جوائنٹ فیملی کا عذاب اور ہماری عورت


پروین بی بی کی عمر تئیس برس ہے اس کی شادی کو سات سال ہو گئے ہیں۔ اس کے تین بچے ہیں۔ بڑی بیٹی چھ سال کی ہے اور سکول جاتی ہے۔ پروین ایک جوائنٹ فیملی میں رہتی ہے۔ اس کی دو نندیں، ایک دیور اور ساس سسر بھی ساتھ رہتے ہیں۔ پروین کی اپنی سسرال کے ساتھ نہیں بنتی۔ اس کا سسر اکثر اسے ڈانٹ دیتا ہے اور گالی گلوچ پر اتر آتا ہے۔ اس نے کئی دفعہ پروین کو تھپڑوں سے مارا بھی ہے۔ پروین اپنا پورا زور لگاتی ہے کہ سسر کی گالیوں اور تھپڑوں سے بچی رہے لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی بہانہ نکل ہی آتا ہے۔

وہ (سسر) اس لیے بھی ناخوش ہے کیونکہ پروین کی اپنی نندوں کے ساتھ نہیں بنتی اور ان کے ساتھ اس کی اکثر زبانی لڑائی چلتی رہتی ہے۔ پروین کو شکایت ہے کہ گھر کا زیادہ کام اسے کرنا پڑتا ہے اور اس کی نندیں اس کا ہاتھ نہیں بٹاتیں۔ نندوں کا یہ خیال ہے کہ وہ زیادہ کام کرتی ہیں اور پروین اپنے حصے کا کام نہیں کرتی۔

پروین نے بہت دفعہ اپنے خاوند سے بات کی لیکن وہ بھی اپنے والد کے سامنے نہیں بولتا اس لیے کوئی مدد نہیں کر پاتا۔ وہ کہتا ہے کہ بزرگ ہیں غصے کے تھوڑے تیز ہیں، میں ان کے سامنے نہیں بول سکتا۔

پروین کا خاوند چھبیس سال کا ہے۔ وہ اسے سمجھاتا ہے کہ اس نے دو کنواری بہنوں، اور والدین کی ذمہ داری تو نبھانی ہے، ورنہ لوگ کیا کہیں گے۔ اپنا فرض تو نبھانا ہے۔

پروین کہتی ہے کہ وہ الگ گھر میں رہنا چاہتی ہے لیکن اس کا میاں کہتا ہے کہ وہ الگ گھر افورڈ نہیں کرتا اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے والدین ایسا نہیں چاہتے اس لیے وہ انہیں ناراض نہیں کر سکتا۔ اس کے خاوند کی آمدنی محدود ہے اور خرچہ بہت مشکل سے چلتا ہے۔ پروین اب مزید بچے نہیں پیدا کرنا چاہتی اور فیملی پلاننگ کا کوئی مستقل طریقہ استعمال کرنا چاہتی ہے لیکن اس کی ساس اس بات کی اجازت نہیں دے رہی۔ ساس کہتی ہے کہ ابھی تک تو صرف ایک بیٹا ہے کم از دو تو ہوں۔ شوہر پھر مدد کے قابل نہیں ہے کیونکہ وہ ماں کا بہت فرمانبردار ہے۔ اور اندر سے وہ خود بھی چاہتا ہے کہ ابھی وہ فیملی پلاننگ نہ کریں کیونکہ ان کا ایک ہی تو بیٹا ہے۔

پروین نے ایک دن کہہ دیا کہ پہلے جو لوگ گھر میں موجود ہیں ان کے خرچے پورے نہیں ہو رہے تو اوپر سے اور بچے بھی چاہتے ہیں۔ خرچہ کدھر سے آئے گا۔

پروین کا خیال ہے کہ وہ اگر الگ گھر میں رہے تو وہ کچھ کام شروع کر لے گی اور ان کے گھر کی آمدنی میں اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کے شوہر خواتین کے گھر سے باہر کام کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ اور باقی سارے گھر والے بھی اسی خیال کے ہیں۔ انہیں یہ بھی ڈر ہے کہ اس طرح پروین بہت آزاد ہو جائے گی۔ پروین کو ڈر یہ ہے کہ اگر وہ الگ گھر میں رہنے یا فیملی پلاننگ کے مطالبے پر زور دے گی تو اس کا خاوند اس کو طلاق دے دے گا۔

اگر ایسا ہو گیا تو زندگی اور بھی خراب ہو جائے گا کیونکہ پروین کا والد اور اس کے بھائی نہ عورتوں کے گھر سے باہر کام کرنے کے حق میں اور نہ ہی عورتوں کی دوسری شادی کے حق میں ہیں۔ اور انہوں نے پروین کو واضح بتایا ہوا ہے کہ اگر وہ سسرال کے ناراض ہو کر میکے آئے تو بچے سسرال ہی حوالے کر کے آئے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ دوسروں کے بچے نہیں پال سکتے۔

ان سب باتوں سے بھی بڑھ کر یہ کہ اسی گھر میں بھائی اور بھابی بھی رہتے ہیں کیونکہ جوائنٹ فیملی سسٹم ہے۔ اور بھابی کے ساتھ رہنا بہت ہی مشکل ہو گا کیونکہ وہ غصے کی بہت تیز ہے اور پروین کو پسند بھی نہیں کرتی۔ پروین بھی اسے پسند نہیں کرتی۔

پروین کی بھابی بھی اپنے تین دیور اور ساس سسر کے ساتھ رہتی ہے۔ وہ پہلے ہی بہت تنگ ہے اور الگ گھر میں سسرال کے بغیر رہنا چاہتی ہے لیکن پروین کے والدین جوائنٹ فیملی کے حق میں ہیں۔ اور وہ اپنے بیٹے کو الگ رہنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اور پروین کا بھائی کہتا ہے کہ والدین سے الگ گھر لیا تو بے عزتی ہو گی، لوگ باتیں بنائیں گے۔

پروین کی ایک خاتون دوست جس کو پروین اپنی ساری باتیں بتاتی ہے وہ پروین کی کہانی کسی اور دوست کو فون پر سنا رہی تھی۔ اس کے تیرہ سالہ بچے نے یہ پوری کہانی سنی اور اپنی ماں سے پوچھا کہ جب وہ لوگ پروین آنٹی کو پیار نہیں کرتے اور پروین آنٹی ان کو پسند بھی نہیں کرتی تو پھر وہ لوگ اکٹھے رہنے پر کیوں ضد کر رہے ہیں۔ خاتون نے سوچا کہ ایک تیرہ برس کے بچے کو جو بات ایک کہانی سن کے سمجھ آ گئی ہے وہ ہمارے اتنے سیانے بزرگوں کو ہزاروں ایک جیسی کہانیاں دیکھ اور بھگت کر کیوں سمجھ نہیں آ رہی۔ اس جوائنٹ فیملی کے عذاب سے ہماری عورت کی جان کب چھوٹے گی۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments