اسد عمر کی مقبولیت کا راز کیا ہے؟


اپریل دو ہزار بارہ کی شام سیکٹر جی فائیو کی ایک گلی میں بہت رونق تھی۔ بڑی بڑی چھتریوں والی میڈیا کی گاڑیاں قطار سے ایک گھر کے باہر کھڑی تھیں۔ اندر بھی بڑی گہما گہمی تھی۔ یہ پاکستان تحریک انصاف کا مرکزی دفتر تھا۔ ان دنوں عمران خان آئے روز ہی پریس کانفرنس کرتے تھے۔ لیکن اس شام میڈیا کو تاکید سے بلایا گیا تھا کہ ایک اہم اعلان کیا جانا ہے۔

سفید شلوار قمیض میں ملبوس عمران خان کے بائیں طرف شاہ محمود قریشی جہانگیر ترین اور مرحوم نعیم الحق براجمان تھے جب کہ ان کے دائیں ہاتھ پتلون قمیض میں ملبوس ایک نامانوس چہرہ تھا۔ جاذب نین نقش والے۔ دراز قد۔ یہ اسد عمر تھے۔ جن کی پارٹی میں شمولیت کے اعلان کے لئے یہ محفل بڑے تپاک سے سجائی گئی تھی۔ عمران خان نے شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سالوں کی تپسیا رنگ لائی ہے اور ایک بہت بڑی کمپنی کا سربراہ نوکری کو لات مار کر ان کی جماعت میں شامل ہورہا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا نئے پاکستان کی معاشی پالیسی اسد عمر وضع کریں گے۔

اس دن سے جماعت ہی نہیں بلکہ سارے ملک کی نظریں اسد عمر پر جم گئیں کہ یہ معاشی انقلاب لائیں گے۔

اسد عمر نے اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ انہوں نے سرکاری سکولوں سے پڑھ کر دنیا کی بڑی کمپنی میں نوکری کی اور بہت دھن کمایا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ تعلیم کا یہ موقع پاکستان کے ہر بچے کو ملے۔ یہ اسد عمر کا بطور سیاستدان پہلا تعارف تھا۔

کچھ ہی لوگوں کو یاد ہوگا کہ کیسے سنہ دو ہزار آٹھ میں ڈان نیوز کے ایک تفریحی پروگرام میں وہ تمام امیدواروں کو ہرا کے وزارت عظمی کا انتخاب جیت گئے۔ ان کی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز انیس سو پچاسی مین ہوا جب وہ آٹھ ہزار ایک سو ستر روپے ماہانہ پر ایکسون کمپنی میں بھرتی ہو گئے۔ کچھ عرصہ کے لئے ان کا تبادلہ کینیڈا کر دیا گیا جہاں وہ بطور تجزیہ کار کام کرتے رہے۔

ایکسون کے اینگرو بننے کے بعد انہیں پاکستان بلوا کر کمپنی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ان کی سربراہی میں کمپنی نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی اور آج بھی کر رہی ہے۔

اسد عمر نے ستائیس سال بعد جب استعفی دیا تو یہ ایک بہت سوچا سمجھا فیصلہ تھا۔ اس وقت ان کی تنخواہ ستاون لاکھ روپے ماہانہ تھی۔ ان کے پاس اینگرو کمپنی کے بیس لاکھ شیئر تھے۔ جب کہ وہ دس لاکھ مزید خرید سکنے کا استحقاق رکھتے تھے۔ اس وقت کمپنی کا شیئر ایک سو کچھ روپے کا تھا۔ استعفی دینے کے چند روز بعد ہی وہ پاکستان تحریک انصاف سے منسلک ہو گئے۔

یہ محض اتفاق ہو سکتا ہے کہ جب اسد عمر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ اور پاکستان تحریک انصاف کے نائب صدر کے طور پر ترقی کی منزلیں طے کر رہے تھے۔ اینگرو بھی ترقی کے سفر پر گامزن رہی۔ اینگرو کا ایک شیئر آج تین سو روپے کا ہے۔

دو ہزار چار سے دو ہزار گیارہ کے درمیان اینگرو کا منافع تیرہ ارب سے ایک سو چودہ ارب روپے تک پہنچا دینے والے والا ماہر ملکی ترقی میں کوئی زیادہ اہم کردار نہ ادا کر سکا۔

اسلام آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے اسد عمر نے تحریک انصاف میں شمولیت کے پہلے دن ملک کے بچوں کے لئے مساوی تعلیم کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم گزشتہ دو سالوں کے دوران ان کی حکومت کے دور میں اسلام آباد میں پہلے سے قائم سکولوں میں طالب علموں کی گنجائش کم کردی گئی۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے سکول بسیں رک گئیں۔ نئے ہسپتال شفاخانے بھی نہ بن سکے۔

دو ہزار تیرہ سے قائمہ کمیٹی برائے صنعت کی سالوں سربراہی کرنے کے باوجود بھی پی آئی اے، سٹیل ملز اور دوسرے قومی اداروں میں ان کی تمام تر انتھک محنت کے باوجود بہتری نہ آ سکی۔ مقامی صنعت فعال نہ ہو سکی اور آٹو سیکٹر سے لے جدید انڈسٹری تک۔ ملکی منڈی پر غیر ملکی کمپنیوں کا تسلط ختم نہ ہو سکا نہ ہی مسابقت کی فضا ہموار ہو سکی گو کہ پاکستان تحریک انصاف کے نامزد وزیر خزانہ جماعت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد محض آٹھ ماہ بعد ہی برطرف کر دیے گئے لیکن ان کی سربراہی میں ایس سی سی کا چینی برآمد کرنے کا فیصلہ چینی سکینڈل کی صورت میں پاکستان تحریک انصاف کے لئے بہت تنقید کا باعث بنا۔

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ، گیس بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے حوالے سے ان کا تردد ان کے برطرف ہونے کی وجہ مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ملک میں بجلی گیس کے نرخ بلاجواز بڑھائے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کو بھی گرایا یا گرنے دیا۔ وہ اپنے فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان اس وقت ایک مشکل ترین وقت سے گزر رہا تھا۔ ملک دیوالیہ ہو چکا تھا۔

ان کے خود سے چیزیں مہنگی کرنے کی بدولت ہی پاکستان آئی ایم ایف سے قدرے آسان شرائط پر قرض لینے میں کامیاب ہوسکا۔ ان کے خیال میں ان کی تمام تر کامیاب حکمت عملی کے باوجود انہیں میڈیا کی بے جا تنقید کی وجہ سے وزارت خزانہ سے علیحدہ کیا گیا۔ تاہم واقفان حال کا اصرار ہے کہ ان کی وزارت سے برطرفی کی وجہ میں ان کے پرانے آجر اینگرو کے مالکان کے خاندان سے تعلق رکھنے والے مشیر خزانہ عبد الرزاق داود کی ناراضگی تھی۔

پہلے دن سے لے کر آج تک وہ عمران خان کے قریبی رفقا میں سے ایک مانے جاتے ہیں۔ وہ پارٹی کے اندر بھی اسی طرح مقبول ہیں جس طرح عوام میں۔ ان کی مشاورت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ان کی بات سنی جاتی ہے۔ لوگ انہیں دیکھ کر رک جاتے ہیں۔ ان سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اسد عمر کی مقبولیت کے پیچھے انہیں روز اول سے ہی ایک اقتصادی جادوگر کے روپ میں پیش کیا جانا ہے۔ تاہم ان کی مقبولیت کی اصل وجہ ان کی خوش مزاجی، دوستانہ رویہ اور ان کی طلسماتی شخصیت ہے۔ انہیں لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے کا فن اتا ہے۔ دو ہزار بارہ اور پھر دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن دونوں انہوں نے عوام کی زندگیوں کو تبدیل کر دینے کے وعدوں پر جیتے۔

اصل گھر تو ان کا کراچی میں ہے لیکن سیاست میں آنے کے بعد وہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف دس میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہائش پذیر ہو گئے۔ سیاست میں قدم جمانے کے لئے انہوں نے خوب محنت کی جس میں ان کی اہلیہ نے ان کا بھر پور ساتھ دیا۔

ہمیشہ مسکراتے اسد عمر پہلی دفعہ پریشان اس وقت ہوئے جب مسلم لیگ ن کے مشاہد اللہ خان نے ان کو ایک ایسے جرنیل کے بیٹے ہونے کا طعنہ دیا جس نے قومی خزانے کے پیسے سیاستدانوں میں بانٹے۔ کم ہی لوگوں کو معلوم ہوگا کہ کہ اسد عمر، جنرل عمر مرحوم کے بیٹے ہیں۔ جن کا نام حمود الرحمن کمیشن میں بطور ملزم درج ہے۔ مسلم لیگ ن کے اہم رہنما زبیر بھی جنرل عمر کے اتنے ہی بیٹے ہیں جتنے اسد عمر۔ یعنی دونوں بھائی ہیں۔ دیکھا جائے تو اسد عمر کی پارٹی میں مقبولیت کے پیچھے ان کی معاملہ فہمی کا بھی ہاتھ ہے۔

بلدیاتی الیکشن کے دوران ان کے ہمراہ سفر کرتے ہوئے ایک دن میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ ان کی جماعت کے سربراہ تو تنک مزاج مشہور ہیں۔ آپ کیسے گزارہ کرتے ہیں۔
”خان نے مجھے کبھی نہیں ڈانٹا“ وہ بولے اور میں نے بے یقینی سے ان کی جانب دیکھا۔ ”کیونکہ میں بولتا ہی اس وقت ہوں جب مجھے کہا جائے“ وہ بے نیازی سے بولے۔

سنہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں انہوں نے دو محاذوں پر کام کیا۔ ایک تو جماعت کے لئے اور دوسرا اپنے حلقہ انتخاب میں۔ ان کا ایک پاؤں بنی گالہ میں ہوتا تھا تو دوسرا اپنے حلقے میں۔

انتخابی مہم کے دوران انہوں نے بہت محنت کی، دن رات جلسے کیے۔ اس وقت جب وہ لوگوں سے اقتدار میں آنے کے بعد نئے ہسپتال، پانی، روزگار، سکول اور کالج بنانے کے روایتی وعدے کر رہے تھے۔ الیکشن مہم کے دوران بار بار پوچھنے پر بھی انہوں نے وزیر خزانہ بننے کے بعد ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کا کوئی منصوبہ کبھی نہیں بتایا۔ ان کو اندیشہ تھا کہ ان کا منصوبہ کہیں ان کے مخالفین نہ اچک لیں۔ بار بار اصرار پر بھی کہ انتخابات سے چند روز پہلے محض نکات کی بنیاد پر کوئی کیسے کسی کا منصوبہ چرا سکتا ہے۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے تو مجھے لگا کہ ان کے پاس کوئی منصوبہ ہے ہی نہیں۔

بحیثیت انسان وہ ایک منکسر المزاج ہیں۔ ان کی نو سالہ سیاست میں کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ ان پر کبھی کسی مالی بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں لگا۔ وہ بڑی کامیابی سے سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ کسی سے رقابت نہیں پالتے۔ کسی کی بے جا مخالفت نہیں مول لیتے۔ تاہم وہ آج بھی روایتی سیاست دانوں کی طرح شادی بیاہ اور لوگوں کی غمی خوشی میں خال خال ہی شرکت کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ان سے ملنے آ جائے تو اس سے بہت اچھی طرح پیش آتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments