آہ طارق عزیز۔ ۔ ۔ ایک عہد جو تمام ہوا!


بٹوارے سے قریب ایک دہائی قبل کا قصہ ہے کہ صوبہ پنجاب کے شہر جالندھر کے میاں عبد العزیز آرائیں، جنہوں نے چوہدری رحمت علی کے مسلمانوں کی علیحدہ مملکت واسطے تجویز کردہ نام پاکستان کی مناسبت سے، اپنے نام کے ساتھ ”پاکستانی“ کا لاحقہ جڑ دیا تھا۔ عبد العزیز پاکستانی کے آنگن میں سنہ چالیس کی دہائی میں اک ننھے چراغ نے جنم لیا۔ جس کا نام طارق عزیز رکھا گیا۔ تقسیم کے ہنگام عبد العزیز پاکستانی کا خاندان اپنے خوابوں کی سرزمین پاکستان ہجرت کر کے منٹگمری (ساہیوال) آن بسا۔ طارق عزیز کی ابتدائی تعلیم و تربیت ساہیوال ہی میں ہوئی۔ بعد ازاں وہ ساہیوال سے لاہور منتقل ہو گئے۔

مردانہ وجاہت، بارعب آواز، دلکش و دلنشین انداز گفتگو، سراپا وقار و متانت، پرتاثیر لب و لہجہ کے مالک طارق عزیز کو پاکستان سے محبت ورثے میں ملی تھی۔ پاکستانیت جن کے وجود میں رچی بسی تھی۔ حب الوطنی کے اس مجسم پیکر نے اپنے ورثے کو اگلی نسلوں تک بھی بہ حسن و خوبی پہنچایا۔ اپنی ہر گفتگو کا اختتام جب وہ ”پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد“ کے فلک شگاف نعروں پر کرتے تو وطن کی محبت رگ و پے میں اترتی محسوس ہوتی۔

طارق عزیز کی زندگی نشیب و فراز، تلخ و شیریں یادوں اور سبق آموز واقعات سے بھری پڑی ہے۔ انہوں نے پچاس کی دہائی میں عملی زندگی کی شروعات ریڈیو پاکستان سے کی۔ جہاں بطور نیوز کاسٹر انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وقت کا دھارا بہتا رہا۔ ۔ ۔ ریڈیو پاکستان کی بھٹی سے گزر کر وہ کندن بن چکے تھے کہ ساٹھ کی دہائی کے وسط میں پاکستان ٹیلی ویژن میں پہلے مرد اناونسر مقرر ہوئے۔ جہاں اپنی خداداد صلاحیتوں اور محنت و لگن کے بل بوتے پر اپنا مقام پیدا کیا۔

یہ اعزاز بھی انہیں کے نام ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن کی سکرین پر دکھائی و سنائی دینے والے وہ پہلے مرد تھے۔ انیس سو پچھتر میں پی ٹی وی پہ شروع ہونے والے ”نیلام گھر“ نامی تفریحی و معلوماتی پروگرام کو آپ کی میزبانی نے ایسی شہرت بخشی کہ پروگرام نہ صرف چار دہائیوں تک پاکستان کا معروف و مشہور پروگرام رہا بلکہ کئی نسلوں میں ادب سے لگاؤ، معلومات عامہ ایسے خشک مضمون سے دلچسپی اور شعر و شاعری کا ذوق پیدا کرنے کا باعث بنا۔

”نیلام گھر“ سے ”طارق عزیز شو“ اور پھر ”بزم طارق عزیز“ کے نام سے معنون ایشیا کا سب سے بڑا کوئز شو لمبے عرصے تک مسلسل پی ٹی وی سے دکھائے جانے پر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا بھی حصہ رہا۔ اپنی پاٹ دار آواز اور کھنکتے لہجے میں وہ پروگرام کا آغاز ”ابتدا ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے جو دلوں کے حال خوب خوب جانتا ہے، دیکھتی آنکھو سنتے کانو! آپ کو طارق عزیز کا سلام پہنچے“ سے کرتے جو ان کی منفرد پہچان بنا۔ نیلام گھر فقط ایک معلوماتی و تفریحی ٹیلی ویژن پروگرام ہی نہ تھا بلکہ ادبی روایات اور تہذیبی اقدار کی امین درس گاہ تھی۔ مقصدیت سے بھر پور نیلام گھر سے نسلوں نے فیض پایا۔

طارق عزیز ریڈیو پاکستان سے پاکستان ٹیلی ویژن اور پھر وہاں سے فلمی دنیا میں جا پہنچے۔ انسانیت، ہار گیا انسان، سالگرہ، قسم اس وقت کی، چراغ کہاں روشنی کہاں اور کٹاری نامی کئی فلموں میں کام کیا۔ حسن پرست اور خوبصورتی کے دلدادہ طارق عزیز کے ملکہ ترنم میڈم نور جہان سے دوستی کے چرچے بھی میڈیا پر رہے۔ جس کا وہ خود اعتراف کرتے کہ : ”اسے میں پسند کرتا تھا، وہ مجھے پسند کرتی تھی اور ہم دوست تھے“ ۔ جو شہرت و نیک نامی انہیں نیلام گھر سے ملی وہ فلمی دنیا سے نہ مل سکی۔ جلد ہی انہوں نے فلمی دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔ ایک دوسرے موقع پر سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیتے ہوئے فلمی دنیا کو چھوڑنے کے اپنے فیصلے پر تاسف کا بھی اظہار کیا۔

طارق عزیز کی شخصیت کا اک دلچسپ پہلو یہ کہ انہوں نے میدان سیاست میں بھی زور آزمائی کی اور ستر کی دہائی میں بھٹو مرحوم کے انقلابی نظریے سے متاثر ہو کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ معراج محمد خالد کے گروپ میں رہ کر ہمیشہ خود کو بائیں بازو کی ترقی پسند سیاست کا نقیب شمار کیا۔ گردش ایام نے ایسا پلٹا کھایا کہ بھٹو مرحوم کے دور میں جیل یاترا بھی کی، وہی بھٹو جن کی شخصیت کے سحر نے ایک وقت میں طارق عزیز کو جکڑے رکھا۔

بعد ازاں بھٹو کی جمہوری لبادے میں آمرانہ روش سے دل برداشتہ ہو کر طویل عرصہ سیاست سے کنارہ کش رہے۔ نوے کی دہائی کے آخر میں مسلم لیگ جوائن کی۔ لاہور سے الیکشن لڑا۔ سن ستانوے کے الیکشن میں موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے مقابلے میں لگ بھگ چھیالیس ہزار کی اکثریت سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ برسوں بعد ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے خیال میں پاکستان کا سب سے ایماندار سیاست دان کون ہے؟ کھلکھلا کر جواب دیا کہ وہی جسے میں نے الیکشن میں ہرایا تھا۔ ان کی مراد موجودہ وزیر اعظم عمران خان تھی۔ کم لوگ جانتے ہیں سپریم کورٹ حملہ کیس کے ملزمان میں طارق عزیز بھی نامزد تھے۔ کورٹ ٹرائل کے بعد انہیں سزا ملی اور سیاست سے نا اہل قرار دے دیے گئے۔ جبکہ وہ خود آخر عمر تک اس جرم سے انکاری رہے۔

الیکٹرانک میڈیا پر تو طارق عزیز کی شہرت کا طوطی بولتا ہی تھا۔ ساتھ میں پرنٹ میڈیا پر اپنے وسیع مطالعے، گہرے مشاہدے اور زندگی کے نمایاں شعبوں سے وابستہ رہ کر علم و عرفان کے جو موتی اکٹھے کرتے رہے، روزنامہ نوائے وقت میں کالم کی صورت انہیں اپنے مداحوں میں بھی بکھیرتے رہے۔ بعد ازاں علم و دانش کے وہ موتی ”داستان“ نامی کالموں کی کتاب میں چھپ کر محفوظ ہو گئے۔

ستر اور اسی کی دہائی کی نسل میں اردو زبان و شاعری سے لگاؤ پیدا کرنے والے طارق عزیز خود بھی شاعری کا ذوق رکھتے تھے۔ سیکڑوں اشعار جنہیں ازبر تھے۔ ٹھہر ٹھہر کر اپنے منفرد انداز سے جب وہ اشعار پڑھتے تو سننے والے لہک لہک جاتے۔ ان کی مادری زبان پنجابی میں شاعری کی ایک کتاب ”ہمزاد دا دکھ“ بھی منظر عام پر آ کر معاصر شعرا سے داد وصول کر چکی ہے۔ نوے کی دہائی میں صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے ان کی خدمات کے عوض انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔

آج کل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر خاصے متحرک تھے۔ کرونا وبا کے باعث عالمی و ملکی حالات کے پیش نظر وفات سے ایک دن قبل اپنے احساسات کو ان الفاظ میں پرویا کہ: ”یوں لگتا ہے وقت تھم گیا ہے، رواں دواں زندگی رک گئی ہے، کئی دنوں سے بستر پر لیٹے لیٹے سوچ رہا ہوں کہ آزادانہ نقل و حرکت بھی مالک کی کتنی بڑی نعمت تھی، نجانے پرانا وقت کب لوٹ کے آتا ہے، ابھی تو کوئی امید نظر نہیں آ رہی“ ۔ کرونا وبا سے متاثر اور پھر علاج کے ذریعے صحت مند ہو جانے والوں واسطے نصیحت کی کہ:

” اگر آپ اس وبا میں موت کے منہ سے بچ کر نئی زندگی پا چکے ہیں تو اپنی اس نئی ملنے والی زندگی کا صدقہ اپنا پلازما عطیہ کر کے اللہ کے حضور میں بخشش کے امید وار بنیے۔ اس پلازما کو بیچ کر اگر آپ چند ٹکے کما بھی لیں گے تو اس حرام کا برا خمیازہ بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ وبا موجود ہے۔ آج کسی کے بیٹے کی جان بچانے کے لئے پلازما ڈھونڈھنے والا کل آپ یا آپ کا کوئی قریبی بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ آپ سے سوچنے کی اپیل ہے۔ اپنا پلازما ڈونیٹ کیجیے، لوگوں کو زندگیاں بانٹیے“

جب اور جہاں کہیں گفتگو کا موقع میسر آتا پاکستان سے محبت ان کے لفظوں سے جھلکتی محسوس ہوتی۔ وطن سے عشق و محبت کا یہ عالم تھا کہ وصیت کر رکھی تھی کہ میری کل جمع پونجی میرے وطن کے نام۔ پاکستان سے جو کمایا، پاکستان کے نام۔ ۔ ۔ حکیم سعید کے بعد یہ دوسری معروف پاکستانی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی جمع پونجی اپنے وطن کے نام کر چھوڑی۔ وطن کے باسی ان کی محبتوں کے مقروض رہیں گے۔

جون کی سترہ تاریخ کو طارق عزیز نامی وہ چراغ، جو چوراسی برس تک اپنی اجلی و نکھری شخصیت سے نسلوں کی آبیاری و تربیت کرتا رہا، بجھ گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

ع
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زبیا لے کر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments