کہا اور نہ کسی حکومتی اقدام کی خلاف ورزی پر عوام کو اکسایا۔ کیا اس ملک کے سارے باشندوں کو سقراط سمجھا اور کہا جائے؟

گزارش یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ یہ علم نہیں اس بصیرت کا سوال ہے جس تک معاشرے کے سربرآوردہ طبقے۔۔۔۔ حکمران، سیاسی مذہبی اور سماجی رہنما، اور علما و دانشور اور سب ہی عوام کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مگر اس بصیرت تک پہنچنے کا بنیادی فریضہ ہمیشہ وقت کے حکمران کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ غالب بیانیہ ہمیشہ طاقتور ہی کا بیانیہ ہوتا ہے اور اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ ہمیشہ وقت کرتا ہے۔۔۔ حکمران آمادہ جنگ ہوں تو پوری قوم جنگی ترانے گانا شروع کر دیتی ہے اور ایسے میں امن کی ملہار گانے والے غدار کہلاتے ہیں۔ حکمران دہشت گردوں کی سرپرستی کریں تو دہشت گرد بازوئے شمشیر زن کہلاتے ہیں۔ اور جب طاقتور طبقہ انہی دہشت گردوں کو ایک دن ختم کرنے کا فیصلہ کریں تو ان کے سابق حامی عین اسی دن اپنی طلاقت لسانی اور زور خطابت کھو بیٹھتے ہیں۔

اگر حکمرانوں کا روئے سخن کرپشن کی جانب ہو جائے تو عوام اس کو ایک واحد مسئلے کے طور پر دیکھنا شروع کر دیتی ہے اور نوے دنوں میں اس سے نجات پانے کے خواب دیکھنا شروع کر دیتی ہے۔ کیا یہ طالبعلم پوچھ سکتا ہے کہ بیرون ملک مقیم اعلی تعلیم یافتہ خواتین و حضرات جو جہاز بھر بھر کے پاکستان میں کرپشن کے خلاف ووٹ ڈالنے پہنچے تھے اب کہاں ہیں؟ مغرب میں کام کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بالخصوص پاکستانی ڈاکٹرز جو روزانہ کروڑوں کی کرپشن کے قصوں پر ایمان لے آئے تھے۔۔۔ کیا وہ سب جاہل تھے؟

پاکستان کو چھوڑیے یہاں تو شرح خواندگی بھی زیادہ نہیں ہے۔ مغرب کے وہ رہنے والے جنہوں نے سکائی نیوز اور فوکس نیوز پر صدام حسین کے کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں سنا اور یقین کر لیا۔۔ کیا وہ سب جاہل تھے؟ میں ان ہندوستانی ڈاکٹرز کو جانتا ہوں جو ارون دتی رائے کو غدار سمجھتے ہیں کیونکہ وہ ہندوستان میں مذہبی جنونیوں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر لکھتی ہیں، کشمیریوں کے استحصال پر سوال اٹھاتی ہیں اور انہوں نے گاندھی جی کی اساطیری حیثیت پر سوال اٹھا دیا ہے۔ کیا یہ ڈاکٹرز جاہل ہیں؟

امریکہ میں نوم چومسکی، ہاؤرڈ زن اور ایڈورڈ سعید جیسے پہاڑ قامت لوگوں کے بیانیوں کی موجودگی میں لوگ ٹرمپ کو منتخب کرتے ہیں۔ کیا ٹرمپ کو ووٹ دینے والے 49 فیصد امریکی جاہل تھے؟

معاشروں کی اجتماعی ذہنی صحت کے احوال پر نظر رکھنے اور لکھنے والے افراد نے اس موضوع پر ایک اہم ترین بات کہہ رکھی ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر وہ معاشرہ جہاں افراد کا اپنے ساتھ تعلق کمزور ہو جائے وہ ذہنی اعتبار سے ایک غیر صحت مند معاشرہ بنتا چلا جاتا ہے۔ افراد کا اپنے ساتھ تعلق کمزور کیسے ہوتا ہے چلیے حضرت جون ایلیا سے اس کے معنی پوچھتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا تھا

جانے کیا واقعہ ہوا، کیوں لوگ

اپنے اندر نہیں رہے آباد۔

جب لوگ غالب بیانیے کو اپنا بیانیہ سمجھیں، حکمرانوں کی زبان بولنا شروع کردیں، ان کی طرح ملبوس ہونا شروع کر دیں، ان کا طرز تخاطب، ان کا طرز استدلال، اور انہی کی منطق کا استعمال کرنا شروع کردیں تو سمجھیں کہ معاشرے کی اجتماعی ذہنی صحت کو کچھ سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے۔ ایسے میں علم کی کمی یا زیادتی کا سوال نہیں اٹھتا بلکہ طاقت کے اس بہیمانہ استعمال کی پیمائش کے طریقے ڈھونڈنے پڑتے ہیں کہ جس نے انسان کو طاقتور کے ساتھ جڑنے کو عافیت کا واحد راستہ سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ طاقتور کے ساتھ جڑنے والے طاقتور کی طاقت کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں تاکہ اس کے بل پر وہ اپنی زندگی گزار سکیں۔

ظاہر ہے یہ اپنے بجائے “دوسرے” کی طاقت پر انحصار ہے یہ “دوسرا” یقینا اپنے سے بہتر ہوتا ہے. اور یہ دوسرا فوجی آمر بھی ہو سکتا ہے۔ حکمران بھی ہو سکتا ہے۔ ایک مقبول دانشور بھی ہوسکتا ہے۔ کپڑوں کا ایک مہنگا برانڈ بھی ہو سکتا ہے اور ایک بڑی اور مہنگی کار بھی۔ جو بھی اس طرح کی وابستگی سے زندگی گزارنے کی توانائی کشید کرے سمجھیے وہ اپنے اندر آباد نہیں رہا۔ ایسا ہر انسان ہر اس بیانیے پر ایمان لانے کے لیے آمادہ اور تیار ہوگا جو غالب طبقات کی جانب سے آئے۔ یہ ایمان بالغیب نہیں بلکہ ایمان بالشہود ہے۔ غالب طبقات اگر کبھی کچھ کہیں اور کبھی کچھ۔۔۔ تو عام افراد بھی کبھی کچھ کریں گے اور کبھی کچھ۔۔ اگر غالب طبقات کسی موضوع پر منقسم ہوں گے تو عوام بھی تقسیم ہوں گے۔۔۔ اگر غالب گروہ مفتی پوپلزئی کو چاند رات چپ کرا دیں گے تو عوام عید ایک ہی دن منائیں گے۔۔۔ اگر طاقت گروہ ایک ہی وقت میں مختلف گروہوں کی ایک حکمت عملی کے تحت سرپرستی کریں گے تو عوام کیلئے فیصلہ کرنا بھی یقینا مشکل ہو جائے گا۔ پھر عرض کرتا ہوں یہاں سوال عوام کے علم کی جہالت کی پیمائش کا نہیں ہے بلکہ یہ حکمران طبقات کے علم اور جہالت کی کھوج کا محل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments