پاکستانی پارلیمنٹ پر ’خداؤں‘ کا سایہ ہے!


پارلیمنٹ کو کسی بھی جمہوری ملک میں ’اداروں کی ماں‘ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ پارلیمنٹ ہی دیگر ریاستی اداروں کو وجود بخشتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں پارلیمنٹ کی کیا حیثیت ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایسے تمام مصنفین جنہوں نے پاکستانی ریاستی اداروں پر بہت کچھ لکھا ہے، انہوں نے پاکستانی پارلیمنٹ کو بطور ادارہ دیکھنا اور لکھنا مناسب نہیں سمجھا۔

اسی کمی کو ڈاکٹر محبوب حسین نے شدت سے محسوس کیا اور اپنی کتاب ’دی پارلیمنٹ آف پاکستان‘ میں اداروں کی کارکردگی جانچنے کے لیے عالمی سطح پر مسلمہ تھیوریوں کی مدد سے اس بات کا جائزہ لیا کہ پاکستان میں پارلیمنٹ بطور ادارہ کن مراحل سے گزرا اور خصوصی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے دور ( 1977۔ 1971 ) میں اس کی کارکردگی کیا رہی۔

پارلیمنٹ جس فرانسیسی لفظ سے ماخوذ ہے اس کا مطلب ’بات چیت‘ ہے۔ تو گویا پارلیمنٹ میں ممبران کو اہم قومی مسائل پر اظہار رائے کی آزادی کا حاصل ہونا ہی اس کا اصل حسن ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پارلیمنٹ کو ’مجلس شوریٰ‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ مشاورت تو درکنار اہم ترین معاملات میں ’مجلس شوریٰ‘ کو گفتگو کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔

کہنے کوتو پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریت ہے لیکن پارلیمنٹ جیسے ادارے کو یہاں ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا۔ پارلیمنٹ کو اکثر پارلیمنٹ سے باہر طے کیے گئے فیصلوں کو سند جواز دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں نے بھی پارلیمنٹ کو ’مقدس ادارہ‘ نہیں سمجھا۔ اسی لیے دیگر ریاستی ادارے اس منصب پر قابض ہوتے گئے۔

بٹوارے کے ساتھ ہی متحدہ ہندوستان کی پارلیمنٹ بھی دوحصوں میں بٹ گئی۔ جنہیں اپنے اپنے ملک کے لیے قانون سازی کے ساتھ ساتھ آئین سازی کا اختیار بھی دیا گیا۔ ہندوستان نے 1949 میں آئین بنا لیا۔ جب کہ پاکستانی دستور اسمبلی برطانوی ماہر آئین ساز رابرٹ ڈرائٹن کی مخصوص ماہرانہ خدمات کی بدولت 9 سال کے عرصے میں بمشکل آئین بنا پائی۔

آئین سازی میں کوتاہی کی بہت ساری وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقے برٹش دور میں بھی نہ صرف پارلیمانی جمہوریت سے ناآشنا رہے بلکہ طاقت کے اسرار و رموز سے بھی بیگانہ رکھے گئے۔ دیگر وجوہات میں دستور ساز اسمبلی کے اکثر با اثر ممبران کے انتخابی حلقوں کا پاکستان میں نہ ہونا، اسمبلی میں اختلاف رائے کو دبانا اور کچھ نادیدہ قوتوں کے سیاسی عمل میں مداخلت وغیرہ شامل تھیں۔

پہلے مارشل لا کے بعد ’قوم‘ کو ’بنیادی جمہوریت‘ کا سبق پھر سے پڑھایا گیا۔ اور فرد واحد کی ’رہبری‘ میں پارلیمنٹ عملی طور پر فوج کے ماتحت ادارہ بنی رہی۔ گو کہ پاکستان کے شروع کے ادوار میں اسمبلیوں کا کسی نہ کسی شکل میں وجودبرقرار رکھا گیا، لیکن یہ اسمبلیاں اپنی طاقت کبھی بھی نہ منوا سکیں۔ اس کے مقابلے میں نوکر شاہی اور فوج نے ان ادوار میں اپنے آپ کو بہت مضبوط کیا۔ اور عملی طور پر ملک فوج اور بیوروکریسی چلاتی رہی اور سیاستدانوں کے حصے میں صرف چند حروف آتے رہے۔

دوسرے مارشل لا کی آمد اور پاکستان کے پہلے عام اور بلاواسطہ انتخابات ( 1970 میں ون مین، ون ووٹ کی بنیاد پر) نے ملک کو دولخت کر دیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بچے کچھے پاکستان میں دوبارہ انتخاب کی زحمت نہیں اٹھائی گئی۔ اس معاملے میں حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں نے شاندار خاموشی کا مظاہرہ کیا۔ بہرحال، 1970 کے انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی ٹوٹی پھوٹی اسمبلی نے پاکستان کو 1973 کے آئین سے نوازا۔

لیکن آئین بنانے کے بعد، یہی آدھی ادھوری اسمبلی ملک میں ادارہ جاتی عمل کے لیے کوئی اچھی روایت قائم نہ کر سکی۔ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کے نہ پنپنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ الیکشن کو غیر ضروری طور پر ملتوی کیا جاتا رہا یا بالواسطہ الیکشن کروائے جاتے رہے، اس سے پارلیمنٹ عوام کے دلوں میں اپنا مقام پیدا نہیں کر سکی۔

سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، صدر اور پھر وزیر اعظم بھٹو جیسی کرشماتی شخصیت کی وجہ سے بھی پارلیمنٹ اپنا آزادنہ کردار اداکرنے سے قاصر رہی۔ بھٹو نے بڑی مہارت سے پارلیمنٹ کو سیاسی پارٹیوں، فوج، میڈیا اور عدلیہ کے خلاف استعمال کیا۔ بھٹو کا سرحد (خیبر پختونخوا ) اور بلوچستان میں صدارتی نظام نافذ کرنا، نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگانا، فیڈرل سیکورٹی فورس (ایف ایس ایف) قائم کرنا اور پھر اس کو اپوزیشن کے خلاف استعمال کرنا، اپنی ہی پارٹی ممبران بارے خفیہ فائلیں تیار کرنا اور ملک میں ایک لمبے عرصے تک ایمرجنسی لگا کر رکھنا بھی پارلیمنٹ کے وقار کو لے ڈوبا۔

اسی طرح بھٹو پر 1977 کے الیکشن میں دھاندلی کے الزام نے پورے سیاسی عمل پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔ اپوزیشن اور حکومت کے جھگڑے پارلیمنٹ کی بجائے جب گلیوں تک پہنچے تو ملک میں ایک دفعہ پھر مارشل لا نافذ کر دیاگیا۔ اس سے نہ صرف پارلیمنٹ کی دوسرے اداروں پر بالادستی متاثر ہوئی بلکہ ملک میں جمہوری روایات کا بھی خاتمہ ہونا شروع ہوا۔ شاید اسی وجہ سے جب بھٹو خود مشکل میں پھنسے تو کوئی ادارہ بھی بھٹو کی مدد کو نہ آیا۔

یہ مفروضہ کہ پارلیمنٹ کی بطور ادارہ ناکامی کی واحد وجہ فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی ہے، درست معلوم نہیں ہوتا۔ پارلیمنٹ کا بطور ادارہ اپنی خصوصیات برقرار نہ رکھنا اور سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کے نہ ہونے کی وجہ سے پارلیمنٹ اپنی خودمختاری قائم نہ رکھ پائی۔ اسی سبب دیگر اداروں نے بھی پارلیمنٹ کی بالادستی کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔

فوج، دفاع اور خارجہ پالیسی جیسے اہم ترین معاملات کبھی بھی پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں میں نہیں رہے۔ حساس معاملات جیسے کہ بنگلہ دیش اور شملہ معاہدہ کو تسلیم کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ کشمیر جیسا مسئلہ بھی پارلیمنٹ کی دسترس سے باہر رہا۔ برطانوی دولت مشترکہ سے باہر نکلنا ہو یا دیگر اصطلاحات (لیبر، زرعی، تعلیمی، قانونی اور پولیس) کا نفاذ ہو، ان سب میں پارلیمنٹ کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔

مختصراً، اس کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ، ملٹری / سول بیوروکریسی کی طاقت کی اندھی خواہش کی وجہ سے ہمیشہ بحران کا شکار رہی۔ پارلیمنٹ کی اندرونی اور بیرونی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کے لیے سول اور ملٹری بیوروکریسی ہمیشہ تیار رہی۔ سول حکومتوں کو بار بار رخصت کرنے کی وجہ سے پارلیمنٹ بطور ادارہ کام نہیں کر سکی۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتیں، سیاسی کلچر قائم کرنے میں ناکام رہیں۔ نتیجتاً، پارلیمنٹ ناکام رہی۔ اسی لیے آئین کو متفقہ طور پر پاس کرنے کے باوجود، یہی سیاسی جماعتیں آئین کو بچانے میں ناکام رہیں۔

پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمنٹ جیسے ادارے کا کیا اہمیت ہوتی ہے؟ سیاسی جماعتیں کیسے ہوتی ہیں اور کیسے عوام کا سیاسی شعور بلند کرتی ہیں؟ ادارے کیسے وجود میں آتے ہیں؟ اداروں کے کارکردگی جانچنے کے لیے بین الاقوامی طور پر کون سی تھیوریاں استعمال میں لائی جاتیں ہیں؟ پاکستان میں ادارے مضبوط کیوں نہیں ہیں؟ شخصیات کا ادارہ سازی میں کیا کردار ہوتا ہے؟ اس قسم کے بہت سارے سوالات کا جواب نہ صرف اس کتاب میں بڑی خوبصورتی سے دیا گیا ہے بلکہ چند نئے سوالات سے بھی روشناس کروایا گیا ہے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستانی سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنے اندر حقیقی جمہوری روایات پیدا کریں گی بلکہ بہت جلد پارلیمنٹ کا تقدس بطور ادارہ بھی منوانے میں کامیاب ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments