معاشقانہ زندگی اب ماسکانہ ہوگئی


کورونا جیسے بے رحم صیاد نے نے اچھلتے، کودتے وجود کو خوف کا ماسک پہنا کر ذات کی جیل میں سکڑ کر بیٹھے رہنے پر مجبور کر دیا۔ حکم ہوا، تازہ ہوا سے فاصلہ رکھو، اپنی ہی سانس کے چکر میں الجھے رہو۔ ٹڈی دل، بے وقت بارشیں اور دیگر بحران بھی کم نہ تھے مگر خوف کا بحران زیادہ شدید ثابت ہوا۔ فکر تک محصور کر لی گئی۔ اندیشوں کی سولی تھامے کھڑے وقت نے نئی نئی خبروں کی اذیتوں سے روشناس کرکے حیات کے رنگ چھینے اور کہا جیون اسی کا نام ہے۔

ضابطے میں رہو اور ناک کی سیدھ چلو۔ کوئی اپنا نہیں، سب غیرو نامحرم ہیں۔ ہاتھ کو ہاتھ کے لمس کے شر سے محفوظ رکھو۔ قہقہے اور کھلکھلا کر ہنسنا مہلک ہو سکتا ہے، مگر رونے اور دل میں آہ وزاری کرنے پر پابندی نہیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ آج دن تک توزیادہ تر افراد میں احتیاط یا اس قسم کا کوئی رواج نہیں دیکھا۔ کھانسنے والے منہ پھاڑ کر پوری طاقت سے کھانستے اور چھینکتے ہیں تاکہ جراثیم دور تک پھیل سکیں اور زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہو سکیں۔

چھینکنے اور کھانسنے کے بعد معذرت کرنا شاید غیر شرعی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بسیار خوری کی وجہ سے ڈکار لینا اور دیگر صوتی اور غیر صوتی اخراج بھی ہماری ثقافت کا حصہ ہے، یہاں تک کے لوگ سوئمنگ پول میں بھی بلبلے نکالنے سے باز نہیں آتے۔ بہرحال کچھ نہ کچھ افراد چہرے پہ ماسک سجائے احتیاطی تدابیر اپنائے ہوئے نظر آتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ جب چہرے ڈھکے ہوں تو کیا پتا کے مد مقابل کون ہے۔ ماسک نے جہاں وائرس سے تحفظ فراہم کیا وہاں انسانوں کے درمیان فاصلے بڑھا دیے۔ ایک تو ماسک والا چہرہ دیکھ کر کچھ خوف سا آتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جب انسان کسی دوسرے کے چہرے کے تاثرات ہی نہ دیکھ پائے تو گفتگو آگے بڑھے کیسے۔ لیکن اب ماسک کے ذریعے منہ چھپانا ہماری اپنی زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور گزشتہ تین ماہ سے ماسک پہن کر اپنے فرائض سر انجام دینے کے بعد منہ ڈھانپنے کی عادت پختہ ہو چکی ہے۔ باہر جانا ہو اور ماسک نہ پہنا ہو تو فوری احساس ہوتا ہے کہ کسی چیز کی کمی ہے جس پر چھٹی حس فوراً خبردار کر دیتی ہے۔

میرے ایک دوست ہیں جو کبھی کبھی سادگی میں بڑے پتے کی بات کر جاتے ہیں۔ کورونا کا نیا ہنگامہ شروع ہوا تو بولے، تم کچھ بھی کہو، کوئی بھی بلا ہو یا وبا نام عورتوں والا ہی ہوتا ہے۔ چلیں میں آپ کو اس کی وجہ بھی بتا دوں کہ وہ ایسا کیوں کہتے ہیں۔ اصل لڑائی ان کی ایک عورت سے ہے لیکن وہ لپیٹ سب کو لیتے ہیں۔ وہ عورت کوئی اور نہیں ان کی شریک حیات ہیں جنہیں وہ وجہ مشکلات کہتے ہیں۔ شادی آنکھ لڑا کر کی تھی، اب ایک آنکھ نہیں بھاتی۔

ایک دن ماسک لگائے گلی کے نکڑ پر کھڑے تھے۔ میں نے کہا، اچھا کیا جو ماسک لگایا ہوا ہے۔ بولے کیا کروں۔ ویسے اس عمر میں منہ چھپانا بڑا عجیب سا لگتا ہے۔ زندگی بھر کھلے منہ سے جیئے ہیں اور شادی شدہ کی مجبوریاں تم کیا جانو۔ اس جملے میں جو کرب اور بے چارگی تھی وہ میں ان کے ماسک کی وجہ سے محسوس تو نہ کر پایا لیکن آنکھوں کی اداسی نے سب کہہ دیا۔ میں نے دل رکھنے کو کہا، دل کیوں چھوٹا کرتے ہیں پوری دنیا منہ چھپائے پھر رہی ہے۔

آپ اکیلے تو نہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ اس تسلی کو تشفی کے خانے میں رکھیں گے مگر وہ تو ناراض ہوگئے۔ رونا تو اسی بات کا ہے، کھایاپیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے۔ اور تم یہ منہ چھپانا بھی تو دیکھو۔ اس کم بخت مارے ماسک نے بڑے بڑوں کے کان پکڑا دیے ہیں۔ ہم تو سمجھے تھے کہ مردوں کے کان بیوی کی سنی ان سنی کرنے اور چشمے کی کمانیں ٹکانے کے لئے ہوتے ہیں مگر یہاں تو یہ ماسک آ گیا۔ یقین جانو بارات والے روز منہ پر رومال رکھا تھا اور اب یہ ماسک۔

یار عمرانی! تم کچھ بھی کہو یہ ٹکے ٹکے کے ماسک بڑے منہ چڑھے ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا میرے دوست اگر زندہ رہنا ہے تو کسی اور کو منہ نہ لگائیں اور ویسے بھی یہ ماسک اب ٹکے ٹکے کے کہاں رہے ہیں۔ اگر یہ نہ پہنیں تو زندگی ٹکے جیسی ہو جائے گی۔ ایک دم ہلکے سے میرے کان میں بولے ویسے ان ماسک کا ایک فائدہ ہوا اب کچھ بھی بڑبڑاتے رہو بیوی کو کچھ دکھتا ہی نہیں۔ پہلے تو ہلکا سا منہ ہلایا اور اس نے پکڑ لیا۔ بھائی میں تو سوچ رہا ہوں کہ یہ وائرس چلا بھی جائے میں نے گھر میں ماسک ہی لگا کر رکھنا ہے۔

میں نے کہا ماسک میں سانس رک کر آ تی ہے۔ کہنے لگا آتی تو ہے ورنہ دن میں کئی مرتبہ بیوی کی ڈانٹ سے تو بالکل ہی رک جاتی ہے۔ بس اس نگوڑے ماسک کا ایک مسئلہ ہے کہ اب تو راہ چلتے کسی کو دیکھنے کو دل بھی نہیں چاہتا۔ ناک نقشہ سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ بس اندازے پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ بقول شاعر تیری آنکھوں کے سوا چہرے پہ دکھتا کیا ہے۔ پہلے بڑی آ سانی تھی راہ چلتے اچٹتی نظر ڈالی اور آگے بڑھ گئے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یار عمرانی! پہلے زندگی معاشقانہ تھی اب ماسکانہ ہوگئی ہے۔

بہرحال کورونا وائرس کی وجہ سے تمام معمولات زندگی اور ترجیحات تبدیل ہو کر رہ گئی ہیں، اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا اور ملنا ملانا اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ اس وبائی مرض نے دنیا کو کیا سے کیا کر دیا۔ دنیا کی تاریخ اٹھا لیں جب بھی تاریخ میں غیر معمولی واقعات رونما ہوئے تو اس کے ردعمل میں جو ادب وجود میں آیا اس نے ان سانحات کو بطور خاص اپنا موضوع بنایا ان ادبی تخلیقات نے آنے والی نسلوں پر اس کے گہرے اثرات مرتب کیے۔

عصر حاضر میں بھی جب ایسی غیر معمولی تبدیلی آئی تو ادیب اور شاعر بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے تھے وہ بھی میدان میں آئے۔ ممکن ہے کچھ عرصہ بعد اس موضوع پر تخلیق ہونے والے ادب کو کوئی خاص صنف سخن قرار دے دیا جائے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ”مزاحمتی ادب“ کی طرح ایک صنف ”ابتلائی ادب“ قر ار دی جائے جس کی ایک ذیلی صنف ”وبائی ادب“ اور اس کی بغلی صنف ”کورونائی ادب“ کہلائے۔ امید تو یہی ہے کہ اس کورونائی ادب میں اب ادباء و شعراء کے تخلص بھی کورونائی ملیں گے۔ مثلاً ماسک بریلی، کورونائی لکھنؤی، داغ کورونا وغیرہ وغیرہ اور اشعار بھی کچھ ایسے ملیں گے۔ ”دامن پہ کوئی چھینک نہ خنجر پہ کوئی ماسک“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments