بے یقینی سے بے یقینی تک


بہت دنوں کی بات ہے ’اتنے بہت دنوں کی کہ اب شمار کرنا چاہوں تو نہ کرسکوں۔ تب بڑا ہی سکون تھا، اطمینان اور یکسوئی۔ تب مجھے یہ بھی پتہ نہ تھا کہ شمار کرنا کیا ہوتا ہے، گنتی کسے کہتے ہیں۔ دنوں کا تعلق وقت سے ہے نا‘ جب وقت کا ہی نہ ہو تو دنوں اور ان کے شمار کا کیا سوال؟ وہ وقت سے خالی جگہ تھی۔ نہ صبح تھی ’نہ شام‘ رات اور دوپہر۔ نہ سورج ’چاند‘ تارے ’نہ ان کے طلوع وغروب کا جھنجٹ۔ یہ زمین بھی تو نہ تھی جس کی پیٹھ پر ہمیں وقت کی زنجیروں سے باندھ کے ڈال دیا گیا ہے۔ پتہ نہیں کیا مقام تھا اور کون دیار۔

ہم بہت سے تھے مگر سب اک دوجے کے قریب۔ کوئی اوٹ تھی نہ دوری۔ ہر ایک یکساں نزدیکی پر تھا اور یکساں دوری پر۔ نہ ہم کھاتے پیتے تھے ’نہ کوئی لڑائی جھگڑا تھا۔ نہ کوئی ملکیت نہ مال وزر۔ کوئی بے مقام سا قفس تھا جہاں ایک بھینی بھینی روشنی پھیلی رہتی تھی۔ ایک اجالا‘ نہ دھیما نہ تیز، بڑا ہی معتدل۔ وہاں کوئی سمت نہ تھی۔ نہ دایاں ’نہ بایاں‘ نہ آگا ’نہ پیچھا‘ نہ اوپر نہ نیچے۔ سو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ روشنی کس سمت سے آتی تھی۔ اس روشنی میں ہی تو ہم رہتے تھے ’وہی تو ہمارا آشیاں تھا۔ اور ٹھکانہ۔ کتنی آسودگی تھی اس قفس میں! ایک بے شکل گہرا اطمینان۔ نہ فکر‘ نہ فاقہ ’نہ خوشی‘ نہ غم بس کامل واکمل یکسوئی۔

تم بھی تو وہیں تھیں۔ تمہیں یاد نہیں آرہا؟ ہاں! میں جانتا ہوں نہیں یاد آئے گا۔ بوجھ سے جو لاد دی گئی ہو ’مادے کی بوجھل کثافت سے۔ میری‘ تمہاری لطافت چھین کے بوجھ اٹھانے والا جانور بنا دیا گیا ہے۔ پھرتے رہیں گے اب یہ بار اٹھائے اٹھائے۔ اسی کثافت نے تمہاری یادداشت سلب کرلی ہے ’تمہاری حرکت روک دی ہے۔ تمہیں وقت میں اور مقام میں قید کر دیا گیا ہے۔ اس قید سے اور اس بوجھ سے چھوٹو گی تو سب یاد آ جائے گا۔

ہاں تو میں ذکر کر رہا تھا وہاں کا جہاں میں اور تم تھے۔ تب اک ندا آئی کہ ہجرت درپیش ہے، تیاری کرلو۔ میں کہیں جانا نہیں چاہتا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ تمہارے بہت سے ساتھی وہاں ملیں گے جہاں تم جا رہے ہو۔ وہ ’جن کے ساتھ تم بہت مانوس تھے اور جن کے جانے پر تم اداس تھے۔ ان میں سے فلاں تمہاری ماں کے روپ میں منتظر ہے‘ فلاں باپ ’بھائی‘ بہن ’دوست کی شکل میں تمہارا انتظار کرتے ہیں۔ مجھے کچھ ڈھارس ہوئی میں اپنے پیاروں کے تصور میں کھو گیا تھا۔

پھر یکایک مجھے اس کا خیال آیا اور میں کانپ کے رہ گیا۔ اس بے شکل مگر مکروہ کردار کا۔ وہ جس کی موجودگی کے احساس نے مجھے پہلی مرتبہ خوف کے جذبے سے آشنا کیا تھا۔ اس کی موجودی مجھے اذیت میں رکھتی تھی۔ میں نے پوچھا ”وہ۔ ۔ ۔ وہ بھی تو وہیں ہوگا“ مگر جواب میں کوئی ندا نہ آئی۔ کامل سکوت تھا اور خامشی۔ میں سسکتا رہا‘ بلکتا رہا مگر مجھے ایک اندھیرے گنبد کی دیوارسے چپکا دیا گیا۔

یہاں میری شناسائی وقت سے ہوئی۔ میں نے وقت کو خود پر جھیلا۔ یہاں سب کچھ تھا۔ رشتے ’ناتے‘ محبت ’نفرت سب کچھ مگر سکون نہ تھا‘ یکسوئی نہ تھی جو وہاں ہوا کرتی تھی۔ وہاں ’جہاں میں تھا اور تم تھیں۔ اس سکون کے لئے میں نے کیا کیا جتن نہیں کیے ۔ محل کی نے سکوں آسائشیں چھوڑیں اور بھوک جھیلی۔ دریاؤ ں کے یخ پانیوں میں بگلے کی طرح ایک ٹانگ پر کھڑا رہا۔ مجھ سے پہلے والے صدیوں کی ریاضت سے مدنیت تک پہنچے تھے‘ میں یہ سب چھوڑ پھر سے پہاڑوں ’جنگلوں میں بھٹکتا رہا۔ پیہم تین تین دن تک گول گول گھومتا رہا۔ کنوؤں میں الٹا لٹکا، پیروں میں گھنگھرو باندھ کے ناچا مگر یکسوئی نہ ملی‘ نروان نہ ملا ’اطمینان قلب میسر نہ ہوا۔

پھر تم مجھے آن ملیں۔ ایسا لگا میری ذات کی تکمیل ہوگئی۔ وہ جو ایک بے شکل کا خلا تھا، پر ہوگیا۔ بے کلی کے جھکڑوں سے نجات ہوئی اور آسودگی کی ہوائیں اٹکھیلیاں کرنے لگیں۔ مگر یہ کیفیت بھی عارضی تھی ’مختصر اور قلیل۔ پھر جب ہمارا آنگن پھولوں اور کلیوں سے مہکنے لگا تو تم ان کی آبیاری میں ایسی الجھیں کہ میں پھر سے تنہا ہوگیا۔ کیوں نہ ہو‘ تمہارا اتم روپ ماں کا جو ہے۔ ہاں۔ ۔ ! ماں سے یاد آیا ’وہاں جو بھینی بھینی روشنی تھی‘ وہ جس کی سمت کا پتہ نہ چلتا تھا اورجس میں ہم رہتے تھے ’اس میں ماں کی آغوش کی سی آسودگی تھی۔ اس تاریک گنبد کی فضاؤ ں میں رچے بسے تحفظ کا سا احساس۔

خیر! پھر ایک دن وہ میری زندگی کے دائرے میں آن داخل ہوا۔ وہی جس کی موجودگی کے احساس نے مجھے خوف کی محسوسات سے آشنا کیا تھا۔ اس کے در آنے سے زندگی اور اذیت ناک ہوگئی تھی۔ اسے نہ رشتوں کے تقدس کا خیال تھا نہ انسانی دانش کی صدیوں کے تجربات کے بل پر طے کی گئی اخلاقی اقدار کا۔ پھر ایک دن اس نے مجھے مار ڈالا۔ اتنی اذیت اور تکلیف برداشت کرنے کے بعد میرا خیال تھا کہ میں ”گھر“ کو لوٹ آیا ہوں ’اب یہاں کامل سکون اور یکسوئی ہوگی۔ مگر یہ تو کوئی اور ہی جگہ ہے۔

گو کہ یہاں بھی نہ مادے کا وجود ہے اور نہ مکاں کا۔ مجھ سے پہلے والے بھی یہاں موجود ہیں۔ ہم بہت سے ہیں ’بہت ہی زیادہ مگر سب اک دوجے کے قریب‘ اک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں ’محسوس کر سکتے ہیں۔ کوئی اوٹ ہے‘ نہ کوئی دوری۔ ہر ایک یکساں نزدیکی پر ہے اور یکساں دوری پر۔ مقام ویسا ہی ہے مگر یہاں وہ آسودگی نہیں۔ ہر ایک سہما ہوا ہے ’خوف زدہ۔ کہتے ہیں کہ جو ہجرت کے دن گزار کے آئے ہو، اب ان کا حساب ہونا ہے۔ سب کچھ پوچھا جائے گا‘ مواخذہ ہوگا۔ اس ہجرت کا حساب جس میں میری مرضی شامل نہ تھی، جو میں نے روتے ہوئے جھیلی تھی۔

یہاں ہجرت کے دنوں سے بڑھ کر بے کلی ہے۔ سکون کی اور اطمینان کی سب سے بڑی دشمن یہ بے یقینی ہے کہ میں کام یاب قرار پاؤں گا یا ناکام؟ جو میں کر کے آیا ہوں اس میں درست کتنا تھا اور کتنا غلط؟ یہاں بھی سب اسی بے بقینی کا شکار ہیں۔ اندازے ہیں اور تخمینے۔ یہی کچھ تو وہاں تھا ’اس پہلی ہجرت میں جہاں میں نروان اور فکری آسودگی کی تلاش میں رہا۔ یہاں بھی وہی فکر کی دوئی اور بے یقینی!

ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments