ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرانے کی المناک داستان


ہم آپ کو جنگ عظیم دوئم کی وہ ہولناک داستان سنانے جا رہے ہیں جس میں امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی بم گرائے تھے۔ ۔ ۔ ان ایٹمی حملوں کی وجہ سے لاکھوں انسان مارے گئے تھے۔ ۔ ۔ امریکا نے جنگ عظیم دوئم کے دوران جاپان کے شہر ہیرو شیما پر چھ اگست 1945 اور ناگاساکی پر 9 اگست 1945 کو ایٹمی بم گرائے تھے۔ دونوں شہروں پر ایٹم بم گرانے کی وجہ سے ایک لاکھ چالیس ہزار انسان دھماکے کے دوران ہی ہلاک ہوھئے تھے۔

۔ ۔ حملے کے بعد خونی ایٹمی شعاعوں کی وجہ سے ہزاروں انسان مارے گئے۔ ۔ ۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا معاملہ تھا جس کی وجہ سے امریکا نے ایٹم بم گرانے کا خونی اقدام اٹھایا۔ اس کا جواب تاریخ سے یہ دیا جاتا ہے کہ ورلڈ وار ٹو کے دوران دنیا کے مختلف ممالک دو بلاکس میں تقسیم تھے۔ ۔ ۔ ایک بلاک یا اتحاد کو axis power کہا جاتا ہے اوردوسرے بلاک کا نام allied power تھا۔ ان دونوں بلاکس کے درمیان جنگ عظیم دوئم ہو رہی تھی۔

۔ ۔ axis پاور میں جرمنی، اٹلی، جاپان، ہنگری اور بہت سے ممالک شامل تھے۔ ۔ ۔ جبکہ allied پاور میں امریکا، برطانیہ، کینیڈا، فرانس وغیرہ شامل تھے۔ ہٹلر کی ہلاکت کے بعد جرمنی میں نازی فوج کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ اس موقع پر الائیڈ پاور بظاہر جنگ عظیم دوئم کی فاتح نظر آ رہی تھی جبکہ دوسری طرف axis پاور کمزور پڑ چکی تھی۔ ۔ ۔ axis پاور میں جاپان کا شہنشاہ شکست تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا، وہ لڑنا چاہتا تھا۔ ۔

۔ جاپان کے شہنشاہ ہیرو ہیتھو کا کہنا تھا کہ جو بھی ہو جائے وہ ہار نہیں مانے گا۔ ۔ ۔ جنگ عظیم دوئم کو کسی طرح ختم بھی کرنا تھا۔ امریکی تاریخ دانوں کے مطابق جنگ عظیم دوئم کو ختم کرنے کے لئے امریکا نے جاپان کے شہروں پر ایٹمی بم گرانے کا فیصلہ کیا۔ ۔ ۔ امریکا نے 16 جولائی 1945 کو ایٹمی بم بنالئے تھے۔ ۔ ۔ ادھر جنگ عظیم دوئم میں جاپان امریکا پر بہت بڑا حملہ کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ ۔ ۔ اس حملے کو آپریشن ڈاؤن فال کا نام دیا گیا تھا۔

۔ ۔ اس کشمکس میں جب امریکا کے صدر ہیری ٹرو مین کو خفیہ ایجنسی نے یہ خبر دی کہ جاپان امریکا پر بہت بڑا حملہ کرنے جا رہا ہے تو اس نے جاپان پر ایتمی حملے کرنے کی تیاری شروع کردی۔ ۔ ۔ ایٹم بم کیسے گرائے جائیں اور جاپان کے کن شہروں پر یہ ایٹمی حملے کیے جائیں اس کی حکمت عملی تیار کی گئی۔ ۔ ۔ امریکا نے برطانیہ سے صلاح مشورے کیے اور برطانیہ نے بھی امریکا کی ہاں میں ہاں ملادی۔ 6 اگست 1945 کے دن امریکا نے ایئر کرافت کے ذریعے آٹھ بجکر پنتالیس منٹ پر جاپان کے شہر ہیرو شیما پر بم گرایا۔

۔ ۔ جو بم ہیرو شیما پر گرایا گیا اس کا نام لٹل بوائے تھا۔ ۔ ۔ اس ایٹم بم کو زمین سے ٹکرانے میں چوالیس اشاریہ چار سیکنڈز لگے۔ ۔ ۔ زمین سے ٹکڑاتے ہی ایسی تباہی ہوئی کہ جس کے بارے میں سوچتے ہی انسان کانپ اٹھتا ہے۔ ۔ ۔ ہیرو شیما شہر کی تیس فیصد آبادی صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ تقریباً اسی ہزا انسان ایٹم بم پھٹتے ہی لمحوں میں مر گے۔ ۔ ۔ تقریباً گیارہ کلومیتر کا علاقہ دوزخ بن گیا۔ جہاں صرف آگ اور لاشوں کا ڈھیر تھا۔

۔ ۔ اس حملے کے زخم ابھی باقی تھے کہ تین دن بعد 9 اگست 1945 کے دن امریکا نے گیارہ بجکر دو منٹ پر ناگاساکی پر ایٹم بم پھینک دیا۔ ۔ ۔ اس حملے میں جو ایٹم بم استعمال کیا گیا اس کا نام تھا فیٹ مین۔ ۔ ۔ امریکی تاریخ دانوں کے مطابق حقیقت میں فیٹ مین نامی ایٹم بم منصوبہ بندی کے تحت جاپان کے شہر کوکورا میں گرایا جانا تھا۔ ۔ ۔ لیکن موسم کی خرابی اور ایئر کرافت میں ایندھن کی کمی کی وجہ سے فیٹ مین ناگاساکی میں گرادیا گیا۔

۔ ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بم زمین پر نہیں بلکہ گرنے کے دوران ہی فضا میں پھٹ گیا تھا۔ ۔ ۔ ناگاساکی کے آس پاس پہاڑ تھے جس کی وجہ سے ہیرو شیما کی نسبت تباہی کچھ کم ہوئی۔ ۔ ۔ لیکن فیٹ مین نے بھی ناگاساکی پر خوفناک قہر برسایا۔ ۔ ۔ فیٹ مین ایٹم بم کی وجہ سے چالیس ہزار انسان لقمہ اجل بنے۔ ۔ ۔ دو خونی ایٹمی حملوں کے بعد جاپان کے شہنشاہ ہیرو ہیتھو نے ہتھیار ڈال دیے اور اس طرح 14 اگست 1945 کو ہیرو ہیتھو امریکا کے سامنے جھک گیا

انسانی تاریخ جنگ اور جنگی ہیروز سے بھرپور ہے۔ اس دنیا میں جنگ کو ہمیشہ شاندار بنا کرپش کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں سالوں سے ہمیشہ اپنے اپنے جنگجو ہیروز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ معلوم نہیں کیوں ان لوگوں کا ہمیشہ حوصلہ بڑھا گیا ہے جو قتل و غارت کر کے انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرتے تھے۔ آج بھی قومیں۔ ملک اور قبائل قتل وغارت کرنے والوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ کیا وہ انسان جو انسانوں کا قتل عام کریں۔ انہیں ہیروز بنا کر پیش کرنا چاہیے؟

ہر جنگ نے بے تحاشا دکھ۔ درد اور غم پیدا کیے ہیں۔ جنگ انسانیت پر ہمیشہ ایک عذاب کی طرح نازل ہوتی ہے۔ جو زندگی اور انسانیت کو تباہ کر دیتی ہے۔ وہ جو شکست کھا جاتے ہیں۔ ان کے لوگ تو مرتے ہی مرتے ہیں۔ وہ جو فاتحین کہلاتے ہیں۔ ان کے بھی بے تحاشا انسان مارے جاتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں فاتحین فتح کا جشن مناتے ہیں؟ انسان کا المیہ یہ رہا ہے کہ اس نے کبھی جنگ کی مذمت نہیں کی۔ انسانیت تو اسے کہتے ہیں جو قتل عام کی مذمت کرے۔

روایات، مذاہب، نظریات اور افکار کی وجہ سے جنگیں لڑیں گئی۔ پھر انہیں اساطیری خیالات نے ان جنگوں کو شاندار اور عظیم بنا کر پیش کیا۔ فاتحین کے قصیدے لکھے گئے۔ ان کے مجسمے تراش کر چوکوں چوراہوں میں نصب کیے گئے۔ ان قتل و غارت گری کرنے والے فاتحین کو ہیروز بناکر پیش کیا گیا۔ یہ ہیروز قتل غارت گری کرنے والے تھے۔

صرف قوم پرستی اور محب وطنی کے نام پر ان قاتلوں کو ہیروز بنایا گیا۔ سکندر نے یونان میں قتل عام کیا۔ مشرق وسطی میں تباہی مچائی۔ اس لٹیرے نے دوسرے ملکون میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا اسی طرح تیمور اور چنگیز خان نے انسانوں کی کھوپڑیوں کے مینار قائم کیے ۔ ان جنگوں کی وجہ سے کروڑوں دردناک کہانیاں منظر عام پر آئیں۔ لیکن تاریخ میں ان درد ناک کہانیوں کا خال خال ہی ذکر ملتا ہے۔ قاتلوں کے قصیدے تاریخ میں شاندار انداز میں لکھے گئے۔

انسانی تاریخ میں صرف ایک بادشاہ ایسا تھا جس نے جنگوں سے سبق سیکھا۔ اس کا نام تھا اشوک یا اشوکا۔ اشوک نے جب ایک جنگ میں ہزاروں انسانوں کی لاشیں دیکھیں۔ زخمیوں کی چیخ و پکار کو محسوس کیا۔ تو پھر اس نے جنگوں سے توبہ کرلی۔ وہ جنگیں جو جارحانہ انداز میں لڑی جاتی ہیں، جو دوسروں کے مال و دولت کی لوٹ کھسوٹ کے لئے برپا کی جاتی ہیں۔ جو اپنے اقتدار کو وسعت دینے کے لئے ہوتی ہیں۔ ایسی جنگوں کی وجہ سے انسانی تاریخ میں کروڑوں انسان قتل ہوئے۔ جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم کو ہی دیکھ لیں۔ اس دور میں یورپی اقوام پر جنگی جنون چھایا ہوا تھا۔ یورپی انسان ایک دوسرے سے لڑنے کے لئے مرے جا رہے تھے۔ اس دور کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عوام بھی جنگ چاہتے تھے اور خواص تو چاہتے ہی چاہتے تھے۔

پہلی جنگ عظیم میں بھی یہی کیفیت تھے۔ یورپی ممالک ایشیا اور افریقہ وغیرہ کو اپنی کا لونیاں بنانے کے لئے۔ ان پر قبضہ کرنے کے لئے آپس میں لڑ رہے تھے۔ یورپی چاہتے تھے کہ ان کی زیادہ سے زیادہ کالونیاں ہوں۔ سب چاہتے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرسکیں۔ سرمایہ دار جنگوں پر اس لئے سرمایہ لگا رہے تھے تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ منڈیاں دستیاب ہوں۔ عام لوگوں کو تاریخ انسانی میں ہمیشہ اس بات پر بیوقوف بنایا گیا کہ جنگ ہو گی تو مسائل حل ہو جائیں گے۔

خوش حالی آئے گی۔ فلاح و بہبود ہوگی جنگوں میں عام انسان کا کوئی مفاد نہیں ہوتا۔ وہ تو صرف قتل ہوتے ہیں۔ حقیقی مفادات حکمرانوں، سیاستدانوں اور جرنیلوں کے ہوتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم چار سال تک جاری رہی۔ اس جنگ میں مہلک ترین ہتھاروں کا استعمال کیا گیا۔ ٹینکوں اور جیٹ طیاروں سے بمباری کی گئی۔ اس جنگ میں موت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ بربادی کے سوا کچھ نہ تھا۔ قومی پرستی کے نام پر لاکھوں انسان قتل کیے گئے۔ اس جنگ کے بعد یورپ میں سناٹا چھا گیا۔ توقع نہیں تھی کہ اس قدر لوگوں کا قتل عام ہو گا۔

پاکستان میں بھی انسانوں کے دماغ میں یہی بات بٹھا دی گئی ہے کہ بھارت پر ایٹم بم گرا دینا چاہیے۔ انڈیا کی ایسی کی تیسی پھیر دینی چاہیے۔ یہ خیال ہی پاگل پن ہے۔ عوام، سیاستدان اور جرنیلوں کے ذہن میں یہ سب سے بڑی غلط فہمی ہے کہ جنگ سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ جب ملک تنازعات میں گھرے ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان مسائل ہوتے ہیں۔ تو اس کا حل مذاکرات ہیں۔ لیکن عوام کو گمراہ کر کے کہا جاتا ہے کہ جنگ لڑی جانی چاہیے۔ اس سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ جنگوں سے مسائل حل ہوئے ہوں؟

آج یورپ میں جنگ کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے تو اس کی وجہ وہ بیک گراونڈ ہے۔ قوم پرستی، حب الوطنی، قومی پرچم، ترانے سب کے سب انسانیت کی بربادی کا سبب بنے ہیں۔ آج وہ انسان جو جنگوں میں مارے گئے ہیں۔ اس زمین پر دوبارہ واپس آجائیں۔ اور دیکھیں کہ دنیا میں رقص ہے۔ خوشیاں ہیں۔ سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے۔ لیکن وہ کیوں جنگ کے نام پر مارے گئے۔ وہ سوچیں گے کہ انہیں کیوں زندگی سے محروم کر دیا گیا۔ انہیں جنگوں کا کیا فائدہ ہوا۔ وہ کہیں گے اگر ایسا ہی چلنا تھا تو وہ اپنی زندگی کا حساب کس سے مانگیں۔ جنگ عظیم ون اور ٹو کے بعد یورپ میں اینٹی وار تحریکیں چلیں۔ ڈرامے لکھے گئے۔ ناول لکھے گئے۔ فلمیں بنائی گئی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد دوسری جنگ عظیم لڑی گئی جو پہلی جنگ سے بھی زیادہ بھیانک ناک ثابت ہوئی۔

اس دنیا میں ایک ہی تحریک ہونی چاہیے جس میں صرف یہ کہا جائے کہ جنگیں تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تین بڑی جنگوں کے علاوہ چھوٹی موٹی کئی جنگیں ہوئی۔ ان جنگوں کا کیا فائدہ ہوا۔ کیا کوئی ان جنگوں کا فائدہ بتا سکتا ہے؟ وہ تعلیم جو جنگی جنون پیدا کر رہی ہے۔ جو خونریزی کے جذبات ابھار رہی ہے۔ نفرت اور تعصب کو پیدا کر رہی ہے۔ ایسے خیالات اور افکار سے انسان کو اب آزادی حاصل کر لینی چاہیے۔ ورنہ انسان اس طرح مرتے رہیں گے۔ انسان کو انسانی تاریخ سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے عوام اور سیاستدانوں سے میری اپیل ہے کہ وہ فوجیوں کو ہیرو بنانے کی بجائے اسکالرز کو ہیرو بنائیں۔ لبرل دانشوروں اور سماجی کارکنوں کو اپنا ہیرو بنائیں۔

یورپ نے تو جنگوں سے سبق سیکھا اور متحد ہوگیا۔ لیکن ظالم امریکہ اور روس کے جنگی جرائم اب بھی خوفناک ہیں اور ان دونوں کے پاس بے تحاشا ایٹمی ہتھیار ہیں جو اس زمین کو پانچ ہزار مرتبہ برباد کر سکتے ہیں۔ جنگیں اب بچوں کا کھیل نہیں رہی۔ اب ایٹمی اور بائیولوجیکل ہتھیار آگئے ہیں۔

پاکستان اور بھارت ایک ہی برصغیر کا حصہ رہے ہیں۔ ان کی زبان اور کلچر ایک ہیں۔ کروڑوں کی تعداد میں آج بھی مسلمان بھارت میں رہتے ہیں۔ اس لئے بھارت اور پاکستان میں جنگی جنونیت کی فضا کو ختم کیا جائے۔ جنگی جنون سے دونوں ملکوں کے درمیان مسائل حل نہیں ہوں گے۔ مسائل کا حل پر امن مذاکرات ہیں۔ اس لئے دونوں ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتہا پسندوں سے جان چھڑائیں۔ ایک دوسرے کے درمیان کلچرل تعلقات بڑھائیں۔ اس زمین کو جنگ نہیں۔ امن اور محبت کی ضرورت ہے۔

دنیا کے عظیم دانشور اور مصنف نوم چومسکی درست کہتے ہیں کہ اس دنیا کو سب سے بڑا خطرہ نیوکلیئر ہتھیاروں سے ہے۔ پاکستان اور بھارت نیو کلیئر طاقت رکھنے والے ممالک ہیں۔ اس لئے دونوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ نیو کلیئر ہتھیاروں کی تباہی تصور سے بھی زیادہ ہوگی۔ یہ بات انسانیت کو سمجھنے کی ضروت ہے۔ آج درجنوں ملکوں کے پاس سینکروں ہزاروں نیو کلیئر ہتھیار ہیں۔ یہ چل گئے تو سوچیں کیا ہوگا؟ جن ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔

ان کو مل جل کر یہ ہتھیار تلف کر دینے چاہیے۔ ورنہ دنیا خطرات کا شکار رہے گی۔ ایٹمی ہتھیار بنانا کوئی قابل فخر کام نہیں۔ سکینڈینیوین ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں۔ وہ دنیا کے خوشحال ترین ملک ہیں۔ ۔ جنگ تباہی اور بربادی کا نام ہے۔ جنگ سے خوبصورت زمین کے اسمارٹ انسانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ ۔ ۔ وہ زمین جس کے خوبصورت پھول ہیں انسان۔ اس زمین پر ان خوبصورت پھولوں کو مسل دیا جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستانی اور بھارتی حکمران اور شہری ہر روز ایک دوسرے پر ایٹم بم گرانے کی بات کرتے ہیں۔ ۔ ۔ کیا ہیرو شیما اور ناگاساکی کی المناک داستان سننے کے بعد ہمیں ایک دوسرے پر ایٹم بم گرانے کی بات کرنی بھی چاہیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments