کرونا بیتی اور وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی


آج سے سولہ دن قبل مجھے میری ہمشیرہ کا فون آیا جس نے انتہائی پریشانی کی حالت میں مجھے بتایا کہ اس کے میاں کو کرونا ہو گیا ہے۔ بات پریشانی کی تھی لیکن متوقع تھی کہ میرا بہنوئی ایک سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر ہے اور ان دنوں ڈاکٹرز کے بھی کرونا سے متاثر ہونے کے کیسز اسی تواتر سے سامنے آرہے ہیں جتنے کہ عام لوگوں کے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ میرے بہنوئی کو کرونا ہو گیا مسئلہ یہ تھا ان کا گھرانا جو پانچ افراد پر مشتمل ہے، میں ان کے تین بچے دو بیٹیاں جن کی عمر 6 برس اور 4 برس اور ایک بیٹا جس کی عمر محض 6 ماہ تھی شامل ہیں، میں سے کس کس کو کرونا ہوا ہوگا؟

خیر سرکاری ادارہ تھا انہوں نے بہنوئی کو داخل کر لیا اور باقی گھر والوں کا ٹیسٹ لے لیا۔ ٹیسٹ کی رپورٹ دوسرے دن آئی جس سے معلوم ہوا کہ میری بہن اور اس کے 6 ماہ کے بیٹے کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور دونوں چھوٹی بچیوں کا منفی یعنی انہیں کرونا نہیں۔ بہنوئی ہسپتال سے گھر آ گیا تاکہ اپنا قرنطینہ مکمل کرسکے۔ اب یہاں ننھیال اور ددھیال کا ایک امتحان شروع ہو گیا کہ ان دو چھوٹی بچیوں کا کیا کیا جائے جو ماں باپ سے الگ تو نہیں رہ سکیں گی۔

کیا انہیں ننھیال میں لے جایا جائے یا ددھیال میں، ابھی ہم اسی کشمکش میں تھے کہ بہن اور بہنوئی نے فیصلہ کیا کہ بچوں کو آپ لوگ نہ لے کے جائیں کہ ٹیسٹ چوبیس گھنٹے پہلے لیا گیا تھا ممکن ہے ان چوبیس گھنٹوں میں بچے کرونا کیریئر بن چکے ہوں یعنی آپ لوگ رسک نہ لیں۔ ہم کسی طرح مینیج کر لیں گے۔ اس موقع پر مجھے کرونا کی ابتدائی دنوں کے وہ دعوے یاد آ گئے جن میں کچھ ”سائنس دانوں“ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے چھے گھنٹوں اور پھر نصف گھنٹے میں ٹیسٹ کے نتائج دینے والی کٹس بنالی ہیں۔

ہماری وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو اگر لوگوں کے ان مسائل کا ادراک ہوتا تو چاند کی رویت پر الجھنے سے بہتر تھا کہ وہ ایسی کٹس بناتی جن سے بیسیوں مسائل کا حل نکل سکتا تھا۔ جیسے کہ مذکورہ مسئلہ ہے اگر ایسی کٹ دستیاب ہوتی جس کے ذریعے نصف گھنٹے میں کرونا کو علم ہو سکتا تو بچہ کا تازہ ٹیسٹ کر کے انہیں ماں باپ سے الگ ننھیال یا ددھیال لے جایا جا سکتا تھا۔ ذرا تصور کریں کہ ایک خاندان میں ماں، باپ اور ایک شیر خوار بچہ کرونا متاثرہ ہیں اور دو چھوٹے بچے اس کا شکار نہیں ہیں وہ اکٹھے ایک ہی جگہ رہ ہے ہیں محض اس خدشے کی وجہ سے کہ کہیں یہ دو بچے اپنے ساتھ کرونا دوسرے گھرانوں میں منتقل کرنے کا باعث نہ بنیں۔

اب ماں نے انہیں کیسے سنبھالا ہوگا، دوسرے کمرے میں ان کو الگ رکھا اور انہیں کس طرح سے سلایا ہوگا کس طرح سے بچوں کو رفع حاجت یا نہلانا دھلانا کیا گیا ہوگا، یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن ماں باپ نے یہ ضرور سوچا ہوگا کہ دو بچے جنہیں کرونا نہیں ہے وہ یقیناً کرونا سے متاثر ہوسکتے ہیں محض کٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے جس سے ان بچوں کو علاحدہ رکھنے کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا۔ الحمدللہ آج ان کو سولہ دن ہو گئے اور وہ بخار اور انفیکشن سے لڑتے رہے اور اللہ کریم نے ان پر کرم فرمایا اور اب وہ ٹھیک ہیں اور جلد ہی وہ پلازما عطیہ کرنے کا سوچ رہے۔

یہ اور اس قسم کے دیگر مسائل میں ہماری حکومت کہاں ہے اس کا جواب میرے پاس نہیں۔ بازار میں مختلف قسم کے ماسک دستیاب ہیں کچھ معیاری اور باقاعدہ اچھی کمپنی کے بنے ہوئے جب کہ دوسری طرف غیر معیاری اور کپڑے کے جن کا کوئی فائدہ نہیں۔ مجھے بتایا جائے کہ وزارت سائنس نے ابھی تک کتنی کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے ایسی مصنوعات بنانے کے لیے اور کتنی کمپنیوں کو غیر معیاری ماسکس بنانے پر بند کیا گیا یا انہیں جرمانہ کیا گیا؟

یہاں ماسکس سونے کے بھاؤ بکے۔ ایسی ہی صورت حال گلوز یا دستانوں کی ہے، غیر معیاری ہینڈ سینی ٹائزرز کی ہے بلکہ ادویات تک غیر معیاری مل رہی ہیں۔ کہتے ہیں جب جنگ چل رہی ہو تو آپ اپنا اسلحہ کسی اور کو دیں تو غداری ہوتی ہے ہمارے ہاں کرونا آیا تو چین کو یہاں سے کیوں مصنوعات بیچی گئیں؟ وزارت سائنس نے ابھی تک ایک پروگرام بھی ایسا نہیں بنایا جس میں لوگوں کو آگاہ کیا جاسکے کہ جب کرونا ہو جائے تو اس سے کیسے نمٹنا چاہیے؟

بہت سے لوگ جن کو وسائل کی کمی ہے اور کم علمی کی وجہ سے وہ یہ نہیں جان سکتے کہ ان کے پلس ریٹ اور آکسیجن کی کیا صورت حال ہے وہ رفتہ رفتہ موت کی طرف سرکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پلس آکسی میٹر دو ہزار سے دس ہزار تک پہنچ گیا ہے۔ حتیٰ کہ ثنا مکی جو کہ ایک جڑی بوٹی ہے اس کے نرخ آسمان کو چھونے لگے ہیں۔ کیا کوئی نظام ہے یہاں جو ان مسائل کا حل پیش کرسکے۔ میں نے بہنوئی سے پوچھا کہ آپ تو ایس او پیز پر ایک عام آدمی کی نسبت بہت سختی سے عمل در آمد کرتے تھے پھر یہ کرونا کیسے ہو گیا تو اس نے جو بات کی سمجھیے کہ سو فی صد درست حل ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ جب تک ہم میں سے ہر کوئی یہ نہیں سمجھے گا کہ وہ کرونا کا کیرئیر ہے [ بھلے وہ نہ ہو] کرونا کا پھیلاؤ نہیں رکنے والا۔ سب سے پہلی چیز ماسک ہے۔ لوگ ماسک نہیں پہنتے ایک تو یہ مہنگا ہے اور دوسرا اس کی عادت نہیں ہے۔ تیسری چیز کرونا کا خوف نہیں ہے لوگوں میں۔ خوف نہ ہونا اچھی بات ہے اگر آپ اتنے بہادر ہیں کہ بیماری کو ببانگ دہل چیلنج کر سکتے ہیں اور اس کا جرات مندی سے سامنا کر سکتے ہیں تو آپ ایک نایاب قسم کے انسان ہیں عمومی طور پر ہم انسان بیماری سے ڈرتے ہیں اور ڈرنا بھی چاہیے کہ یہ آپ کا نظام صحت تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔

تاہم کم از کم عوام یہ ذمہ داری تو لیں کہ کہیں کوئی ان کی وجہ سے کرونا سے متاثر نہ ہو جائے۔ میں پچھلے دنوں بینک میں اپنے بچوں کی فیس جمع کروانے گیا۔ بینک کے باہر قطار بنی ہوئی تھی میں بھی کھڑا ہوگا ماسک اور گلوز پہن کے یاد رہے ماسک کے بغیر بینک میں داخلہ کی اجازت نہیں ہے لہٰذا سب نے ماسکس پہنے ہوئے تھے۔ میرے آگے جو صاحب کھڑے تھے انہیں چھینک آئی انہوں نے ماسک ناک سے نیچے کیا اور ایک طرف منہ کر کے چھینک دیا۔

مجھے بہت غصہ آیا میں نے موصوف کو کہا کہ حضرت آپ کے اس عمل سے سارے ڈراپ لیٹس ہوا میں پھیل کر ہم سب تک آ گئے اگر ایسے ہی چھینکنا تھا ماسک لگانے کا کیا فائدہ، کہنے لگے کہ اس کے اندر چھینکنے سے بدبو آتی ہے، حیرت ہے کہ آپ کو اپنی سانس کی بدبو قبول نہیں جب کہ آپ اسے دوسروں کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ خیر ان سے جو باتیں میں نے مزید کیں وہ سینسر کرنے والی ہیں، بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم لوگوں کو معلومات تو ہیں لیکن ان کا عقلی استعمال نہیں معلوم۔

یہ قابل افسوس ہے۔ میں بازار میں کچھ سامان لینے گیا ایک دوست مل گئے میں نے ہاتھ ارطغرل انداز میں سینے پر رکھا تو ناراضی کا اظہار کر گئے۔ کہنے لگے بہت ڈرپوک ہو تم میاں! میں نے عرض کی ہاں قبلہ ڈرپوک ہوں کہ خدا کے سامنے گناہوں سے بھرے اعمال نامے کے ساتھ پیش ہونے کی ہمت نہیں مجھ میں آپ شاید حوصلہ مند ہوں۔ خاموش ہو گئے۔ پھر ایک آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے جو پھل خرید رہا تھا۔ اسے دیکھو اس کا کووڈ 19 مثبت آیا ہے کس حوصلہ مندی سے بازار میں پھر رہا ہے۔ [اگرچہ اس نے ماسک پہنا ہوا تھا]۔

میں حیران رہ گیا کہ کس دیدہ دلیری سے موصوف بازار پھر رہے ہیں کہیں انہوں نے ماسک ہٹا کر چھینک مار دی تو کرونا کے پھیلاؤ کا باعث بنیں گے۔ انہیں تو گھر سے باہر ہی نہیں نکلنا چاہیے انہیں تو پولیس کے حوالے کرنا چاہیے۔ اور کم و بیش ایسی صورت حال پورے ملک میں ہے کہ وہ نوجوان جو کرونا کا سامنا حوصلہ مندی سے کر رہے ہیں کہ ان کا مدافعتی نظام طاقتور ہے، وہ بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہر گھوم پھر رہے ہیں۔ نجانے، انجانے میں کتنوں تک کرونا پھیلانے کا باعث بنتے ہوں۔

یاد رہے کہ احتیاطی تدابیر سنت ہیں اللہ کریم جسے آزمانا چاہے اسے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے باوجود بھی آزما لیتا ہے۔ تاہم ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنا خیال رکھیں نہ رکھیں دوسروں کا خیال ضرور رکھیں ممکن ہے اللہ کریم اسی بات پر آپ کو آپ کے اہل خانہ کو اس بلکہ ہر بیماری سے بچا لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments