پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ: نجی چینل اے آر وائی نے ’مثبت رپورٹنگ کی انتہا‘ کی یا عوامی آرا کا اظہار طنز کی صورت میں؟


’گذشتہ 26 روز سے جو پیٹرول کا بحران چل رہا تھا حکومت نے بڑے ہی احسن انداز میں پیڑول کی قیمتوں میں اضافہ کر کے اس بحران پر قابو پا لیا ہے۔ عوام اس بات پر خوش ہیں کہ پیٹرول پمپس پر اب پیٹرول باآسانی دستیاب ہے، عوام اس بات پر بھی خوش ہیں کہ حکومت نے صرف 25 روپے 58 پیسے اضافہ کیا ہے، یہ آٹے کی طرح نہیں تھا جس کے ایک تھیلے کی قیمت میں گذشتہ ایک ماہ میں 250 روپے اضافہ ہوا ہے۔ جی۔‘

یہ جواب تھا پاکستان کے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل اے آر وائی کے رپورٹر الماس خان کا جب چینل کی ایک نیوز کاسٹر نے لائیو نشریات کے دوران ان سے لاہور میں پیٹرول پمپس دوبارہ کھلنے کی بابت دریافت کیا۔

چند سوشل میڈیا صارفین نے اس کلپ کو شیئر کرتے ہوئے اسے ’مثبت رپورٹنگ کی انتہا‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر مثبت رپورٹنگ کا کوئی ایوارڈ ہوتا تو اس بندے کو جاتا۔‘

جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر سعید غنی کا کہنا تھا کہ ’اس رپورٹر کو جلد ہی پی ٹی آئی کے ترجمانوں کی طویل فہرست میں شامل کر لیا جائے گا۔‘

مگر دوسری جانب چند ایسے صارفین بھی ہیں جو سمجھ رہے ہیں کہ شاید رپورٹر نے حکومت پر پیٹرول کی قیمتیں بڑھا کر اس کی قلت ختم کرنے کی حکمت عملی پر طنز کیا ہے۔

مگر جو صارفین اسے طنز سمجھ بھی رہے ہیں وہ بھی تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ رپورٹر کی ایک ایسے نیوز چینل سے وابستگی ہے جو ان کے بقول ’مثبت رپورٹنگ پر یقین‘ رکھتا ہے۔

صحافی سبوخ سید بھی ایسے ہی صارفین میں ہیں اور انھوں نے یہ کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں نے اسے بطور طنز لینے کی کوشش کی تاہم وہاں بھی گہری ناکامی میرا منہ چڑا رہی تھی۔‘

’اگر میں کسی اور چینل سے ہوتا تو کہتے واہ کیا طنز کیا ہے‘

بی بی سی نے کوشش کی ہے کہ صارفین کے اس تذبذب کا ’احسن انداز‘ میں جواب دیا جائے اور اسی لیے ہم نے الماس خان سے گفتگو کی ہے۔

سوال مکمل ہونے سے پہلے ہی انھوں نے جواب دینا شروع کر دیا۔ ’آپ کے کچھ کہنے سے پہلے ہی میں سمجھ گیا ہوں۔ میں کل سے ڈیڑھ لاکھ لوگوں کی گالیاں کھا بیٹھا ہوں۔‘

’ہمارے لوگوں کو اتنی معاشی پریشانیاں لاحق ہیں کہ اب وہ طنز بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اس کو لوگوں نے مثبت رپورٹنگ کی انتہا اس لیے سمجھا کیوںکہ میں اے آر وائی کے ساتھ کام کرتا ہوں اگر میں کسی اور چینل میں ہوتا اور یہی الفاظ وہاں استعمال کرتا تو شاید لوگ کہتے کہ یار بہت اچھا طنز کیا ہے۔‘

’عوام کے طنزیے جملے میں نے اپنے الفاظ میں بیان کیے‘

پیٹرول

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کوئی رپورٹر رپورٹنگ کے دوران اپنی جانب سے کسی ادارے یا حکومت پر طنز کر سکتا ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ نے میرا کلپ سنا ہو تو میں نے واضح انداز میں کہا کہ عوام کا کہنا ہے حکومت نے پیٹرول کی قلت کا معاملہ بڑے احسن انداز میں حل کیا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ کل جب وہ اس رپورٹ کے لیے پیٹرول پمپ گئے اور وہاں موجود لوگوں سے ان کے تاثرات جاننے کی کوشش کی تو لوگ پھٹ پڑے اور بہت سے لوگوں نے طنزیہ انداز میں اس کا جواب دیا۔ ’میں نے ان طنزیہ جوابات کو اپنے الفاظ میں بیان کر دیا۔‘

سوشل میڈیا پر ردعمل جاری ہے

اگرچہ الماس کے مطابق وہ اپنے کلپ کی وضاحت کر چکے ہیں مگر سوشل میڈیا صارفین کو تبصرے کرنے سے کون روک سکتا ہے۔

جیو نیوز سے وابستہ صحافی آمنہ عامر نے لکھا ’مطلب یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ عوام سو پیاز اور سو جوتےخوشی خوشی کھاتی ہے۔۔۔ کوئی حد نہیں۔‘

حسن نصر خان نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’صرف 25 روپے فی لیٹر۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ رپورٹر کو نیوز چینل کی طرف سے حکومت کی حمایت کے ایجنڈے کی پیروی کرنے کا کہا گیا تھا۔ اگر عوام قیمتیں بڑھنے پر اتنے ہی خوش ہوتے تو (نیوز چینل ایسے شہریوں کے) انٹرویوز نشر کرتا۔‘

ثمینہ عابد نامی صارف نے لکھا کہ ’مثبت رپورٹنگ کے تمام پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔‘

انیس شیخ نے لکھا ’یہ ہرگز ہرگز طنز نہیں ہے۔‘ جواد رتو نامی صارف کی رائے میں ’رپورٹر کو وہاں موجود عوام سے کیمرے پر بات کرنی چاہیے تھی تاکہ پتا لگایا جا سکتا کہ عوام کتنے خوش ہیں۔‘

عامر راض نامی صارف نے لکھا کہ کسی بھی مسئلے کا جائزہ لینے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ اے آر وائی نے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کو ایک اچھی چیز کے طور پر پیش کیا ہے۔ ہمیشہ روشن پہلو کی جانب دیکھیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 33844 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp