سید منور حسن: تند مزاج درویش


کراچی میں تازہ وارد ایک نوجوان سید منور حسن کی خدمت میں حاضر ہوا، ٹٹول کر جیب سے ایک رقعہ نکالا اور جھک کر ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ سید صاحب نے دیکھے بغیر اِسے میز پر ڈال دیا، کچھ دیر کے لیے دراز کو ٹٹولا، فارغ ہو کر اچٹتی سی ایک نگاہ رقعے پر ڈالی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ اٹھتے اٹھتے جیسے انھیں کچھ یاد آیا اور انھوں نے نگاہ التفات کے منتظر اجنبی کی طرف دیکھا اور بلا تمہید بولے کہ پھر چلیں؟

 ”کہاں؟ “

 ”ہمارے ہاں یہ وقت ظہر کی نماز کا ہوتا ہے“۔

سننے والے نے اس مختصر جملے میں بے تکلف شگفتگی میں لپٹی ہوئی طنز کی گہری کاٹ کو محسوس کیا، ان کے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور سوچا، اس شخص کے ساتھ بات کرنی کتنی مشکل ہے۔

سید منور حسن سے قربت رکھنے والے ان کے بہت سے احباب کا اصرار ہے کہ یہ شخص سراپا دل ہے، سفر و حضر کے ساتھیوں کا مشاہدہ بالعموم درست ہوتا ہے لیکن یہ خیال بھی غلط نہیں کہ یہ زبان ہی تھی جو سید صاحب کا سب سے بڑا ہتھیار اور سب سے بڑی کمزوری بنی لیکن ٹھہریے، یہ تبصرہ ذرا غلط فہمی پیدا کرسکتا ہے، لہٰذا کسی قدر تفصیل سے بات کرنا ضروری ہے۔

سید صاحب کے مزاج کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم کو اپنے پیرو کار کہاں سے ملے؟ تحریک آزادی کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان فکر کے دو دھارے بہہ رہے تھے، اوّل آزادی اور دوم، ایک نظریاتی محور جو مستقبل میں وجود میں آنے والی مسلمان ریاست کا قبلہ درست رکھ سکے۔ غیر منقسم ہندوستان میں علامہ اقبالؒ اس فکر کے سب سے بڑے داعی تھے۔ مولانا مودودی بھی اسی فکر سے متاثر ہوئے اور انھوں نے اس عہد کے سیاسی دھارے سے الگ رہ کر ایک پورا نظام فکر تشکیل دیا۔ اس لیے فطری طور پر ان کے متاثرین اور پیرو کاروں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو تحریک پاکستان کے ساتھ کسی نہ کسی طرح وابستہ تھے یا اس کے ساتھ فکری یگانگت کا احساس رکھتے تھے، یعنی سرد جنگ کے زمانے کی معروف اصطلاح میں دائیں بازو کے لوگ لیکن سید منور حسن کا معاملہ مختلف ہے۔

اگست 1944ء کو دہلی کے ایک تاریخی محلے قرول باغ میں آنکھیں کھولنے والے اس نونہال کی والدہ اگرچہ تحریک پاکستان کی کارکن تھیں لیکن قیام پاکستان کے بعد تشکیل پانے والی نظریاتی فضا میں پرورش پانے والے ان کے لخت جگر نے اپنی راہ ان سے جدا کر لی، وہ بائیں بازو کی ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوگئے۔ انھیں کارل مارکس، ٹراٹسکی اور لینن کے افکار میں اس دنیا کا مستقبل دکھائی دیا۔ وہ زمانہ ان کی طالب علمی کا تھا۔ یہ عین ان ہی دنوں کی بات ہے جب کراچی میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا طوطی بولتا تھا اور یہ تنظیم بالکل ان ہی خطوط پر کام کررہی تھی جس کے خد و خال اس نوجوان کو اشتراکی لٹریچر میں دکھائی دیے تھے۔

منور حسن ہمیشہ ایک عملی آدمی رہے ہیں، اس لیے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کرنے اور اس کے لیے خود کو وقف کردینے کا بڑا فیصلہ کرتے ہوئے انھیں زیادہ سوچنا نہیں پڑا۔ این ایس میں انھیں بائیں بازو کے معروف راہنما معراج محمد خان اور بزرگ ترقی پسند صحافی جناب حسین نقی جیسے مخلص اور ایثار پیشہ ساتھیوں کی رفافت میسر آئی۔ نوجوان منور حسن کا مزاج بھی ان سے مختلف نہیں تھا، اس لیے ان نوجوانوں کے درمیان نظریاتی ہم آہنگی کے علاوہ دوستی کا ایک گہرا رشتہ بھی استوار ہوگیا۔ ترقی پسندی کے زمانے کے ساتھی ہوں یا بعد از ترقی پسندی جماعت اسلامی کے ہم عصر، اپنے تمام تر اختلافات کے باجود یہ لوگ متفق ہیں کہ منور حسن جو کام بھی کرتے ہیں، کشتیاں جلا کر کرتے ہیں۔ یہی وجہ رہی ہو گی کہ وہ بہت جلد این ایس ایف کراچی شاخ کی صدارت کے انتہائی اہم اور حساس منصب پر فائض ہو گئے۔

کراچی کی طلبہ سیاست کا یہ زمانہ بڑا ہیجان خیز اور نظریاتی اعتبار بہت اہم تھا۔ تھوڑا ہی عرصہ پہلے جب خواجہ ناظم الدین ملک کے وزیر اعظم تھے، طلبہ مسائل کے حل کے سلسلے میں این ایس ایف کی قیادت میں تند وتیز تحریک کا تجربہ اس تنظیم کو حاصل ہو چکا تھا جو انتظامیہ کی بے تدبیری کی وجہ سے خون ریز ہنگاموں کی شکل اختیار کر چکی تھی (ان ہنگاموں میں اس زمانے کے اخبارات کے مطابق 26 اور بعد کی اطلاعات کے مطابق 10 افراد ہلاک ہو ئے تھے)۔ این ایس ایف اس موقع کو طلبہ مسائل کے حل کے علاوہ نوآزاد ملک کے نوجوانوں میں ترقی پسند نظریات کو ایک پختہ بنیاد فراہم کرنے کے لیے بھی کام کر رہی تھی (یہ پس منظر اس زمانے کی نظریاتی فضا کا نقشہ پیش کرنے کے لیے کافی ہے)۔ اب اسے اتفاق کہیے یا کچھ اور کہ این ایس ایف کراچی کا یہ صدر عین اسی زمانے میں مولانا مودودی کے لٹریچر سے متعارف ہی نہیں ہوا بلکہ تیزی سے متاثر ہوتا چلا گیا۔

منور حسن کے اس کے بعد کے ذاتی اور سیاسی کیرئر کو ایک جملے میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ کراچی یونیورسٹی اور مولانا مودودی کی تحریک ان کی زندگی کا حصہ ایک ساتھ بنی، یعنی ماضی کا ترقی پسند طالب علم راہنما اور ایم اے سوشیالوجی کا موجودہ طالب دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی جمعیت طلبہ کے سر گرم کارکن میں تبدیل ہو گیا۔ این ایس ایف کی طرح جمیعت میں بھی ان کے آگے بڑھنے کا عمل تیز رفتار تھا۔ آئندہ دو برس یعنی 1964ء میں وہ مذہبی رجحان رکھنے والی اس منظم طلبہ تنظیم کے مرکزی قائد یعنی ناظم اعلیٰ منتخب ہو چکے تھے۔

سیاسی اعتبار سے یہ ایک پر آشوب دور تھا۔ ملک کی تمام جمہوریت پسند قوتیں ایوب خان کے خلاف متحد ہو چکی تھیں۔ سیاست پابندیوں کی زد میں تھی اوربہت سے سیاسی قائدین جیلوں میں بند تھے۔ اس زمانے میں جمیعت کے راہنما کی حیثیت سے منور حسن قومی سیاسی منظر نامے پر نمایاں ہوئے اور انھوں نے حکومت کے آمرانہ طرز عمل کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے ملک گیر دورے کیے۔ منور حسن کبھی ان یادوں کو اپنے مخصوص شگفتہ طنزیہ لہجے میں تازہ کیا کرتے ہیں۔

ایک نشست میں انھوں نے بتایا کہ وہ کراچی سے چلے تو حیدر آباد پہنچے۔ مستعد انتظامیہ نے انھیں فوراً ضلع بدر کردیا۔ نواب شاہ، لاڑکانہ اور سکھر سے بھی اسی طرح نکالا گیا۔ سندھ سے نکلے تو پنجاب پہنچے، ملک کے سب سے بڑے صوبے کی انتظامیہ کو بھی انھوں نے سندھ ہی کی طرح مستعد پایا، یوں انھیں منزل بہ منزل ضلع بدری کا مزہ چکھاتے ہوئے خیبر پختونخوا (اس وقت کا صوبہ سرحد) پہنچا دیا گیا۔ پشاور کی حدود شروع ہوئیں تو مطالعے میں مصروف اس نوجوان راہنما نے کتاب بند کی، شرارت بھری نگاہوں سے پولیس افسر کو دیکھا اور چبھتے ہوئے لہجے میں سوال کیا اب تم مجھے پاکستان سے بھی نکال باہر کرو گے؟

منور حسن کا چبھتا ہوا انداز تکلم معمول کی بات چیت کا تو ناگزیر حصہ ہے ہی لیکن تقریروں میں تو یہ اپنی انتہا پر پہنچ جاتا۔ ان کا یہ شعلہ بار انداز بیاں ہی تھا کہ ان پر پابندیاں لگتیں اور حکومت کوشش کرتی کہ سیاسی تحریکوں کے دوران انھیں خطاب کرنے کے مواقع میسر نہ آسکیں۔ یہ پابندیاں اکثر موثر رہتیں لیکن منور حسن بھی اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے نت نئے طریقے ایجاد کر لیتے۔ تاشقند معاہدے کے خلاف تحریک کے دوران جلسہ جلوس پر پابند عائد کردی گئی۔ منور حسن نے ینگ وومن کرسچیئن ایسوسی ایشن (وائی ڈبلیو سی اے) کا ہال اپنے ایک دوست کی دعوت ولیمہ کے نام پر بک کرایا اور تاشقند معاہدے کے خلاف جلسہ کرلیا۔

1964ء کی انتخابی مہم کا ایک جلسہ بھی منور حسن کی ہنگامہ خیز طبیعت کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ایوب خان اس زمانے میں کنونشن مسلم لیگ میں پناہ لے چکے تھے اور تحریک پاکستان کی ایک یاد گار چوہدری خلیق الزماں ان کی پشت پر تھے۔ اس جماعت نے کراچی میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف اور ایوب خان کے حق میں ایک جلسے کا اہتمام کیا۔ منور حسن کے دیرینہ ساتھی سعید عثمانی نے مسکراتے ہوئے اس دن کو یاد کیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ منور حسن اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ اجتماع گاہ میں داخل ہوئے۔ ایک خیال بھر ی مسکراہٹ ان کے چہرے پر کھیل رہی تھی، اسی کیفیت میں انھوں نے ایک کرسی کو گھسیٹ کر قریب کیا اور اس پر چڑھ کر تقریر شروع کردی۔ جلسہ میں چوہدری خلیق الزماں سمیت بڑے بڑے لیڈراسٹیج پر موجود تھے لیکن سامعین کی توجہ چمکتی ہوئی مختصر داڑھی والے اس گورے چٹے نوجوان پر تھی جیسے جیسے مقرر کا لہجہ بلند ہوتا گیا، مجمع اکھڑتا چلا گیا۔ سعید عثمانی کا خیال ہے، وہ تقریر سید صاحب کی زندگی کی شاندار تقریروں میں سے ایک ہے۔ بھٹو صاحب اور اس کے بعد جنرل ضیا کے زمانے میں ان کا یہ ہنر خوب نکھر کر سامنے آیا۔

منور حسن کثیر المطالعہ رہے ہیں۔ دائیں اور بائیں بازو کا نظریاتی لٹریچر تو ایام نوجوانی میں ان کی نگاہ سے گزر چکا تھا۔ اس کے ساتھ ہی تاریخ اور شعر و ادب سے بھی انھیں گہرا لگاؤ رہا۔ ان کا زندگی بھر کا یہ مطالعہ ان کی تقریر میں خوب جھلکتا۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں صحافیوں پر آزمائش آئی تو کراچی یونین آف جرنلٹس کے ایک سیمینار سے انھوں نے بھی خطاب کیا۔ پاکستان کی سیاسی اور صحافتی تاریخ ایک کھلا راز ہے جس پر بات کرنا کچھ ایسا مشکل نہیں لیکن منور حسن اس روز بھی اپنے نکتہ کمال پر تھے۔ یہ ان کے انداز بیاں کا جادو ہی تھا کہ ملک کے ایک بڑے کالم نگار نے چائے کے وقفے میں مسکراتے ہوئے سرگوشی کی: ”سید صاحب! آپ کہیں کالم نگاری پر اتر آئے تو ہمارا کیا بنے گا؟“۔

سید صاحب زبان اور مزاج دونوں کے تیز رہے ہیں، بہت سے لوگ ہیں جو ان کے تیر و نشتر کی زد میں آئے لیکن چند واقعات ایسے ہیں جن کی شہرت ملک بھر میں ہوئی۔ جنرل ضیا کے زمانے جب جنرل ایس ایم عباسی سندھ کے گورنر تھے، ان سے ملاقات کے متمنی ہوئے اور شکایت کہ آپ عجب لوگ ہیں، آپ کی مرکزی قیادت مارشل لا کی حمایت کرتی ہے اور آپ کراچی میں الٹی گنگا بہائے بیٹھے ہیں۔ گورنر کے یہ الفاظ غضب ڈھا گئے اور سید صاحب نے انھیں آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملاقات بدمزگی پر ختم ہوئی۔ آنے والے دنوں میں اس واقعہ کے جماعت کی داخلی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے جس کا تعلق جنرل ضیا کی حمایت اور مخالفت سے تھا۔

ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین کے ساتھ ملاقات کا نتیجہ بھی کچھ ایسا ہی نکلا۔ کراچی میں جن دنوں میں درخت کا پتہ بھی الطاف حسین کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا تھا، انھوں نے منور حسن کو اپنے گھر پر مدعو کیا اور ان کے اندر کا ”سویا ہوا ’مہاجر جگانے کی کوشش کی۔ یہ کوشش انھیں مہنگی پڑی اور منور حسن اپنے عہد کی اس طاقتور ترین شخصیت کو جھاڑتے ہوئے ان کی رہائش گاہ المعروف نائن زیرو سے نکل آئے۔

منور حسن کی زبان میں دلی کا معروف کرخنداری لہجہ ہی نہیں جھلکتا بلکہ اس شہر کے درویشوں کی روایت بھی ان کے مزاج کا حصہ رہی۔ وہ جماعت اسلامی جیسی ملک کی ایک بڑی مذہبی جماعت کے راہنما رہے، یہاں تک کہ اس کے مرکزی امیر بھی بنے لیکن زندگی کا ایک بڑا حصہ دو چھوٹے کمروں پر مشتمل کرائے ایک مکان میں گزار دیا۔ منصورہ میں جماعت اسلامی کے امیر کے لیے ایک فلیٹ مخصوص ہے جس میں میاں طفیل محمد نے بھی قیام کیا اور ان کے جانشین قاضی حسین احمد نے بھی لیکن منور حسن نے اپنا یہ حق خود اپنی مرضی سے چھوڑ دیا جتنا عرصہ بھی وہ جماعت کے امیر رہے، انھوں نے منصورہ کے مہمان خانے کے ایک کمرے میں گزار دیا۔ اس کمرے کو رسی سے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھاجس پر چادر ڈال کر پردے کا اہتمام کرلیا گیا۔ کراچی سے ان کی بیگم آتیں تو اسی پردے کے پیچھے رہائش اختیار کرتیں اور پردے کے دوسری طرف اگر کوئی قریبی ملنے والا آجاتا تو اسے بٹھایا جاتا۔

جماعت اسلامی ایک عام شہری کے کم سے کم اخراجات کا اندازہ کرکے اپنے کل وقتی کارکنوں کو گزارے کے لیے کچھ رقم پیش کرتی ہے، ساری زندگی انھوں نے وظیفے کی اسی رقم کے سہارے گزاری۔ اخراجات کو کبھی اس سے بڑھنے نہیں دیا۔ ان کی اس مالی کیفیت کو دیکھتے ہوئے بعض کاروباری حضرات نے انھیں اپنے کاروبار میں حصہ دار بننے کی پیش کش کی لیکن ایسی ہر پیش کش انھوں نے اس بنا پر ٹھکرا دی کیوں کہ یہ لوگ ان کی سیاسی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر حصہ دار بنانا چاہتے تھے۔

جماعت اسلامی میں انتقال اقتدار ہمیشہ خوش گوار اور دلچسپ رہا ہے لیکن بعد کے دنوں میں نو منتخب امیر اور سابق امیر کے درمیان کوئی نہ کوئی ایسا اختلاف ضرور پیدا ہوا جس کی باز گشت قومی سطح پر سنی گئی۔ یہ صورت حال مولانا مودودی اور میاں طفیل محمد کے درمیان بھی پیدا ہوئی اور قاضی حسین احمد اور میاں طفیل محمد کے درمیان بھی لیکن حیرت ہوتی ہے کہ زبان اور مزاج دونوں کی تیزی کی شہرت رکھنے والے منور حسن اور سراج الحق کے درمیان ایسی تلخی کبھی پیدا نہ ہوسکی۔ جماعت کی قیادت سے قرب رکھنے والے ایک زیرک صحافی شکیل ترابی کا خیال ہے کہ یہ معجزہ کبھی رونما نہ ہوپاتا، اگر منور حسن کے مزاج میں ان کی تمام تر ترش روئی کے باوجود دنیا سے بے رغبتی اور بے اعتنائی کا رویہ نہ ہوتا۔

(یہ تحریر سید منور حسن کی وفات سے تین ہفتے قبل لکھی گئی۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments