لاہور گرامر سکول نے آٹھ سے زائد طالبات کو فحش تصاویر، پیغامات بھیجنے کے الزام میں استاد کو برطرف کر دیا


ٹوئٹر

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے لاہور گرامر سکول نے ایک استاد کو کم از کم آٹھ سے زائد طالبات کو فحش تصاویر اور پیغامات بھیجنے کے الزام میں عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔

یہ الزامات ان طالبات کی جانب سے سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس کے ذریعے لگائے گئے تھے جبکہ اس رپورٹ کے چھپنے تک مزید دس طالبات نے بھی اپنے ساتھ ہونے والے ہراسانی کے واقعات کی نشاندہی کی ہے۔

طالبات کے مطابق سکول سے منسلک استاد کا نام اعتزاز رحمان شیخ ہے جو سکول میں مناظرہ اور سیاسیات کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ تقریری مقابلے ’ماڈل یونائیٹڈ نیشن‘ کی کوچنگ بھی کراتے ہیں۔

ایل جی ایس سکول کی انتظامیہ نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ان تمام تر الزامات کے نتیجے میں اعتزاز رحمان شیخ اور ان کے ساتھ مزید دو اور لوگوں کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ انھوں نے اس بارے میں بات کرنے سے انکار کردیا۔

جبکہ اے لیول ون اے ون (یعنی اے لیول کے فرسٹ ایئر) کی انتظامیہ سے منسلک مائرہ رانا نے بی بی سی کی طرف سے کئے جانے والے سوالوں اور فون کا جواب نہیں دیا۔

اسی طرح اعتزاز شیخ نے بھی بی بی سی کی طرف سے کیے جانے والے سوالوں اور فون کا جواب نہیں دیا۔

اب تک ایل جی ایس کی کئی طالبات نے ایسے تمام واقعات کی نشاندہی کی ہے جن کے دوران اعتزاز شیخ نے انھیں پیغامات بھیجے۔ان تصاویر کی کاپی اب عام ہو چکی ہے جبکہ انتظامیہ نے ان تمام تر شواہد کو دیکھتے ہوئے کوچ اور ان سمیت دو اور ٹیچرز کو نوکری سے برطرف کر دیا ہے۔

اعتزاز رحمان شیخ اے لیول کے فرسٹ ایئر کو پڑھاتے آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لاہور گرامر سکول کی جوہر ٹاؤن اور ڈیفینس برانچ میں سیاسیات بھی پڑھاتے ہیں۔

ایک طالبہ نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اعتزاز کی طرف سے مبینہ طور پر کم عمر لڑکیوں کو تصاویر بھیجنے اور میسجز کرنے کا سلسلہ تقریباً چار سال سے جاری ہے۔

طالبہ کے مطابق اعتزاز نے انھیں 2016 سے 2018 تک پڑھایا تھا جس دوران وہ پڑھائی کا سال ختم ہونے کے بعد بھی انھیں میسیجز کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام تر میسیجز ذو معنی تھے۔

’ایک دن سر نے مجھے کہا کہ وہ مجھ سے جنسی تعلق رکھنا چاہتے ہیں۔ جس کے بعد میں نے سر اعتزاز کو بلاک کر دیا۔‘

طالبہ نے بتایا کہ وہ اس سے پہلے بھی ایل جی ایس کی انتظامیہ کو ان واقعات کے بارے میں بتاتی رہی ہیں لیکن ان کے مطابق ’انتظامیہ نے ٹیچر کی طرف سے اپنی آدھی ننگی تصاویر طالبات کو بھیجنے کا الزام اُلٹا لڑکیوں پر لگاتے ہوئے اُن کو پورے کپڑے پہننے کا کہا اور ساتھ میں ٹیچرز کو بہکانے کا الزام بھی لگایا۔‘

اس وقت اعتزاز پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ ایل جی ایس کی تقریباً ہر برانچ میں پڑھنے والی طالبہ کو انھوں نے مبینہ طور پر اسی قسم کے میسجز کیے ہیں اور اپنی تصاویر بھی بھیجی ہیں۔

اس بارے میں جب اعتزاز سے سوال کیا گیا تو انھوں نے فون کے ذریعے بھیجے گئے سوال پڑھنے کے باوجود جواب نہیں دیا۔ اور فون کرنے پر فون کاٹ دیا۔

اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد سے کئی اور طالبات نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ کا سہارا لیتے ہوئے اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کی نشاندہی کی ہے۔

ان سب طالبات کی کہانیاں ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی ہیں۔ ان سب میں اساتذہ کی طرف سے کی جانے والی ہراسانی اور جنسی تعلق رکھنے اور منع کرنے کے نتیجے میں سب کے سامنے ڈانٹنا اور مارکس کاٹنے جیسی دھمکیوں سے دو چار ہونا شامل ہے۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر متعدد صارفین کی جانب سے سکول انتظامیہ کو پہلے کارروائی نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ان طالبات کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی۔

ایک صارف نے لکھا کہ کوئی سکول کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اس طرح کے لوگ وہاں دندناتے پھریں۔

اس حوالے سے اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے اداکار عثمان خالد بٹ نے لکھا کہ میں ان لڑکیوں کی بہادری سے بہت متاثر ہوا ہوں جنھوں نے ان اساتذہ کے حوالے سے آواز اٹھائی۔

انھوں نے کہا کہ کسی اور ایل جی ایس کی برانچ تو کیا ایسے لوگوں کو کسی بھی تعلیمی ادارے کے قریب بھی نہیں آنے دینا چاہیے۔

سماجی کارکن اور صحافی صباحت زکریا نے الزام عائد کیا کہ لاہور میں موجود تمام نجی سکولوں کو مکمل استثنیٰ حاصل ہے اور وہ خوف اور استحصال کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مرد اساتذہ کو استانیوں پر فوقیت بھی دی جاتی ہے اور انھیں زیادہ پیسے بھی دیے جاتے ہیں جبکہ انتظامیہ میں حکام کے پاس بہت زیادہ طاقت ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32191 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp