نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو پروفیسر فتح محمد ملک


خوش قسمتی ہے کہ ہمارے درمیان علامہ محمد اقبال کے شدائی موجود ہیں۔ یہ ہماری فکری اور نظریاتی رہنمائی کر رہے ہیں۔ نئی نسل کو اقبال فراموشی سے بھی روشناس کر رہے ہیں۔ اور اقبال اور اسلام کی صحیح معنوں میں ترجمانی بھی کر رہے ہیں۔ یہ ایک روشن خیال عالم ہیں تو دوسری طرف مذہب اور اعتدال پسند پروفیسر بھی اور طبیعت ایسی کہ آپ ان کے ساتھ گھنٹوں باتیں کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ تعلیم، ادب، اسلام، پاکستان، اقبال اور قائد اعظم بارے علم سے سرشار ایسا انداز بیان کے آپ اسیر ہوجائیں گے۔ ان کی زبان و بیان اور عمل و فکر سے ناصرف اقبالیات جھلکتی ہے بلکہ قائد اعظم کا پاکستان اور وسیع النظر اسلامی سوچ کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔

پروفیسر فتح محمد ملک اٹھارہ جون انیس سو چھتیس کو ضلع چکوال تحصیل تلہ گنگ کے چھوٹے سے گاؤں ٹہی میں ایک غریب کسان ملک گل محمد کے ہاں پیدا ہوئے۔ والد کی تعلیم میٹرک تک تھی لیکن وہ انہیں ہمیشہ تقاریر، مناظرے اور علمی مجالس میں لے جاتے تھے۔ اور گھر میں بھی بچوں کے لئے کتب رکھی ہوئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب فتح محمد کو کالج میں داخلہ کرانے کا وقت آیا تو اس وقت جو آپشن تھا اس میں راولپنڈی کا گارڈن کالج، زمیندارہ کالج گجرات، گورنمنٹ کالج چکوال اور گورنمنٹ کالج کیمل پور یعنی اٹک تھا۔

لیکن ملک گل محمد نے کیمل پور کالج کا انتخاب کیا کیونکہ وہاں ڈاکٹر غلام جیلانی برگ اور پروفیسر محمد عثمان جیسے اساتذہ تھے اب آپ اندازہ لگائیں کہ اس زمانے میں پروفیسر صاحب کے والد گرامی نے عمارت یا فاصلے کو نہیں دیکھا بلکہ یہ دیکھا کہ وہاں تعلیم کون دے رہا ہے۔ اور یہاں پھر ملک صاحب کے کلاس فیلو شفقت تنویر مرزا اور منو بھائی تھے۔

بعد ازاں جب روالپنڈی کالج ایم اے کرنے کے لئے آئے تو وہاں منو بھائی اور شفقت تنویر مرزا کے ساتھ مقامی اخبار روزنامہ تعمیر میں ملازمت بھی کی جس کے ایڈیٹر محمد فاضل تھے۔ پھر تینوں بیروزگار ہوگئے تو یہ دوست تقریباً بائس دن تک لیاقت باغ میں سوتے رہے کیونکہ ان کے پاس بیروزگاری کے سبب رہنے کی جگہ نہیں تھی اور سامنے ایک چائے والا تھا جس کے ساتھ کنٹریکٹ کیا ہوا تھا کہ وہ انہیں چائے اور رس دے گا یعنی انہوں نے مسلسل بائس روز تک بنا روٹی کے چائے اور رس پر کھلے آسمان تلے گزارا کیا۔

اس دوران ریڈیو پاکستان کے کمپیئر طارق عزیز مرحوم کچھ دنوں کے لئے بیمار ہوگئے تو انہوں نے انہیں پیغام بھیجا کہ میری جگہ آپ آ جائیں اور خبریں پڑھیں اور منو بھائی کو اسکرپٹ رائٹر بنا دیا گیا۔ پھر جب انہیں تنخواہ کا چیک ملا اور یہ پیدل آرہے تھے کیونکہ اس وقت ریڈیو پاکستان پشاور روڈ پر تھا تو راستے میں ہوٹلوں پر تکہ کڑاہی اور گوشت بنا نظر آیا تو ملک صاحب نے ہاتھ پکڑ کر منو بھائی سے کہا اس طرف نہیں دیکھنا بلکہ پہلے اپنے اس محسن چائے والے کا ادھار چکانا ہے۔ جس نے بائیس دن تک ہمارے ساتھ تعاون کیا۔

پروفیسر فتح محمد ملک نے اردو اور انگریزی زبان میں درجن بھر کتب لکھی ہیں جن میں ”تعصبات، انداز نظر، تحسین و تردید، فلسطین اردو ادب میں، اقبال فکر و عمل، اقبال فراموشی، اقبال اسلام اور روحانی جمہوریت، فیض شاعری اور سیاست، ن م راشد شخصیت اور شاعری، منٹو ایک نئی تعبیر، ندیم شناسی، انتظار حسین شخصیت اور فن، انجمن ترقی پسند مصنفین، فیض کا تصور انقلاب، اردو زبان ہماری پہچان، پاکستان کا روشن مستقبل، اقبال کی سیاسی فکر، پاکستان کے صوفی شعرا، پنجابی شناخت، اسلام بمقابلہ اسلام“ وغیرہ شامل ہیں۔ اور یہ جتنی بھی کتابیں ہیں ساری اکٹھی کرکے نیشنل بک فاونڈیشن نے دو جلدوں میں چھاپی ہیں جن میں ایک کا نام ”آتش رفتہ کا سراغ“ اور دوسری ”کھوؤں ہوؤں کی جستجو“ ہے۔ یعنی یہ دو کتابیں باقی تمام کتب کا مجموعہ ہیں۔

اس کے علاوہ مصنف و قلم کار محمد حمید شاہد نے پروفیسر فتح محمد ملک کی زندگی پر ”پروفیسر فتح محمد ملک شخصیت اور فن“ کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی ہے اور انہوں نے پروفیسر صاحب کے مزاج اور عظمت کو یہ کہہ کر جیسے دریا کو کوزے میں بند کر دیا کہ علامہ محمد اقبال نے نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو جیسے پروفیسر فتح محمد ملک بارے کہا ہو۔ یہ ایسی عظیم اور اعلی طبیعت شخصیت ہیں جس کی کوئی مثال نہیں۔

پروفیسر فتح محمد ملک کی شادی اپنے آبائی علاقہ میں عطاء اللہ شاہ بخاری کے احراری خاندان کی ذکیہ ملک سے ہوئی تھی جو پڑھی لکھی اور بڑی عظیم خاتون تھی۔ جس کی تربیت ان کے چاروں بچوں میں جھلکتی ہے جس میں طارق ملک سابق چئرمین نادرا، پروفیسر طاہر ملک، اور پروفیسر ڈاکٹر عدیل ملک آکسفورڈ یونیورسٹی لندن جبکہ چھوٹی بیٹی سعدیہ ملک بھی پروفیسر ہیں۔ فتح محمد ملک کی رفیق حیات ذکیہ فتح محمد ملک ہاؤس وائف تھی بعدازاں بیماری میں مبتلا ہوکر 1995 میں جہان فانی سے کوچ کرگئی تو انہیں رشتہ داروں نے مشورہ دیا کہ آپ دوسری شادی کر لیں لیکن ملک صاحب نے انہیں یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کے یہ تو بہت بڑی زیادتی ہوگی کہ میرے دل میں کوئی اور ہو اور گھر میں کوئی اور۔ ۔ ۔

پروفیسر صاحب کی نمل یونیورسٹی، بہاولدین زکریا یونیورسٹی، اور بہاول پور یونیورسٹی میں تین ایم فل ہوچکی ہیں علاوہ ازیں اردو یونیورسٹی میں ان کی علمی، ادبی خدمات پر پی ایچ ڈی کا ایک تھیسس بھی لکھا گیا ہے۔ علم و ادب کی بے پناہ خدمات کے پیش نظر 2006 میں ستارہ امتیاز، 2017 میں عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ سے مختلف اعزازات سے بھی نوازا جاچکا یے۔ ناصرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی جامعات سے بھی آپ وابستہ رہے جن میں کولمبیا یونیورسٹی، ہیڈلبرگ یونیورسٹی، ہمبولٹ یونیورسٹی، سینٹ پیٹرزبرگ یونیورسٹی شامل ہیں۔

ملک صاحب نے ہمیشہ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے نظریات کو اہمیت دی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ موجودہ وزیراعظم عمران خان سے پہلے نیا پاکستان بنانے کا عزم ذوالفقار علی بھٹو بھی سامنے لائے تھے لیکن ہونا تو یہ چاہیے کہ حقیقی پاکستان کا تصور پیش کیا جائے کیونکہ اس پاکستان کا خواب علامہ اقبال اور قائد اعظم نے دیکھا تھا۔ اور جس پاکستان کے لئے انہوں نے دن رات انتھک محنت کی تھی۔ اور وہ اپنے نظریات کے مطابق یہ سمجھتے تھے کہ حقیقی پاکستان بنانے کے لئے سب سے پہلے پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کو ختم کیا جاوے۔ سردار اور وڈیرا نظام شاہی وہ چاہے کہیں بھی ہو ختم ہوگا تو عوام کو ان کے بنیادی حقوق ملیں گے۔

قائد اعظم نے سب سے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ نسل، رنگ اور لسانی تصورات کے تعصبات کو ختم کیا جائے۔ ایک دفعہ تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم ایک بہت بڑے جلسے کی قیادت کر رہے تھے تو ان کے کان میں ایک آواز سنائی دی کہ حضرت مولانا قائد اعظم محمد علی جناح زندہ باد۔ ۔ ! اس پر انہوں نے جلوس کو روک کر نعرہ لگانے والوں کو مخاطب کر کے انگریزی میں کہا میں آپ کا مذہبی رہنماء نہیں بلکہ سیاسی رہنماء ہوں، اس لیے مجھے مولانا نہ کہیں۔ پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ کاش جنرل ضیاء جیسی ذہانت کے لوگ اس جلسہ میں شریک ہوتے اور قائد کے اس فرمان سے سبق اندوز ہوتے۔

جب بھی خاکسار اسلام آباد جاتے ہیں تو پروفیسر صاحب کے خاندان کی یہ احقر کے ساتھ محبت ہے کہ خصوصی طور پر مہمان نوازی کا شرف بخش کر اپنا قیمتی وقت دیتے ہیں۔ اور ہمیشہ اپنی ہر نئی آنے والی کتاب بھی بطور تحفہ پیش کرتے ہیں۔ جس کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے کتب پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور اب عادت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ جس کے لئے میں اپنے اس محسن کا مشکور ہوں۔

ہمارے ہاں موسیقی کو اسلام سے دوری سمجھا جاتا ہے لیکن پروفیسر صاحب ایک واقعہ سناتے ہیں کہ میں ہیڈل برگ یونیورسٹی میں ایک کلاس میں پڑھا رہا تھا جس میں اس سمیسٹر کا مضمون تھا Muslim thoughts and South Asia تو وہاں ایک خاتون مجھ سے ملنے آئی اور وہ گیٹ پر میرا انتظار کررہی تھی میں جیسے باہر نکلا تو انہوں نے کہا کہ جناب میں آپ کا ہی انتظار کر رہی تھی اور میڈکل کی طالبہ ہوں۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگی مجھے آپ کی اجازت چاہیے تاکہ آپ کی کلاس میں میں بھی بیٹھ سکوں؟ کیونکہ میں اسلام سے متعلق جاننا چاہتی ہوں۔ جس پر میں نے انہیں کہا خوش آمدید ضرور آئیں اور پھر اس نے بتایا کہ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ ایک پب میں بیٹھی تھی اور وہاں ایک میوزک لگا ہوا تھا اور اتنا لطیف میوزک تھا، بہت اہتزاز کی کیفیت تھی خیر میں نے سمجھا کہ شاید میں زیادہ (شراب) پی گئی ہوں اس لیے یہ کیفیت ہے۔

لیکن دوسری صبح میں نے سوچا اب دوپہر کو جاونگی وہاں دوپہر کا کھانا کھاونگی اور ان سے اسی موسیقی کی فرمائش کرونگی۔ تو انہوں نے جب وہ میوزک لگایا تو وہی کیفیت وہی وجد طاری ہوگئی تو میں حیران ہوئی اور ان سے جاکر پوچھا یہ کس ملک کا میوزک ہے اور یہ موسیقار کون ہیں تو انہوں نے کہا یہ پاکستانی میوزک ہے اور نصرت فتح علی خان وہاں کے بہت بڑے موسیقار ہیں یہ ان کی گائکی ہے۔ پھر میں نے کہا یہ پاکستان سے کسی کو کہہ کر منگوانا پڑے گا جس پر جواب ملا نہیں باہر جاکر کسی موسیقی کی دکان پر یہ نام بتائیں اور آپ کو مل جائے گا۔ میں نے جاکر خرید لیا اب یہ سنتی ہوں اور بہت لطف اندوز یوتی ہوں اور پھر سوچا کہ مجھے اسلام کے بارے میں کچھ سمجھ ہونی چاہیے۔ اور میں اس لیے آپ کے پاس آئی ہوں۔ جہاں پر پروفیسر صاحب نے وضاحت کی موسیقی بھی اللہ کی دین ہے اور یہ سننے اور گانے والے پر منحصر ہے کہ وہ اسے کس زاویہ سے سنتا ہے۔

ملک صاحب نے ناصرف اقبال کے نظریہ پر چلتے ہوئے اس ملت کو بحث تنقید بنایا جس کے بارے میں اقبال نے فرمایا تھا کہ ”نیم حکیم خطرہ جان؛ نیم ملا خطرہ ایمان، دین کافر فکر و تدبیر و جہاد، دین ملا فی سبیل اللہ فساد“ بلکہ جب فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو نے آپ ص کے گستاخانہ خاکے شائع کیے تو اس سے متعلق ایک مضمون بعنوان ”آزادیٔ اظہار یا آزادی آزار“ لکھا اور اس میں متذکرہ بالا جریدے اور فرانسیسی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے اس عمل کو صحافتی دہشت گردی قرار دیا اور فرانسیسی قیادت کو اس قبیح حماقت پر ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری جیسے القابات سے مخاطب کیا۔ اور یہ مضمون مصنف کی کتاب ”چچا سام اور دنیائے اسلام“ میں بھی موجود ہے۔

قارئین آپ کو ان کی تحاریر پڑھ کر اندازہ ہوگا کہ یہ مذہبی انتہاپسندی اور لبرل فاشزم دونوں کے خلاف ہیں ایک اعتدال پسند یعنی پروگریسو مسلمان ہیں۔ تبھی تو ان کی مسلسل یہی کوشش رہی ہے کہ نئی نوجوان نسل میں وہ اپنی قلم کے ذریعے حقیقی پاکستان، اسلام اور علامہ اقبال و قائد کی روح پھونک سکیں۔ چونکہ نوجوان نسل ہی قوم و ملک کا مستقبل ہوتا ہے تو اگر ان کے دل اقبال اور قائد کے فکر و عمل سے صحیح معنوں میں سرشار ہوں گے تب جاکر کہیں حقیقی پاکستان کا تصور عمل میں لانا ممکن ہوگا۔

گزشتہ روز 18 جون کو پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کی 84 ویں سالہ گرہ تھی اور ناچیز کی یہ چھوٹی سی تحریر اس عظیم ہستی کے کارناموں اور علم ادب و دانشوری کی 55 سالہ خدمات کو سمیٹنے اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے بالکل ناکافی ہے کیونکہ یہ احقر ایک علم کے پہاڑ کے سامنے مٹی کا ایک ذرہ ہے۔

ملک رمضان اسراء

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملک رمضان اسراء

ملک رمضان اسراء مصنف معروف صحافی و قلم کار ہیں۔ انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز سے وابسطہ ہیں جبکہ دنیا نیوز، ایکسپریس، ہم سب سمیت مخلتف قومی اخبارات کےلیے کالم/بلاگ لکھتے ہیں اور ہمہ وقت جمہوریت کی بقاء اور آزادئ صحافت کےلیے سرگرم رہتے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی اے ماس کیمونی کیشن کررہے ہیں۔ ان سے ٹوئٹر اور فیس بُک آئی ڈی اور ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتاہے۔ malikramzanisra@yahoo.com

malik-ramzan-isra has 18 posts and counting.See all posts by malik-ramzan-isra

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments