زندگی کا ایک انمول سفر


جون 2011 کی صبح تھی۔ نئے تعلیمی سال کا آغاز ہونے جا رہا تھا۔ دل خوشی و مسرت کے ساتھ ساتھ غم کے جذبات سے لبریز تھا۔ ہر سال ان دنوں چھٹیاں ختم ہونے کا غم اور پھر اسکول کا آغاز، دوستوں سے ملاقات اور نئی کلاس میں داخلے کی خوشی ہوا کرتی تھی۔ لیکن اس سال خوشی اور غم دونوں کا انداز نیا تھا۔ غم اس بات کا تھا کہ نئے تعلیمی سال میں اب دوبارہ اسکول نہیں جاؤں گا، اور خوشی اس بات کی کہ ایک دینی مدرسہ میں حفظ قرآن کی سعادت سمیٹنے جا رہا ہوں۔

ویسے بھی دوسال سے کانونٹ اسکول کے ماحول سے میں کچھ اکتا گیا تھا۔ بچپن سے یہ دیرینہ خواہش بھی اکثر انگڑائی لے کر جوش دلاتی تھی کہ والد محترم جیسا حافظ قرآن بنوں۔ اسی نیک عزم کی سمت یہ میرا پہلا قدم تھا۔ صبح کچھ دیر گفتگو کے بعد والد صاحب نے یہ خوش کن فیصلہ سنادیا کہ میرا داخلہ مدرسہ مسجد عزیزیہ، مہدی پٹنم میں ہوگا۔ والدہ محترمہ نے مدرسے کے ڈریس کوڈ کے مطابق لباس استری کرکے دیا، میں نے بخوشی اسے زیب تن کیا۔ ناشتے کے بعد والد صاحب کے ساتھ روانہ ہوا ا ور یوں میرا داخلہ مدرسہ مسجد عزیزیہ میں ہوا۔

مدرسہ کے ناظم، شہر کے معروف عالم دین فضیلت الشیخ مولانا عمادالدین محسن عمری مدنی ہیں۔ مولانا عمادالدین، والد صاحب کے اچھے رفیق، اوردادا جان کے بھی ساتھی ہیں۔ ابتدائی گفتگو کے بعد داخلہ کی کارروائی مکمل ہوئی۔ والد صاحب نے مجھے 20 روپے دیے اور کہا کہ کلاس ختم ہونے پر گھر واپس آجانا۔ ساتھ ہی حافظ جنید سے بھی ملاقات کروائی۔ (انکا حفظ بھی جاری تھا، جنید بھائی ہمارے پڑوسی بھی تھے ) والدصاحب نے ان سے درخواست کی کہ واپسی میں بس کے لیے میری رہنمائی فرمادیں۔ جنید بھائی نے کہا ”رشاد بھائی، آپ فکر نہ کریں۔ اس روٹ پر پبلک ٹرانسپورٹ کی تفصیل میں حماد کو سمجہادوں گا۔“

گھر اور مدرسہ کے درمیان تقریباً 10 کلو میٹر کا فاصلہ حائل تھا۔ مدرسہ کا پہلا دن اور میری عمر 10 سال! خود اعتمادی کی راہ پر والد صاحب کی اس خاموش رہنمائی نے مجھے اس دن زندگی کا ایک انمول سبق عملاً سکھایا۔ یہ کہ آتم نربھرتا کی خیالی باتیں نہیں بلکہ عملی قدم اعتماد بڑھاتاہے۔

ابتداءً مدرسہ کے اوقات صبح 7 تا 1 بجے اور شام میں مغرب تا 9.30 ہوا کرتے تھے۔ چونکہ مدرسے اور گھر کا درمیانی فاصلہ زیادہ تھا اسی لیے محترم ناظم صاحب نے رات کے نظام الاوقات سے مجھے مکمل طور پررخصت دے دی تھی۔ تین مہینے بعد حفظ کا آغاز ہوا، قاعدہ اور ناظرہ میں زیادہ وقت نہ لگا کیونکہ بچپن میں ہی ادارۃ الصالحات (نانی جان کا قائم کیا گیا مکتب، اللہ ان سے راضی ہو) میں ایک مرتبہ ناظرہ مکمل ہو چکا تھا۔ ساتھ ہی گھر میں تیسویں پارے کاحفظ بھی تقریباً مکمل ہوچکا تھا۔

حفظ کا آغاز جس استاد کی نگرانی میں ہوا تھا انھوں نے کچھ ہی دن بعد استعفیٰ دے دیا۔ غیر متوقع کیفیت آن پڑی لیکن تدریس جلد ہی معمول پر آ گئی۔ ساتویں پارے کے ٖحفظ کی تکمیل کے بعد ایک انہونا واقعہ یہ ہوا کہ شہر کے کچھ علاقے فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آگئے اور میرا مدرسہ جانا معطل ہوگیا۔ کچھ دن بعد جب حالات نارمل ہوگئے تو پھر مدرسے کا معمول بحال ہوا۔ ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ مدرسے کے نظام الاوقات ( ٹائم ٹیبل ) تبدیل ہو گئے۔

اب تدریسی اوقات صبح 7 تا رات 9.30 ہوگئے۔ وجہ یہ تھی کہ دوپہر میں جب طلباء گھر جاتے تو آرام کرنے سے کتراتے اور مغرب بعد جب نئے سبق کی تیاری کے لیے مدرسہ آتے تو بالکل تھکے ماندے ہوتے۔ یہ تھکاوٹ کوتاہی کا سبب بن جاتی۔ نئے نظام الاوقات پر عمل آوری مجھ پر بھی لازمی کر دی گئی۔ دل اس بات پربالکل راضی نہیں تھا کہ دن کا اتنا زیادہ وقت مدرسہ میں بیٹھے رہیں۔ بہر حال والدہ محترمہ نے ہمت بندھائی، ان کی مشفقانہ تربیت نے اثر کیا اور آخر کار دل آمادہ ہوگیا۔

صبح والدصاحب مسجد میں درس دینے جاتے تھے۔ میرا معول یہ ہوگیا تھا کہ میں وہاں جانے کے بجائے قریبی مسجد میں ہی فجر ادا کرتا اور والدہ محترمہ صبح سویرے مدرسے کی تیار ی کے لیے میری مدد فرماتیں۔ والد صاحب فجر سے واپسی کے بعد مجھے بس اسٹاپ تک چھوڑ دیتے اور میں 7 بجے سے پہلے 10 کلومیٹر کا سفر طئے کر کر عزیزیہ پہنچ جاتا۔ اور طئے شدہ ٹائم ٹیبل سے ایک گھنٹہ پہلے مدرسہ سے گھر کی طرف واپس روانہ ہوجاتا۔ کئی مرتبہ گھنٹوں بس کے انتظار میں کھڑے ہونا پڑتا۔

اللہ تعالی نے اس مشکل کا حل بھی عنایت فرمادیا۔ عکاظ کتاب گھر کے مالک ضیاءالرحمن انکل والد صاحب کے قریبی دوست ہیں۔ وہ ہمارے گھر کے قریب رہتے تھے۔ اب واپسی انھیں کے ہمراہ ہوتی، یوں ایک بڑی سہولت میسر ہوگئی۔ مدرسہ کے نئے نظام الاوقات کے کیا کہنے، بہت شاندار ٹائم ٹیبل ترتیب دیا گیا تھا۔ صبح سبق سنانا، پھر ناشتہ، اسمبلی، پھر ظہر تک پڑھائی، ظہر کے بعد طعام و قیلولہ، اس کے بعد کچھ دیر ریاضی اورانگریزی کی کلاسس ہوتیں۔

عصر بعد طلباء کے لیے دودھ اور بادام کی ضیافت ہوتی پھر مسجد عزیزیہ کے چھت پر ہم تمام طلباء مل کر خوب کھیلتے۔ مغرب تا 8.30 سبق یاد کرتے اور عشاء کی ادائیگی کے بعد گھر کے لیے روانگی۔ گھر پہنچ کر کھانا کھاکر فوری سوجانا۔ ایک سال جب مکمل ہوا تو کچھ پڑوسی طلباء نے بھی مدرسے میں داخلہ لیا۔ اب ہم تمام لوگ مدرسے کے لیے ایک ہی آٹو میں ساتھ سفر کرتے۔

اس سے پہلے جس استاد نے استعفیٰ دیا تھا ان کی جگہ ایک نئے استاد کا تقرر ہوا۔ کلاسس کا تبادلہ ہوا اور یوں ایک بہتر کلاس ترتیب پائی۔ ہر استاد کے 10 شاگرد ہوا کرتے تھے۔ ہماری نئی کلاس میں کل 10 طلباء تھے، ان میں 6 طلباء کا تعلق تحریکی گھرانوں سے تھا۔ الحمدللہ آج وہ تمام لوگ اسلامی طلباءتنظیم کا حصہ بن کرایک مبارک راہ پر ہمراہی ہیں۔

عصر کے بعد وقفہ ہوا کرتا تھا۔ ملکی مزاج کے مطابق اسپورٹس کے نام پر کرکٹ اور فٹ بال ہی چھائے رہتے۔ یہ ممکن نہیں کہ کرکٹ کی بیٹ آپ کے ہاتھ میں ہو اور آپ گیند کے ساتھ شفقت کا برتاؤ فرمائیں۔ ہمارے جوشیلے بیٹسمین جب باؤنڈریز کی پیمائش فرمانے لگے تو راہ چلتے لوگوں کے سر ہی عملاً چوکے کی باونڈری بن گئے۔ پھر کیا تھا گیند کے استعمال پر کرفیو نافذ ہوگیا۔ ہم نے بھی ٹھان رکھا تھا کہ گیند پر نافذ لاک ڈاؤن زیادہ لمبا نہ چلے۔ ہمارے دوستوں کی کاریگری نے کچھ ایسی گیندیں تخلیق کیں کہ نہ باونڈری کی پیمائش ہو، نہ کسی کو چوٹ لگے، نہ شکایت ہو اور نہ ہی کھیل کا سلسلہ رکے۔

ادھر حفظ کا معمول بھی خوب چل رہا تھا۔ 1 مہینہ میں اوسطاً 1 پارہ کی رفتار ہوتی۔ نظام الاوقات نے اتنا باندھ رکھا تھا کہ شام ہوتے ہوتے طبیعت تھک جاتی تھی۔ اسی تھکان کے مارے شیطانی وسوسوں کا حملہ ہوتا۔ کبھی خیال آتا کہ حفظ کے اس کٹھن سلسلے کو یہیں روک کر دوبارہ پرانی ڈگر پر لوٹ چلوں، یا کم از کم مدرسہ ہی تبدیل کردوں تو کچھ راحت ملے۔ لیکن والدہ محترمہ کی مستقل حوصلہ افزائی نے ہمت ٹوٹنے نہ دی۔ یوں ہمارے حفظ کا سلسلہ چلتا رہا۔

انہی دنوں ہمارے حوصلوں کا نیا امتحان یہ ہوا کہ مدرسے کے قوانین مزید سخت کردیے گئے۔ ایک منٹ کی تاخیربھی الٹے پاؤں گھر واپس بھیجنے کا قانونی سبب ٹھہری۔ ہم بھی اس نئے اصو ل کا شکار ہونے سے بچ نہ سکے۔ ایک دفعہ کسی سبب جب پہنچنے دیر ہوگئی تو ہم تمام دوست اسی آٹو میں یو ٹرن حکم کے ساتھ گھر پلٹادئے گئے۔ سخت قوانین ہمارے عزائم کے لیے نیا چیلنج تھے۔ کچھ طلباء سنبھل نہ سکے اور ڈراپ آؤٹ کا شکارہوگئے۔ یوں ہمارے ہمراہیوں کی تعداد گھٹ گئی۔ آٹو کی نشستیں خالی ہوگئیں۔ نتیجتاً آٹو کی سہولت باقی نہ رہی اور بسوں کی دوڑکا ٹوٹا سلسلہ دوبارہ چل پڑا۔

پرانے پیٹرن کے مطابق نیا ٹائم ٹیبل دوبارہ شروع ہوگیا۔ یعنی فجر کے ساتھ روانگی اور رات 9.30 بجے گھر واپسی۔

شیڈول سخت سہی۔ لیکن الحمدللہ خوشی اس بات کی تھی کہ رفتار اور معیار دونوں خوب چل رہے تھے۔ رمضان تک تقریباً 23 پارے مکمل ہوگئے۔ نہ جانے کیوں تیئسواں پارہ مجھے بہت مشکل محسوس ہوا۔ شیطانی وسوسوں نے اب نئے اور تیکھے ہتھیاروں کے ساتھ تازہ حملہ کیا۔ اس مرحلے پر بھی عجیب خیالات ذہن میں مچلتے کہ اب حفظ کا سلسلہ چھوڑ دینا چاہیے۔

رمضان کے فوری بعد جون میں ماما کی شادی طئے تھی۔ ذہن تقریب کی خوشیوں میں الجھ گیا۔ انہی دنوں تئیسواں پارہ مکمل ہوا اور امتحان بھی دینا تھا۔ یہ امتحان بہت مشکل تھا، شاید ہی کسی پارے کی تکمیل کے لیے مجھے اتناوقت لگا۔ انہی دنوں کی بات ہے، سخت محنت بھرے سبق کے بعد بس کے ذریعے بھاگتا دوڑتا جب میں مدرسہ پہنچا تو معلوم ہوا گھڑی کے کانٹے میری دوڑ سے پھرتیلے نکلے۔ اور میں ایک منٹ لیٹ ہوگیا اور وہی ہواجس کا ڈرلگا رہتا تھا، یعنی یوٹرن کے ساتھ گھر واپسی!

ہماری حالت اس سائنسداں جیسی تھی جس کا راکٹ سالوں کی محنت کے بعد اڑکر خلا تک پہنچے بغیر واپس زمین پر آدھمکے۔ رنج، غصہ ہی نہیں وسوسوں کا تازہ سلسلہ بھی جاری ہوگیا۔

اس خیال سے ہی بڑا رنج ہوتا کہ اتنی دورسے بس کے کٹھن سفرکے بعد بس ایک منٹ تاخیر کا یہ حوصلہ شکن صلہ؟ لیکن ٹھنڈے دماغ سے آج غور کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ عمر اور کنڈیشننگ کے اس مرحلے میں ڈسپلن کی عملی تربیت کیوں ضروری ہے۔ اور اسی تربیت نے ہم تمام ساتھیوں کوعملی زندگی کے کتنے قیمتی تحفے دیے۔

آخرکار ایک سخت امتحان مکمل ہوا اورمجھے کامیابی ملی۔ الحمدللہ وہ مشکل دن بھی آخر کار گزر گئے، پھر حفظ کا بقیہ حصہ حسب معمول چلتا رہا۔ ڈسمبر کے آغاز کے ساتھ اٹھائیس پارے مکمل ہوئے۔ منزل کی قربت کے خوشگوار احساس نے جوش بھی بڑھادیا۔ جلد سے جلد حفظ کی تکمیل کی خواہش نے رفتار بھی بڑھادی۔ میں نے تیزی سے انتیسواں پارہ یاد کرنا شروع کیا۔ پچھلے چند سالوں سے معمول تھا کہ سونے سے پہلے سورۃ ملک کی تلاوت کرتا۔ اس وجہ سے سورہ ملک بہت جلد یاد ہوگئی اور کچھ ہی دنوں میں آدھا پارہ مکمل ہوگیا۔

جن طلباء کا حفظ تکمیل کے قریب ہوتا، اصول تھا کہ ان کا سبق ناظم صاحب خود روزانہ سنا کرتے۔ 16 ڈسمبر کو میں نے محترم ناظم مدرسہ سے کہا کہ میں آج قریب آدھا پارہ سناکر حفظ مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ ناظم صاحب بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے والدہ محترمہ کو کال کیا، والدہ کی خواہش تھی کہ میرے حفظ کی تکمیل جمعہ کو ہو۔ ناظم صاحب نے مجھ سے کہا کہ جمعرات تک پارہ 21 تا پارہ 28 مکمل سناؤں اور اس کے بعد ہی اگلا سبق سنانا۔ اس مرحلہ پر یہ بہت مشکل کام تھا، بہرحال اعادے اور نئے سبق کے ساتھ یہ مرحلہ بھی مکمل ہوگیا۔ جمعہ 20 ڈسمبر 2013 کو بعد عصر میں نے ناظم مدرسہ کو سورۃ مرسلات سناکر اپنا حفظ مکمل کیا۔ الحمدللہ!

معمول کے مطابق بعد عشاء صدر مسجد عزیزیہ کو سبق سنایا اور پھر مدرسے میں مٹھائی کے ساتھ تکمیل حفظ کی خوشی منائی اور خوشیوں کے ڈھیر کے ساتھ گھرواپس چلا آیا۔ تکمیل حفظ کی دیرینہ تمنا جلد مکمل ہو جائے یہ ہمارا خواب تھا۔ آج اس کی تعبیر کی خوشیوں سے میں سرشار تھا۔

22 ڈسمبر، اتوار کا دن تھا۔ والد صاحب نے اپنے دوست او ررشتہ داروں کو بھی اس خوشی میں شریک کیا اور ایک دعوت گھر پر منعقد کی۔ کیا خوشی کا موقعہ تھا!

آج جب میں سورۃ یونس کی یہ آیت پڑھتا ہوں تو سب سے پہلے تکمیل حفظ کا وہ مبارک دن یاد آ جاتا ہے، اور ساتھ ہی وہ تمام لمحات جب میں نے تراویح میں قرآن مکمل سنانے کی سعادت پائی۔

قلۡ بفضۡل اللٰہ وبرحۡمتھٖ فبذٰلک فلۡی۔ فۡرحوۡا ؕ ہو خیۡرٌ مما یجۡمعوۡن ۞

اے نبی ﷺ ، کہو کہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں ”

ایک دلچسپ واقعہ بھی سن لیجیے، 4 سال قبل جب میرا ناظرہ قرآن ختم ہوا تھا تو کچھ قریبی رشتہ داروں کی ایک محفل منعقد کی گئی، والدہ خوبانی کا میٹھا بنا رہی تھیں، لیکن میری ضدتھی کہ مجھے ربڑی چاہیے، والدہ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے تم اگر حفظ مکمل کرلو تو مٹھائی بھی تمھاری پسند کی ہی ہوگی۔ سوچا کہ ٹالنے کے لیے یہ تسلی بھی خوب ہے۔

آج میں نے کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی مجھے اپنی پرانی ضد یاد تھی۔ لیکن جب کچن سے گزر ہوا تو معلوم ہوا کہ باورچی نے ربڑی جیسی مٹھائی بڑی محنت سے تیار کر رکھی ہے۔ مجھے چار سالہ پرانی بچکانہ ضد یاد آ گئی اور محسوس ہوا کہ والدین کی شفقت اور بچوں کے لیے ان کی یادداشت ماہ و سال کی پابند نہیں ہوتیں۔

یہ ایک شاندار محفل تھی۔ گلپوشی، تحائف ہی نہیں بلکہ ایک اور قیمتی تحفہ بھی ملا۔ ڈھیر ساری دعائیں!

اب دور کا اگلا مرحلہ درپیش تھا۔ مدرسہ جانے کا معمول دوبارہ شروع ہوا۔ والد صاحب نے کہا کہ رواں تعلیمی سال کے اختتام تک دور جاری رکھیں۔ دور کا سلسلہ اچھا چل رہا تھا لیکن رفتارمزید بڑھانے کی ضرورت تھی۔ ساتھ ہی انگریزی، ریاضی کلاسس کے علاوہ محترم ناظم صاحب عربی لغت بھی پڑھا رہے تھے۔ کچھ دنوں بعد اپریل کے مہینے میں ناظم صاحب نے کہا کہ مدرسے سے رخصت سے پہلے 3 دن میں مکمل قرآن سناکر امتحان دینا ہوگا۔ میرے ساتھ مزید 3 ساتھی تھے۔

مئی کے مہینے میں 3 دن الحمدللہ ہم چاروں نے مکمل قرآن سنایا۔ امتحان کی تاریخ کا اعلان ہوا۔ لیکن امتحان سے عین قبل میری طبیعت اچانک ناساز ہوگئی۔ امتحان سے کچھ دن قبل ایک اور امتحان بیرونی ممتحن کی زیر نگرانی طئے کیا گیا تھا ناظم صاحب نے مجھے کال کیا اور کہا کہ ہر حال میں آج کے امتحان میں شریک ہونا لازمی ہے۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی چلا گیا، تینوں ساتھی زبردست تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ طبیعت کی نا سازی کی وجہ سے نہ میں اعادہ کر سکا تھا اور نہ ہی مناسب تیاری کر سکا تھا۔

یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ مدرسہ عزیزیہ میں حفاظ کا امتحان ایک اوپن ہال میں منعقد کیا جاتا ہے۔ نہ صرف مدرسے کے تمام طلباء و اساتذہ بلکہ سامعین کی کثیر تعداد بھی یہاں موجود ہوتی ہے۔ تین سالہ محنت کا مظاہرہ باذوق سامعین کے سامنے صفر تیاری کے ساتھ! یہ ایک صبر آزما مرحلہ تھا اور بنا تیاری اس کا نتیجہ بھی عین متوقع تھا۔ وہی ہوا یعنی سب کے سامنے بری طرح ناکامی۔ میں سخت مایوس ہوگیا۔ والدین اور اساتذہ نے حوصلہ بڑھایا۔ اور میں نے نئے عزم کے ساتھ فائنل امتحان کی تیاری جاری رکھی۔

اب فائنل امتحان قریب آ چکا تھا، میں نے بھرپور تیاری کی اور سوچا کہ کسی حال اس امتحان میں ایک یادگار مظاہرہ پیش کرناہے۔ باقی تینوں ساتھیوں کے مقابلے میں امتحان کے دن الحمدللہ میرا پرفارمنس بہت اچھا رہا۔ اس عمدہ مظاہرہ نے ایک اور یادگار خوشی بخشی۔

آج مدرسے کا آخری دن تھا۔ میری زندگی کے 3 سال جو ایک مبارک کام کی خاطر صرف ہوئے، آج عمدہ کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچ چکے تھے۔

5ویں جماعت کے بعد میں نے حفظ قرآن کے لیے داخلہ لیا تھا، اب ایک داخلہ امتحان کی تکمیل کے بعد اسکول کی 8 ویں جماعت میں مجھے شرکت کی اجازت مل گئی۔ کچھ ہی دنوں بعد جولائی کے مہینے میں ماہ رمضان بھی آ گیا، تراویح پڑھانے کی بہت خواہش تھی۔ میں ٹھہرا 13 سالہ نوخیز حافظ۔ نفل نماز پڑھانے کی شریعت میں اجازت تو تھی۔ اس لیے امامت تو ممکن تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس امام کو مصلی کہاں سے میسر ہوں۔ ناناجان کے گھر پر پچھلے کئی سالوں سے تراویح کا اہتمام ہوتا ہے، مجھے وہاں پر 4 رکعت پڑھانے کی پیشکش کی گئی۔

کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بھلا، یہی بات سوچ کر میں تیار ہوگیا۔ آخری چار رکعت کی امامت مجھے سونپی گئی اور آخری ایک چوتھائی پارہ میرے حصہ میں آتا تھا۔ اختتامی سورتوں کی تلاوت بھی میرے ہی حصے میں آئی۔ یہ سعادت بھی کیسی خوشی کا سبب ہوتی ہے ایک حافظ قرآن سے بہتر شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ اس کے بعد اگلے دو سال میں اپنے ایک تنظیمی ساتھی کے ساتھ انہی کے گھر میں خواتین کی جماعت کی امامت کرتا رہا۔ ابتدائی 10 پارے انھیں یاد تھے، باقی حصہ میرے سپرد ہوتا۔

بالآخر دو سال قبل 2017 کے رمضان میں مجھے ایک مسجد میں تراویح کا موقع مل گیا۔ میں نے اکیلے ہی امامت کی اور مکمل قرآن سنانے کی سعادت پائی۔ اگلے سال 2018 میں مجھ سے بروقت ربط نہ ہو پانے کی وجہ سے انتظامی کمیٹی نے میرے علاوہ ایک اور حافظ سے بات کرلی۔ تراویح کے حوالے سے میں والد صاحب کی توجہ اور یکسوئی کئی سالوں سے دیکھتا رہا ہوں۔ وہ اکیلے ہی مکمل قرآن سناتے ہیں اور اسی انداز کو مفید سمجھتے ہیں۔ میں بھی ان کی اس پریکٹس کا قائل ہوں۔

ایک دوست نے دوسری مسجد کی نشاندہی کی اور میں نے وہاں نماز تراویح کے لیے جانا طے کیا۔ مسجد زیادہ دور تھی اور مصلی بہت کم آیا کرتے تھے۔ کئی دفعہ صرف دو لوگ ہی رہتے اور کبھی کبھار تو یوں بھی ہوتا کہ صرف مسجد کے امام صاحب تنہا ہوتے۔ تراویح میں قرآن مجید سنانے کا لطف اور اس کی افادیت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ مصلیوں کی کم تعداد اس لطٖف سے سمجھوتہ نہیں کرواسکتی۔ میں نے بہرحال اس سلسلے کو جاری رکھا۔

اپنے حفظ کو پختہ کرنے کا اس سے زیادہ شاندار موقع کوئی اور نہیں ہوتا۔ 2019 میں ایک نئی مسجد میں یکسوئی کے ساتھ مکمل قرآن سنانے کا موقعہ بھی بڑا یادگار رہا۔

جاریہ سال لاک ڈاؤن نے عوام کو نئی نئی الجھنوں سے دوچار کر دیا۔ لیکن ادھر ہمارے گھر میں الجھن کی نوعیت، عام ایشیوز سے الگ تھی۔ اجتماعی فیصلہ تھا کہ تراویح کا اہتمام اب گھروں میں ہوگا۔ مسئلہ ایک نئی مسابقت کا تھا۔ گھر میں دو حفاظ اور دونوں مکمل اور بلاشرکت تلاوت اور امامت کے لیے پرعزم!

مسئلہ بھی پیچیدہ تھا آخر یہ طئے ہوا کہ والد صاحب مرد حضرات کی امامت فرمائیں گے اور ہم خواتین کے امام ڈکلیر کیے گئے۔ میرا دل مطمئن نہ تھا۔ جس دن تراویح کا آغاز ہونا تھا اسی دن ایک پڑوسی کی جانب سے تراویح کی امامت کے لیے مطالبہ ہوا۔ والد صاحب سے مشورہ کے بعد میں نے انہیں اپنی رضا مندی ظاہر کردی۔ اللہ نے اس طرح ایک نیا انتظام کر دیا۔ 27 ویں شب کے موقعہ پر جب دوران قیام میں آخری سورتوں کی تلاوت کر رہا تھا توکئی واقعات ذہن میں گردش کر رہے تھے اور خوشی اور شکر الٰہی کے جذبات سے آنکھیں اشکبار ہو رہی تھیں کہ اللہ نے مجھ جیسے ایک بندے کو اپنے کلام کی حفاظت کے لیے معمور کیا۔

اسی دن طئے کیا کہ تکمیل حفظ کی روداد سفر آپ حضرات کے ساتھ بھی شیر کروں گا۔ اس سال بھی الحمد للہ مکمل قرآن سنانے کی سعادت نصیب ہوئی اور پھر وہی فرحت، اور خوشی کا احساس میسر ہوا جو جس کا موازنہ کسی اور احساس سے ممکن نہیں۔ دسویں جماعت میں رب کریم نے CGPA 10 / 10 کے ساتھ شاندار کامیابی بھی عنایت فرمائی، لیکن میرا احساس ہے کہ یہ خوشی بھی اس خوشی کے سامنے ہیچ ہے۔

خوشی، فرحت اور لطف ہی نہیں محبت عزت و تکریم بھی حفظ قرآن کے اضافی تحفے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے وہ اقوال کے اللہ رب العزت اس کتاب کے ذریعے عزت بھی دیتا ہے اور ذلت بھی۔ اس بات کو میں نے کئی مرتبہ محسوس کیا۔ حفظ کے بعد اسکول میں تمام طلباء اور اساتذہ کی قدر شناس نگاہوں کا میں ممنون رہا ہوں۔ سلطان العلوم پبلک اسکول کے ہمارے پرنسپل اپنے اصولوں کے حوالے سے سخت ترین استاد مانے جاتے تھے (اللہ ان کی مغفرت فرمائے ) ، ان کی خصوصی شفقتیں بھی مجھے صاف محسوس ہوتی تھیں۔

اسکول اور کالج کی مصروفیات کے دوران جب کبھی قرآن کی تلاوت اور تفہیم کے حوالے سے کوتاہی ہوئی محترم والدین اورمحترم ناظم صاحب کی بروقت توجہ دہانی فوری اصلاح کا سبب بن جاتی۔ میں تمام حفاظ کو یہ مشورہ ضرور دینا چاہوں گا کہ اپنے آپ کو کتاب مبین سے کبھی دور نہ کریں۔ مصروفیات کے بہانے کوتاہی کا ڈر ہمیشہ لگا رہتا ہے اگر اس کوتاہی کو بروقت کنٹرول نہ کریں تو پھر یہ دوری بڑھ جاتی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یکسوئی کے ساتھ نظر ڈالنے کا موقعہ ہی نہ ملے۔ خدا نہ کرے۔ اگر ہم قرآن کو تھامے رہیں گے تو دنیا میں خوشی، عزت، رزق اور محبت کا انعام تو ہے ہی لیکن آخرت کی نوازشوں کے کیا کہنے۔ اور اگر یہ سلسلہ چھوٹ جائے گے تو پھر دونوں ہی جہانوں میں بدبختی، افسوس اور نقصان۔

مدرسہ کے وہ پرلطف لمحات آج بہت یاد آتے ہیں۔ ناظم صاحب کے سخت قوانین، والدہ کی کبھی ڈانٹ اورکبھی حوصلہ افزائی، والد صاحب کی شفقت اور تربیت۔

اگر تربیت کا ایسا قیمتی ماحول میسر نہ ہوتا شاید یہ سفر کبھی مکمل نہ ہو پاتا۔ اللہ رب العزت ان تینوں مربیوں اور تمام اساتذہ کو دونوں جہاں کی کامیابیاں خوشیاں عطا فرمائے۔ ۔ ان کے علاوہ وہ تمام لوگ، اساتذہ اور ساتھی جنھوں نے اس سفر کے دوران میری مدد فرمائی، رب العزت ان تمام کو بہترین جزا عطا فرمائے۔ اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھ سے اس کتاب کے تئیں اگر کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں تو انھیں درگزر فرمائے اورمجھے اس کتاب کا تا حیات خادم بنے رہنے کی سعادت عطا فرمائے۔ ساتھ ہی ہم تمام حفاظ کو کتاب اللہ کی صحیح معنوں میں حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments