بھارت کا چین کے ساتھ تناؤ اور گریٹڑ انڈیا کا خواب


چین کے ساتھ سرحدی تصادم کے بعد بھارت میں چین مخالف جذبات میں اضافہ ہورہا ہے۔ بھارت معاملات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے دیگر مقاصد کا حصول چاہتاہے۔ وہ مقاصد کیا ہیں آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔

بھارت نے حال ہی میں انسٹھ چینی ایپس پریہ کہہ کر پابندی عائد کردی کہ یہ ایپس ”بھارت کی خودمختاری، سالمیت، سلامتی، دفاع، سلامتی اور عوامی نظم و ضبط کے لئے متعصبانہ ہیں۔“ بھارت میں چینی مصنوعات اور کمپنیوں کے حالیہ بائیکاٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بھارت میں چین مخالف جذبات کی وجہ صرف سرحدی جھڑپیں نہیں ہیں۔ بلکہ اس کی جڑیں ہندو قوم پرستی کے عروج اور ایک بڑی طاقت بننے کے ہندوستان کے خواب میں پیوست ہیں۔

معاشی نمو میں بہتری کے ساتھ، بھارت نے عالمی قائد بننے کے لئے اپنے ارادوں کا اظہار شروع کر دیا ہے۔ اور بھارتی اشرافیہ اور عوام کے ایک حصے میں چین کے معاشی اور فوجی مقابلے کی خواہش اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔ ہندو قوم پرستی تاریخ میں کبھی بھی اتنے عروج پر نہیں تھی جتنی آج ہے۔ بھارت کو اس وقت کسی غیر ملکی حملے یا خطرے کا سامنا نہیں ہے۔ اس لیے ابھرتی قوم پرستی کا اصل ہدف ہندو مذہب کے لیے ایک بڑے ملک یعنی گریٹر انڈیا کا قیام ہے۔ بھارتی سمجھتے ہیں کہ اس مقصد کے حصول کے لئے پہلے چین پر سبقت حاصل کرنا ضروری ہے۔

ان جذبات کے پیچھے دوسری وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کے داخلی امور میں تبدیلیوں نے بڑی بے یقینی پیدا کردی ہے۔ ایسے میں چین مخالف موقف مخصوص افراد کے لئے معاشرتی اتفاق رائے پیدا کرنے کا ایک موقع بن گیا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑے نام نہاد سیکولر ملک کے دعویدار بھارت نے عملی طور پر معاشرے کو ہندو مذہب کے زیر تسلط کر دیا ہے۔ ملک میں بڑے پیمانے پر اختلافات کے باوجود، حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی اس سلسلے کو پورے شد ومد کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے۔ نہ صرف اس کے لئے ایک بیانیہ فراہم کیا جا رہا ہے بلکہ اس مقصد کے حصول کے لئے پالیسیاں مرتب کرکے مختلف اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ بعض ہندو سمجھتے ہیں کہ ہندوؤں کو متحد کرنے کے لئے مسلمان اور چین مخالف موقف سے زیادہ کارگر کوئی شے نہیں ہے۔

مزید برآں، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2024 تک ملک کے جی ڈی پی کے لئے 5 ٹریلین ڈالر کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اگر یہ ہدف حاصل کیا جاتا ہے تو بھارت دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا، جس سے ہندو قوم پرستی کے لئے ایک مضبوط معاشی بنیاد فراہم ہو جائے گی۔

عالمی امور میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنے کی بھارتی ذہنیت سیاسی ضروریات اور ان ہندوؤں کے مطالبے سے پیدا ہوئی ہے جو ہندو مت کی مائتھالوجی پر گہرا یقین رکھتے ہیں۔ اپنی منفرد ثقافت اور روایات کی وجہ سے بہت سے ہندو سمجھتے ہیں کہ ان کا ملک ایک عالمی طاقت ہے۔

اس سے قطع نظر کہ ہندو قوم پرستی کے محرکات تاریخی ہیں یا حقیقت پر مبنی، بھارت کی سرزمین چین مخالف جذبات کے لئے زرخیز ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ بھارت 1962 میں چین کے ہاتھوں اپنی شکست کو ایک تاریخی تذلیل سمجھتا ہیں۔ تاہم بھارت کا اپنے تعلیمی نظام اور تذویراتی سطح پر چین مخالف جذبات کو پروان چڑھانا خطرناک ہوگا۔

گزشتہ کچھ برسوں کے دوران، چینی کمپنیوں نے جنوبی ایشیائی ممالک میں مقامی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں سرمایہ کاری کرکے ان ممالک کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ چین کا ہندوستان کی اسٹریٹجک اسپیس کم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ چین کا مقصد دونوں ممالک کے عروج کے وقت پرامن بقائے باہمی کے طریقے تلاش کرنا ہے۔ تاہم دوسری طرف بہت سے بھارتی چین کے اقدامات کو اپنی اس حکمت عملی کے منافی سمجھتے ہیں جس کے تحت بھارت ہمسایہ ممالک کو اپنے گھر کا پچھواڑہ اورپورے بحر ہند کو ہندوستان کی ملکیت سمجھتا ہے۔

چین امید رکھتاہے کہ تذویراتی لحاظ سے دوبڑی آبادیاں اور ابھرتی ہوئی معیشتیں اچھے پڑوسیوں کی طرح احتیاط کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ چلیں گی۔ تاہم بدقسمتی سے کچھ بھارتیوں کا مقصد مغرب کی مدد سے چین پر قابو پانا اور اس سے آگے نکل جانا ہے۔ اس نظریے کا بعض ہندوستانی میڈیا اور سیاستدان اپنے بیانات اور آرٹیکلز میں پر چار کر رہے ہیں۔ جس سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال کے تحت بھارت کو چین کو قابو میں رکھنے کے لئے امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ ملنے کا موقع مل رہا ہے۔

امریکہ کی زیرقیادت مغربی ممالک بھارت کے عروج کو چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ واشنگٹن چین بھارت تعلقات کو مسابقت اور تنازعات کی طرف جانے پر خوش ہے۔ حقیقت میں، مغرب نے چین۔ بھارت تعلقات میں مداخلت کرکے صورتحال کو مزید خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستان کو ”دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت“ کا نام دینا، ”ممبئی ماڈل“ کی بات کرنا، اور چین۔ بھارت تنازعات میں بھارت کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ کرنا اسی کردار کی عکاسی کرتے ہیں۔

امریکہ، بھارت کو چین کا مقابلہ کرنے کے لئے ابھار رہا ہے اور ہند بحر الکاہل حکمت عملی کے تصور کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف ہندوستانی اشرافیہ کی بڑی تعداد مغرب کے ساتھ کام کرنے کی طرف مائل ہے۔ ان کے خیال میں چین کو قابو میں رکھنے کے لئے امریکی کیمپ میں شامل ہو کر گویا وہ برابر عالمی طاقت بن چکے ہیں۔

مجموعی طور پر، چین اور ہندوستان کے درمیان معاشی تعاون اور عوام سے عوام کے تبادلے پر مبنی تعلقات کبھی بھی چین مخالف بھارتی شہریوں کو مطمئن نہیں کرسکیں گے۔ تاہم دونوں ممالک کو مشترکہ ترقی اور امن و استحکام کی خاطر سفارت کاری، قیادت کے تبادلے اور عسکری ذرائع کے راستے اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments