رشید مصباح نہیں مرے



” جناب صدر! رشید مصباح کے بارے آپ میں سے کوئی کچھ نہیں جانتا، صرف اور صرف میں جانتا ہوں۔“

جی ہاں! عبدالرشید مصباح اگر زندہ ہوتے تو اپنے ریفرنس کا آغاز انہی الفاظ سے کرتے۔ ۔ ۔

لیکن میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہم کیوں رشید مصباح کا ریفرنس کروا رہے ہیں۔ ؟ کیا وہ واقعی مر گئے ہیں۔ ۔ ۔ ؟

جناب صدر! آپ کی اجازت سے کہنا چاہوں گا کہ ہم مصباح صاحب کے عہد میں ہیں، وہ مرا نہیں۔ ۔ ۔ یقین نہیں آتا تو ابھی میرے ساتھ اٹھیے اور پرانی انار کلی چلیے، آپ کی جگہ جگہ رشید مصباح سے ملاقات ہو گی۔ ۔ ۔ ان کے سگریٹ کے ٹوٹے ٹی سٹال کی ہر میز کے نیچے ملیں گے۔ ۔ ۔ آیئے! جیل روڈ کے فٹ پاتھ پر پٹھان ٹی سٹال آ جائیے! وہاں بھی رشید مصباح موجود ہیں۔ ۔ ۔ چلیے! مزنگ چلتے ہیں۔ ۔ ۔ آیئے! میں آپ کو دکھاوں کہ رشید مصباح کیسے بحث و تکرار میں اپنی بھوک تک بھولے بیٹھے ہیں۔

۔ ۔ پاک ٹی ہاؤس سے لے کر چوپال تک، ایوان اقبال سے لاہور پریس کلب تک۔ ۔ ۔ ہر مقام پر آپ کی رشید مصباح سے ملاقات ہوگی۔ ۔ ۔ سنیے! سنیے! وہ تنقیدی نشست میں کیسے گرج رہا ہے، کیسے حکومتی ٹاؤٹ مضمون نگار کی پینٹی اتار رہا ہے۔ ۔ ۔ وہ دیکھیے! سرکاری آسائشوں سے لدے شاعر کو کیسے مصباح صاحب نے لتاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ۔ ۔ یہ دیکھیے! لیگیوں کے کیسے لتے لیے ہیں مصباح صاحب نے۔ ۔ ۔ اور ملا۔ ۔ ۔ ہاہاہاہاہا۔ ۔ ۔ ملا تو رشید مصباح کو دیکھتے ہی سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ گیا ہے۔

۔ ۔ جناب صدر! کیا آپ کو پتا ہے کہ ملا ذہنیت اگر مصباح صاحب کے سامنے ایک لفظ بھی نہ کہے تو وہ پھر بھی ایسی ذہنیت کو دور سے پہچان لیتے ہیں۔ ۔ ۔ یہ دیکھیے! مسلم ٹاؤن موڑ پر کامریڈ مقصود خالق اور یاسر صاحب کے آفس میں مصباح صاحب بیٹھے سگریٹ کے گہرے کش لے رہے ہیں۔ ۔ ۔ ادھر آیئے! شادمان میں ڈاکٹر عالم خاں کے کمرے میں مصباح موجود ہیں۔ ۔ ۔ آئیے تو۔ ۔ ۔ ریگل چوک میں ریاظ صاحب کے آفس، آپ کی رشید مصباح صاحب سے ملاقات کرواوں۔

۔ ۔ لیجئیے! سن لیں کہ موصوف کیا کہہ رہے ہیں۔ ۔ ۔ کس گھن گرج سے بول رہے ہیں۔ ۔ ۔ کس قدر توانائی ہے ان کے لہجے میں۔ ۔ ۔ کتنی طاقت ہے ان کی آواز میں۔ ۔ ۔ جناب صدر! آپ نے صرف مصباح صاحب کی ادبی تنقید ہی سنی ہے۔ ۔ ۔ ان کو صرف سیاسی بحث کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ ۔ ۔ آیئے! میں آپ کو دکھاؤں کہ وہ فلم پر کیسے بول رہے ہیں۔ ۔ ۔ شوبز کی کتنی تاریخ اور عروج و زوال سے واقف ہیں۔ ۔ ۔ دنیا کا کوئی ایسا فنکار یا گلوکار نہیں جس کا پورا بائیو ڈیٹا مصباح صاحب کے دماغ میں محفوظ نہیں۔

۔ ۔ آپ سب کہتے ہیں کہ وہ بہت کڑوے کسیلے تھے۔ ۔ ۔ نہیں جناب صدر۔ ۔ ۔ وہ مسکراتے بھی ہیں۔ ۔ ۔ محبت بھی کرتے ہیں۔ ۔ ۔ جناب صدر۔ ۔ ۔ آپ نے اخروٹ تو دیکھا ہوگا۔ ؟ اوپر سے سخت اور اندر سے بہت سافٹ۔ لذیذ۔ خوش ذائقہ۔ ۔ ۔ جی ہاں! یہی ہیں رشید مصباح۔ ۔ ۔ اندر سے بہت میٹھے۔ ۔ ۔ ابھی کچھ سال پہلے کی ہی تو بات ہے جب انہیں ایک شاعرہ سے عشق ہوا تھا۔ ۔ ۔ دونوں فون کال پر رو لیا کرتے تھے۔ ۔ ۔ پھر مصباح صاحب سب کو بتاتے تھے کہ آج عشق میں چار آنکھیں بہت روئیں۔

۔ ۔ جناب صدر۔ ۔ ۔ خود ہی بتایئے! کبھی کوئی سخت انسان رویا ہے۔ ؟ کسی پتھر نے کبھی آنسو بہائے ہیں۔ ۔ ۔ ؟ بالکل بھی نہیں۔ ۔ ۔ ہاں! البتہ جن پتھروں سے چشمے پھوٹتے ہیں وہ بہت ٹھنڈے اور میٹھے ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ آیئے! ذرا سوچ کی داشتہ۔ گمشدہ آدمی۔ ۔ ۔ اکاس بیل اور تضادات پڑھ کر دیکھیے کہ رشید مصباح کتنے زندہ ہیں۔ ۔ ۔ جناب صدر! یہ جو کچھ ٹٹ پونجیے کہتے ہیں کہ رشید مصباح دوستوں سے سو پچاس روپیے لیتے تھے۔ ۔ ۔ بہت گھٹیا ہیں، جھوٹ بولتے ہیں۔ ۔ ۔ ابھی کل ہی تو مجھے مصباح صاحب نے پانچ سو روپے یہ کہہ کر زبردستی تھما دیے کہ ”رکھ لے یار صفی۔ ۔ ۔ مینوں پتا اے تیری بائیک وچ پٹرول نہیں، سگریٹ وی نہیں۔ ۔ ۔ اوہ میں جانداں، تینوں اخبار تے ریڈیو والے کئی کئی مہینے سیلری نہیں دیندے۔“

جناب صدر! آپ کے علم میں ہو گا کہ جس کا کوئی مخالف نہیں وہ مردہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ دیکھیے! رشید مصباح کتنے زندہ ہیں کہ ان کے مخالفین اور حاسدین کی لمبی لائن ہے۔ ۔ ۔ کوئی ہے جو ان کی موت کا اعلان کرے۔ ؟ کون ہیں جو ان کے زندہ ہونے کو چیلنج کر سکے۔ ۔ ۔ ؟ جی ہاں! یہاں کوئی نہیں جو مصباح صاحب کو جانتا ہو۔ انہیں صرف میں جانتا ہوں۔ ۔ ۔ خود ہی بتایے! کیا کبھی کوئی بیزار شخص کسی میلے ٹھیلے میں گیا ہے۔ ؟ نہیں نا!

دیکھیے! مصباح صاحب کوئی میلہ نہیں چھوڑتے، کہیں تفریح کا سامان ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، وہ ہر لمحہ ادب، سیاست، کلچر، فن اور آرٹ سے جڑی ہوئی شخصیت ہیں۔ ۔ ۔ یقیناً وہ بدبخت ہیں جو ان سے حسد کرتے ہیں، بے ایمان ہیں جو ان کے ٹیلنٹ اور تحقیق کو چیلنج کرتے ہیں، برے ہیں جو ان کے افسانوں، کہانیوں اور مضامین کو سمجھ نہیں پاتے۔ ۔ ۔ منافق ہیں جو ان کے سامنے ڈرے سہمے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں اور پیٹھ پیچھے برائیاں کرتے ہیں۔ ۔ ۔ بیشک یہ سب جلتے ہیں کہ تمام اچھے ادیب اور شاعر رشید مصباح کے دوست کیوں رہے، لیفٹ اور رائٹ کے بڑے بڑے سیاستدانوں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات کیوں رہے، فن، کلچر اور آرٹ سمیت شوبز سے وابستہ بڑی بڑی شخصیات ان کی گرویدہ کیوں رہیں۔ ۔ ۔ ؟

جناب صدر! میں نہیں جانتا کہ مصباح صاحب کس کامرس کالج اور لاء کالج میں پڑھاتے رہے، میں فقط اتنا کہتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ سے ٹیچر ہیں، ان سے جو جہاں بھی ملا، کچھ نہ کچھ پڑھ، سیکھ کے گیا۔ ۔ ۔ ہے کوئی جو ان کی علمیت اور نالج کو چیلنج کر سکے۔ ؟ ہے کوئی جو ان کی سفاکانہ تنقید کے سامنے ٹھہر سکے۔ ۔ ۔ ؟ بیشک میں نے بڑے بڑے جگادریوں کو ان کے سامنے کانپتے دیکھا ہے۔ ۔ ۔ میں گواہ ہوں کہ جب وہ حلقہ ارباب ذوق یا انجمن ترقی پسند مصنفین کے تنقیدی اجلاس میں وارد ہوتے تو مضامین، کہانیاں اور غزلیں نظمیں تنقید کے لئے پیش کرنے والے پسینے سے شرابور ہو جاتے۔ ۔ ۔ سب کو علم تھا کہ اس بندے نے تنقید میں کسی قسم کی ڈنڈی مارنی ہے اور نہ یہ دیکھنا ہے کہ ادیب یا شاعر سے ان کے کس نوعیت کے تعلقات ہیں۔ ۔ ۔ انہوں نے پوری جرات کے ساتھ وہ سب کہہ دینا ہے جو تخلیق کے اندر موجود ہے۔ ۔ ۔

جناب صدر! کوئی شک نہیں کہ حق اور سچ پر کھڑے کردار کبھی نہیں مرتے۔ ۔ ۔ ہاں! البتہ رشید مصباح کو مارا ہو گا تو شاید اس سوچ نے کہ انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے، ان کے علم و فضل کی قدر کرنے والے کم ہو گئے ہیں، ان کے سیاسی نظریات پر بہت تھوڑے لوگ کھڑے ہیں۔ ۔ ۔ شاید انہیں اس غم نے مارا ہو گا کہ ان کے بیوی بچے ان کے ساتھ نہیں۔ بھری دنیا میں اپنا کوئی گھر نہیں۔ ۔ ۔ ناز نخرے اٹھانے والا کوئی نہیں۔ ۔ ۔ دل بہلانے والے بہت کم ہیں۔

ساتھ دینے والے کہیں نظر نہیں آتے۔ ۔ ۔ پاس بلانے، ساتھ بٹھانے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ۔ ۔ جن موقع پرستوں پر انہوں نے احسانات کیے وہ منظر سے غائب ہیں۔ ۔ ۔ جو کبھی ان کی گاڑی کا دروازہ کھولتے تھے آج چھپ چھپ کر ان کی برائیاں کرتے ہیں۔ ۔ ۔ جناب صدر! یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تنہائی سے بڑا روگ کوئی نہیں۔ رشید مصباح سخت کڑواہٹ کے باوجود تنہا زندگی گزارنے والے نہیں تھے۔ ۔ ۔ انہیں ہر صبح کچھ مصروفیت اور ہر شام کوئی نہ کوئی محفل درکار تھی۔

۔ ۔ یقیناً کورونا وبا نے ان کی مصروفیات کو منجمد کر دیا تھا۔ ۔ ۔ محفلیں اجاڑ دی تھیں۔ ۔ ۔ خود ہی بتایئے! محفلوں کا شوقین تنہائیوں کے موسم میں کیسے زندہ رہتا۔ ۔ ۔ ؟ ہو سکتا ہے، رشید مصباح بھی انہی تنہائیوں کے ہتھے چڑھ گئے ہوں لیکن یاد رکھا جائے کہ جب تک لاہور کی ادبی و سیاسی دنیا میں ایک بھی اکھڑ مزاج، کڑوا اور سچا نظریاتی زندہ ہے۔ ۔ ۔ سمجھ لیجیے کہ رشید مصباح زندہ ہے۔ ۔ ۔ ہاں! البتہ اس دن مصباح صاحب کی موت کا اعلان کر دیجیے گا جب ہم سب کے سب ترقی پسند ”کاسہ لیس“ ہو گئے۔

۔ ۔ چاپلوسی ہماری گھٹی میں اتر آئی، سفاک حکمرانوں کے سامنے بچھنے کے کرتوت عادات میں شامل ہو گئے۔ ۔ ۔ بوٹ پالشی رگوں میں بس گئی۔ ۔ ۔ سرکاری آسائشیں اور آلائشیں حاصل کرنے کا جنون پہلی ترجیح ہو گئی۔ ۔ ۔ یاد رکھیے! تب تک رشید مصباح نہیں مرتا جب تک ایک بھی ترقی پسند مارکسی روئے زمین پر موجود ہے۔ ۔ ۔ جناب صدر! سمجھ لیجے کہ گور پیا کوئی ہور۔ ۔ ۔ مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مردا۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments