کتے والا بشر


فساد ملک کے ایک کونے سے شروع ہوا اور دوسرے کونے تک پہنچ گیا، بشر خبریں دیکھتا اور فکر مند ہوتا، بچپن کے مناظر اس کے ذہن میں نقش تھے، آگ اور لوگوں کے کٹے جسموں سے ابلتا خون، وہ خوف زدہ ہوتا، آدم نے بتایا کہ ملک کی سرحدوں پر کیمپ لگائے جا رہے ہیں، بشر نے اصرار کیا، کہ وہ اپنے ملک امدادی سرگرمیوں کے لئے جانا چاہتا ہے۔

چند دن کی ضروری کارروائیوں کے بعد بشر آدم اور چند طبیب بشر کے ملک پہنچ گئے، مورس بھی ان کے ساتھ تھا، بشر مورس کو اکیلا چھوڑنے یا کسی کو دینے پر آمادہ نہ تھا۔ اس لیے مجبوراً آدم نے اسے بھی ساتھ لے لیا۔

فسادات پر قابو پانے کے لئے ریاست پوری کوشش کر رہی تھی لیکن اس خطہ زمین میں مذہبی عقائد کو صدیوں سے شدید اہمیت حاصل تھی۔ جس شہر میں وہ اترے وہاں بہت بڑی عبادت گاہیں تھیں اور شہر کی اختتامی سرحد پر فساد سے متاثرہ سینکڑوں خوف زدہ افراد موجود تھے، جو بھوکے پیاسے اور زخم خوردہ تھے۔ وہ لوگ تن دہی سے ان کے علاج معالجے میں جت گئے، دو مقامی تنظیمیں بھی ان کے ساتھ کام کرنے لگیں۔ کیمپ میں وبا پھیلنے کا خدشہ بھی موجود تھا۔ وہ لوگ پریشان تھے اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنے پر بھی مجبور تھے۔

چند دن کے بعد بشر مورس کے ساتھ شہر میں داخل ہوا وہ اپنے بچپن کے شہر کو پہچاننا چاہتا تھا، لیکن شاید یہ وہ شہر نہیں تھا، نہ جانے اس بڑے سے ملک میں جہاں بے تحاشا آبادی تھی کتنے شہر تھے۔

بشر سنسان راستوں پر چلتا رہا، وبا کے باعث مکمل قفل بندی تھی، بشر نے ایک پرشکوہ عبادت گاہ دیکھی، جہاں چند لوگ موجود تھے اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ کیا یہ اس کی عبادت گاہ ہے، لیکن اسے یاد نہ آ سکا، اسے صرف یہ یاد آیا کہ ملک کی ہر عبادت گاہ پر لوگ سفید براق کپڑے پہنے ہوئے آتے تھے، اور خاص مواقع پر مختلف میٹھی اشیاء ملا کرتی تھیں جو ہر مذہب کے بچے مانگ مانگ کر اور چھین جھپٹ کر کھاتے تھے۔

بچوں کی اس خواہش کا کوئی مذہب نہ تھا، نہ ہی اس میٹھی شے کا کوئی عقیدہ تھا۔ اچانک بشر کو خیال آیا کہ وہ کون ہے، اس کا عقیدہ کیا ہے شاید اس مٹی کی تاثیر ہی ایسی تھی کہ ہر فرد اپنے مذہب بارے سوچنے لگتا تھا۔ بشر نے یاد کرنے کی بہت کوشش کی اور اس دوران اس پر اچانک انکشاف ہوا کہ کیمپ میں بچوں کو کوئی مذہب نہیں پڑھایا جاتا تھا، وہ مذہبی کلمات اور عقائد سے قطعاً نا بلد تھے۔

جن بچوں کو مذہب یاد بھی تھا وہ بھول چکے تھے یا ان کو بھول جانے کی تربیت دے دی گئی تھی۔ کیمپ میں بچوں کو صرف ان کے ملک کے نام بتائے جاتے تھے، شاید وہ بھی ریکارڈ کے لئے ورنہ کسی بچے کی بنیادی شناخت و زبان باقی نہ رہنے دی جاتی تھی۔

بشر نے سو چا اب موجودہ کیمپ میں رہائش پذیر مختلف مذاہب کے بچے بھی اپنے مذہب بھول جائیں گے۔ جس کی وجہ سے وہ دربدر کر دیے گئے۔

نہ جانے بشر کو کیا ہوا وہ قہقہے لگانے لگا سناٹے میں اس کی آواز چہار اطراف گونجنے لگی، عبادت گاہ میں بیٹھے چند افراد چونکے اور باہر آ گئے۔ دھوتی باندھے ہوئے ایک ادھیڑ عمر آدمی بشر کے قریب آیا، اور کہنے لگا، لمڈے کیا تو پگلا گیا ہے کہ اس طرح سڑک پر کھڑے ہو کر ہنس رہا ہے، کیسی خطرناک وبا پھیلی ہوئی ہے۔ بشر نے اسے دیکھا اور ہنسنا بند کر دیا۔

بشر کو اس کی زبان سمجھ نہیں آئی، اس کو پھر ہنسی آ گئی، میں اپنی زبان اور مذہب بھول چکا ہوں تم لوگوں کی وجہ سے، اس نے کیمپ میں بولی جانے والی زبان میں کہا، تم چھوٹے دماغوں کے بے وقوف لوگوں، جس مذہب کی حفاظت کے لئے تم ایک دوسرے کو قتل کرتے ہو جس کا نام تم لیتے ہو، اس کے نام کی مالا جپتے ہو، ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہو۔ اسی نام والے نے تم کو وبا کے ذریعے تمھاری بنائی گئی ان عالیشان عبادت گاہوں سے بے دخل کر دیا ہے اسے کسی انسان کی عبادت کی ضرورت نہیں ہے۔

تم ظالموں نے مجھ جیسے لاکھوں بچوں کو ہمارے پرسکون گھروں سے نکالا، ہمارے والدین کو چھینا اور اس نے تم کو تمھاری عبادت گاہوں سے بے دخل کر دیا، تم سے تمھارے پیاروں کے لمس چھین لئے، اس نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور پھر ہنسنے لگا، مورس نے بھونکنا شروع کر دیا اور بشر کی پتلون کھینچنے لگا، بشر نے اسے تھپتھپایا اور دھوتی والے آدمی کو منہ چڑایا۔

اس آدمی کو غصہ آ گیا، وہ چلانے لگا، لیکن چند پولیس والے آ گئے، بشر اپنے ادارے کے کارڈ کی بدولت بچ گیا، اور پولیس وین میں بیٹھ کر واپس کیمپ پہنچ گیا، جہاں آدم اس کے لئے پریشان تھا،
کہاں تھے تم اس نے ناراضگی سے پوچھا، بشر نے ٹال دیا اور اپنے ٹینٹ میں آ گیا۔

چند دن کے بعد وہ ایک دوسرے شہر کے کیمپ پہنچ گئے، جہاں غربت ہی غربت تھی، فسادات کی وجہ سے اس میں اضافہ ہو گیا تھا، لوگ کئی روز سے بھوکے اور پیاسے تھے، بچے بیمار اور دہشت زدہ تھے، وبا کی شدت تھی، پانی کی قلت تھی، انہوں نے بہت کوششیں کیں اور شہر میں پانی کی بحالی کروائی۔

بشر اکتا رہا تھا، کچھ تھا جو اسے بے چین کرتا تھا، آدم نے اسے کہا کہ وہ واپس جا سکتا ہے، لیکن وہ واپس جا کر کیا کرتا، اس نے انکار کر دیا، آدم اور اس کے ساتھی مضبوط اعصاب اور قوت ارادی کے مالک تھے، مجھے بھی ایسا ہی بننا ہے بشر نے خود سے عہد کیا، اور تن دہی سے امدادی کام کرنے لگا۔

وہ مختلف ادویات کھاتے رہتے تھے تا کہ وبا ان پر اثر انداز نہ ہو۔ بشر کی طبعیت میں دوا کھانے کے بعد بے چینی بھی ہو جاتی، ایسے ہی ایک دن بے چین ہو کر وہ مورس کے ساتھ کر کیمپ کی حدود سے باہر آ گیا اور شہر میں گھومنے لگا۔ اس کو جا بجا جلے ہوئے مکانات اور عبادت گاہیں دکھائی دیں۔ شہر میں ہو کا عالم تھا، جلنے کی بو فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔ شہر کے مضافات میں کھیت تھے، بشر کو بچپن کی جھلکیاں دکھائی دینے لگیں وہ کشاں کشاں کھیتوں کی طرف بڑھتا گیا، مورس اچانک بھونکنا شروع ہو گیا، شٹ اپ مورس، بشر نے اسے ڈانٹا۔

اس کو ایک جلی ہوئی عبادت گاہ دکھائی دی، وہ عبادت گاہ کا جائزہ لینے لگا۔ اچانک فضا میں ایک بچے کے رونے کی آواز گونجی، بشر کو کھیتوں سے چند لوگ آتے نظر آئے، جن کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے، اسی وقت جلی ہوئی عبادت گاہ سے ایک آدمی روتے ہوئے بچے کو لئے دوڑتا ہوا نکلا، اس کے پیچھے ایک عورت تھی، وہ دونوں کھیتوں کے مخالف سمت بھاگنے لگے، کھیتوں سے نکلتے افراد نے انہیں دیکھا اور ان کے پیچھے بھاگے، وہ رہے، پکڑو سالے کو، ایک آدمی چیخا، سب ان کے پیچھے دوڑنے لگے۔

بشر نے انہیں للکارا اور اپنے ادارے کا نام لے کر ان کو روکنے کی کوشش کی، لیکن اس نے دیکھا کھیتوں سے مزید افراد بھی نکل کر آ رہے تھے۔

بشر نے فوراً موبائل نکال کر پولیس کو فون کیا اور پھر آدم کا نمبر ملایا، جب تک وہ نمبر ملاتا، کچھ افراد اس تک پہنچ گئے اور اس سے سیل فون چھین لیا، بشر نے اپنے ادارے کا نام لینا اور ان سے دور ہونا شروع کیا، لیکن وہ سب چیخ رہے تھے۔

ایک آدمی نے اسے ڈنڈے سے ضرب لگائی، پھر دوسرے نے بھی ڈنڈا اس کے سر پر مارا، مورس نے ایک آدمی پر حملہ کر دیا لیکن دو لوگوں نے مورس پر ڈنڈوں کی بارش کر دی، مورس بری طرح بھونکتے ہوئے دور چلا گیا۔

ہجوم بشر کی طرف متوجہ ہو گیا، کون ہے تو، بشر کو ان کی زبان نہیں آتی تھی، اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ان کو سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ اس کو ایک مقدس نعرہ لگانے کو کہنے لگے، بشر کی زبان پر مقدس کلمات رواں نہیں ہوتے تھے، انہوں نے اس پر ڈنڈوں کی بارش کر دی۔

مورس پھر بیچ میں کود آیا اور بشر کو آدم زادوں سے بچانے کی کوشش کرنے لگا۔
بشر نے بھی بھاگنے اور خود کو بچانے کی کوشش کی لیکن ڈنڈوں کی پے در پے ضربوں نے اسے زمین پر گرا دیا۔

ہجوم نے اس پر بے تحاشا ڈنڈے برسانے شروع کر دیے، بشر کی آنکھ پر ضرب لگی، اس سے خون بہنے لگا، دوسری آنکھ سے اسے جلی ہوئی عبادت گاہ کا جلنے سے بچ جانے والا آسمان کو چھوتا مینار نظر آیا جس پر سیاہ بادل چھا رہا تھا۔

بشر کو فالن اینجلز کی کہانی یاد آ گئی، جو کیمپ میں غنایہ آئزک سناتی تھی۔ مورس نے اس کے چہرے پر اپنا چہرہ رکھ دیا، ہجوم پاگل ہو چکا تھا، وہ نعرے لگا کر اس پر ڈنڈے برسا رہے تھے، تھوک رہے تھے۔

پولیس کی گاڑیوں کے سائرن کے ساتھ ہجوم تتر بتر ہونے لگا، آدم گلمور بھاگتا ہوا پولیس کی گاڑی سے اترا، مورس آدم کے قدموں میں آخری بار لوٹا، آدم نے بشر کا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا اور کہا، تم کو منع کیا تھا شہر میں نہ نکلو، بشر نے سیاہ بادلوں سے ڈھکتے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا، مجھے فرشتے نے بتایا ہے کہ یہاں سے نکل جاؤ یہاں بشر کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
آدم نے اس کی ڈھلکتی گردن کو سہارا دینا چاہا لیکن وہ ٹوٹ چکی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments