تھین آن من چوک پر چینی طلبا کا احتجاج


چین میں ہمارے قیام کے دوران جو اہم ترین واقعہ پیش آیا جس پر مغربی ذرائع ابلاغ نے بہت کچھ لکھا اور جس کے بارے میں مغربی محققین آج تک تحقیقی مقالے لکھ رہے ہیں، وہ تھا 1989 اپریل میں طلبا کا احتجاج۔ کمیونسٹ پارٹی کے سابق جنرل سیکریٹری ہو یاؤ بانگ کے انتقال پر بیجنگ کے طلبا مارچ کرتے ہوئے تھین آن من اسکوائر گئے تھے اور وہاں دھرنا دیا تھا۔ جلد ہی اس دھرنے میں ملک بھر سے طلبا شامل ہو گئے تھے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اس واقعے کو ”تھین آن من چوک کا قتل عام“ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کے بیان میں فریقین ہمیشہ افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں۔ صحیح حقائق اور اعداد و شمار عام طور پر کبھی سامنے آ نہیں پاتے۔

چینی طلبا کے احتجاج کی جدید روایت کا آغاز 1919 میں چار مئی کی تحریک سے ہوا۔ طلبا کے غم و غصہ کی وجہ یہ تھی کہ چینی حکومت معاہدہ ورسیلز کے ذریعے شاندونگ صوبے پر جاپان کے کنٹرول کو روکنے میں ناکام رہی تھی۔ اس وقت طلبا جذبۂ حب الوطنی کے تحت اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور ایسی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے جو قومی مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی تھی۔ چینی طلبا تحریکوں کی خاصیت یہ رہی ہے کہ وہ ایک کیمپس تک محدود نہیں رہتیں بلکہ پورے ملک میں پھیل جاتی ہیں۔

بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں قوم پرست سیاستدان طلبا کی حمایت سے محروم ہو گئے تھے کیونکہ ”وہ خاطر خواہ طور پر قوم پرست نہیں تھے، ذاتی طور پر بد عنوان اور حد درجہ مطلق العنان تھے۔“ قوم پرستوں کو جلد ہی شکست ہوئی اور ان کی جگہ کمیونسٹ پارٹی نے لے لی۔ مغربی مصنفین کی رائے میں 1989 میں طلبا کو کچھ ایسی ہی شکایتیں کمیونسٹ پارٹی سے ہو گئی تھیں لیکن حکومت نے اس احتجاج کو ظالمانہ طریقے سے کچل دیا۔ مغربی اسکالرز آج بھی اس بارے میں بحث کر رہے ہیں کہ کیا چینی طلبا دوبارہ حکومت کے خلاف اٹھیں گے کیونکہ کرپشن کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہو سکا ہے اور سیاسی دائرے میں لوگوں کو آزادی نہیں مل پائی ہے مگر دوسری طرف حکومت کی کامیاب اقتصادی پالیسیوں کو عوامی تائید حاصل ہے۔

مغربی اسکالرز نے 1980 کے عشرے میں ہونے والے طلبا احتجاج کے جو اسباب بیان کیے ہیں، ان میں زیادہ جمہوریت کی خواہش اور آزادیٔ اظہار کے فقدان پر فرسٹریشن شامل ہے۔ کچھ نے سرکاری افسران کی بدعنوانی کو اس کا بنیادی سبب قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ایسے مظاہرے اس لئے نہیں ہوتے کہ وہ نسل سیاسی ایکٹوسٹس کی نسل تھی جب کہ موجودہ نسل مادیت پسند ہے اور سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ جب کہ چند اسکالرز یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وہ مظاہرے محض کیمپس کی بری حالت، افراط زر اور اقتصادی مشکلات کے خلاف طلبا کی ناراضگی کا اظہار تھے۔

1980 کے عشرے کے سالوں میں کالج اور یونیورسٹی جانے والے طلبا ثقافتی انقلاب کے دوران پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے بچے تھے۔ ان میں سے اکثر جب کالج پہنچے تو انہیں تعلیم سے محروم کر کے ثقافتی انقلاب کے نام پر کسانوں سے سیکھنے کے لئے دیہاتوں میں بھیج دیا گیا۔ ان طلبا کو ماؤ کی وفات کے بعد ہی کالج جانے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ جبکہ 1990 اور 2000 کے عشروں کے سالوں میں کالج جانے والے طلبا اس دور میں پیدا ہوئے تھے جب ماؤ کا سوشلزم ”سوشلسٹ منڈی کی معیشت“ میں تبدیل ہو چکا تھا۔

یہ طلبا نظریاتی جوش و خروش نہیں بلکہ اقتصادی ترقی کے دور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے چین کی بڑھتی ہوئی عالم گیریت اور اقتصادی ترقی دیکھی ہے۔ طلبا کے احتجاج کا پہلا کیس 1979 کی دیوار جمہوریت تحریک کے بعد 1980 میں ’نام نہاد‘ انتخابات کے خلاف سامنے آیا۔ دینگ سیاؤ پنگ کی اصلاحات کے نتیجے میں مقامی کانگریس میں لوگوں کو براہ راست اپنے نمائندے چننے کا اختیار دیا گیا تھا۔ طلبا نے ان اصلاحات کا گرمجوشی سے خیر مقدم کیا مگر پھر انتخابات کے حوالے سے طلبا اور سرکاری افسران کی سوچ میں فاصلے بڑھنے لگے۔ (liu and Nathan)

ہمارے چین میں قیام کے دوران 1980۔ 87 چاؤ زے یانگ وزیر اعظم تھے۔ اس کے بعد وہ کمیونسٹ پارٹی کے وائس چیئر مین اور پھر جنرل سیکریٹری بنے۔ 1986 میں وہ چین میں سیاسی اصلاحات کے انچارج تھے۔ طلبا کے احتجاج کے دوران ان کی ہمدردیاں طلبا کے ساتھ تھیں اس لئے انہیں اختیارات سے محروم کر دیا گیا۔ بہر حال یہ سب تو وہ باتیں ہیں جو گوگل آنٹی بھی آپ کو بتا دیں گی لیکن بات یہ ہے کہ ہم بھی وہاں موجود تھے، ہم سے بھی لوگ پوچھ سکتے ہیں اور یہ ہنس دینے اور پردہ رکھنے والی بات تو ہے نہیں کیونکہ مغربی میڈیا اور مغربی اسکالرز تو اس پر بے تحاشا لکھ چکے ہیں۔

لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا کہ ان معاملات میں فریقین ہمیشہ افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں اور اصل حقائق اور اعداد و شمار کبھی سامنے نہیں آ پاتے۔ مغربی ذرائع کے مطا بق طلبا کی بیچینی کی سب سے بڑی وجہ سرکاری افسران کی کرپشن تھی۔ ہم بھی روزنامہ چائنا ڈیلی میں افسران کی بدعنوانی، غبن اور بر طرفی کی کہانیاں پڑھتے رہتے تھے۔ اور حیران ہوتے تھے۔

بات یہ تھی کہ ایک بند معاشرے میں جہاں لوگ انتہائی سادگی اور جفا کشی سے زندگی گزار رہے ہوں، وہاں حکومتی پالیسیوں میں تبدیلی کے نتیجے میں مغربی سرمایہ کار اپنے سرمائے کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب اور ثقافت کا گلیمرلے کر آ جائیں تو لوگوں کی آنکھیں تو چکا چوند ہوں گی اور نوجوان طبقہ تو ویسے بھی نئی اور جدید چیزوں اور تصورات کی طرف زیادہ لپکتا ہے۔ اب مصوروں کی ہی مثال لیجیے۔ انہوں نے نیوڈ پینٹنگز بنانا شروع کر دیں لیکن ہوا یہ کہ جن خواتین نے ان کے لئے ماڈلنگ کی تھی، ان کے شوہروں نے انہیں طلاق دے دی۔ چین ہمارے جیسا مشرقی ملک نہ سہی، ہے تو ایشیائی ملک۔ طلبا کا آئیڈیل اس وقت کا امریکہ تھا اور ان کی خواہش تھی کہ چین میں بھی جلد از جلد امریکہ جیسی جمہوریت آ جائے اور چین بھی راتوں رات امریکہ جیسا ملک بن جائے۔

اپریل میں شروع ہونے والا یہ دھرنا انتہائی پر امن تھا۔ ملک کے مختلف حصوں سے وفود آآ کر دھرنے میں شامل ہو رہے تھے۔ اس وقت ہمیں بہت ہنسی آئی، جب ہم نے کسی چھوٹے شہر سے آنے والے لیڈر کو اپنی کار پر ماؤزے تنگ کی بڑی سی تصویر لگائے گھومتے بھی دیکھا، اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ طلبا ماؤ کی نہیں بلکہ امریکہ کی تقلید کے خواہاں تھے۔ مئی میں تھین آن من چوک کے سامنے والی سڑک سے ہم بارہا گزرے اور طلبا کو اطمینان سے بیٹھا ہوا دیکھا کوئی ہنگامہ نہیں، کوئی ہلڑ بازی نہیں۔

اتنے طویل عرصہ میں طلبا نے بجلی کے کھمبوں پر لگا ہوا ایک بلب تک نہیں توڑا نہ ہی سڑک کے دوسری طرف گرمائی محل کے دروازے پر لگی ہوئی چینی قائدین کی تصاویر پر سیاہی پھینکی۔ یعنی بہت ہی با ادب با ملاحظہ قسم کا دھرنا تھا۔ ایک دن ہم وہاں سے گزرے تو چوک کے وسط میں امریکہ کا مجسمہ ء آزادی ایستادہ تھا۔ طلبا نے اپنے مطالبات اور خواہشات کا اس مجسمے کی شکل میں اظہار کیا تھا تا کہ قائدین سمجھ جائیں کہ طلبا دراصل چاہتے کیا ہیں۔

طلبا کے مظاہرے شروع ہوتے ہی ہمارے ساتھ مقیم غیر ملکی ماہرین کو ان کی حکومتوں نے اپنے سفارت خانوں کے ذریعے واپس بلا لیا تھا، پورا ہوٹل سائیں سائیں کر رہا تھا صرف ہندوستان کے ٹھاکر منموہن صاحب اور سین صاحب اور ہمارے سمیت چند غیر ملکی خاندان ہی باقی بچے تھے۔ شاید ہماری حکومتوں اور سفارت خانوں کو ہماری سلامتی کی پروا نہ تھی۔

دھرنا پر امن تھا لیکن جیسے جیسے گورباچوف کے دورے کا وقت قریب آ رہا تھا، حکومت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا تھا۔ وزیر اعظم چاؤ زے یانگ کو طلبا کا حامی سمجھا جاتا تھا، اس لئے انہیں سیاسی منظر سے ہٹادیا گیا۔ ایک اسٹوڈنٹ لیڈر کی وڈیو جاری کی گئی کہ وہ مغربی سفارت کاروں سے رابطے میں تھا۔ چینی حکام غیر ملکی عمائدین سے عظیم عوامی ہال میں ملاقات کرتے ہیں جو تھین آ ن من اسکوائر کے پہلو میں واقع ہے جہاں استقبالیہ تقریب ہونا تھی مگروہاں طلبا براجمان تھے۔ چینی حکام کے لئے گورباچوف کا دورہ بے حداہمیت کا حامل تھا۔ تیس سال کی کشیدگی کے بعد دونوں ممالک کے سربراہوں کی ملاقات ہونے جا رہی تھی مگر انہیں گورباچوف کو عقبی دروازے سے گریٹ ہال لے جانا پڑا۔ حکومت کے لئے یہ بے حد خفت کا باعث تھا۔

تین جون کو ہم محو خواب تھے کہ ایک عجیب سی گڑگڑاہٹ سن کر آنکھ کھل گئی، ہم دوڑ کر بالکونی میں گئے تو دیکھا کہ سڑک پر سے ٹینک گزر رہے تھے۔ ہماری کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ بھلا فوجی ٹینکوں کا یہاں کیا کام، ہم کچھ دیر کھڑے رہے پھردوبارہ جا کے سو گئے۔ (ویسے بعد میں ہم اکثر سوچتے تھے کہ اگر تھین آ ن من اسکوائر کو طلبا سے خالی کروانا تھا تو ٹینک بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ طلبا کو منتشر کرنے کا کوئی اور طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا تھا لیکن چین کی حکومت اس معاملے میں بالکل نا تجربہ کار تھی، نئے چین کے قیام کے بعدکمیونسٹ حکومت کو پہلی بار اس طرح کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا تھا، شاید اسی لئے لاٹھی یا آنسو گیس یا واٹر کینن استعمال کرنے کی بجائے اس نے ٹینک بھیج دیے ) ۔

صبح اٹھے تو عجیب سا ماحول تھا۔ سینہ گزٹ کے ذریعے مختلف کہانیاں گردش کر رہی تھیں۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ اپنی بالکونیوں میں کھڑے شہریوں پر ٹینکوں سے گولیاں برسائی گئیں اور تھین آن من چوک کو بزور قوت خالی کرا لیا گیا ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا بیشتر طلبا کو مار دیا گیا، کوئی کہہ رہا تھا کہ پہلے چوک خالی کرانے کے لئے وارننگز دی گئی تھیں اور بیشتر طلبا چلے گئے تھے، صرف وہی طلبا ہلاک ہوئے جنہوں نے ہٹنے سے انکار کر دیا تھا۔

ہمیں بے چینی ہو رہی تھی چنانچہ احفاظ اور میں ایک دو ہندوستانی دوستوں کے ساتھ ہوٹل سے نکل کر باہر سڑک پر چلے گئے جہاں کچھ چینی باشندے بھی پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے۔ ایک چینی شخص غم و غصے کے عالم میں زور زور سے کچھ کہہ رہا تھا۔ احفاظ نے بتایا کہ وہ کہہ رہا ہے ”ہم ایک ارب ہیں، تم کتنوں کو مارو گے؟“ ۔ چند روز بعد تھین آن من اسکوائر کے سامنے سے گزرنے کا اتفاق ہوا تو مجسمۂ آزادی کے ریپلیکا کا ملبہ تب تک وہیں پڑا تھا۔ یہ حکومت کی جانب سے طلبا کے مطالبے کا جواب تھا۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ حکومت اور طلبہ کے درمیان کوئی زیادہ اختلاف نہ تھا، دونوں ہی ترقی چاہتے تھے۔ اختلاف تھا تو اس بات پرکہ ترقی کے سفر کی رفتار کیا ہو۔ حکومت جو تجربہ کار اور آزمودہ کمیونسٹ رہنماؤں پر مشتمل تھی، سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہتی تھی جب کہ طلبا جوانی کے جوش میں صر ف اقتصادی ہی نہیں بلکہ ثقافتی اور جمہوری میدان میں بھی امریکہ کی تقلید کرنا چاہتے تھے۔ میرے خیال میں اگر صحیح معنوں میں کوئی اختلاف تھا تو وہ ایک کی بجائے دو پارٹی والی جمہوریت کا مطالبہ تھا۔

یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہمیں بائنری سوچ میں نہیں پڑنا چا ہئے۔ یہ بات درست ہے کہ چینی حکومت نے طلبا کے ساتھ سخت زیادتی کی جس کی مذمت ہر جمہوریت پسند انسان کو کرنی چاہیے لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ مغربی میڈیا تھین آن من چوک کے واقعے کو اپنے منافقانہ مقاصد کے لیے آج تک استعمال کرتا رہا ہے۔ اورتھین آن من چوک سے کئی بڑے جرائم، جیسے گجرات میں مودی حکومت کا اپنے مسلمان شہریوں کا قتل عام کا ذکر مغربی میڈیا میں ذرا مشکل ہی سے ملتا ہے۔

اس سیریز کے دیگر حصےچین کا ثقافتی انقلاب اور اس کے تہوارچین 1985 میں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments