کیا ضیا الحق صاحب کو فلسطینیوں کا خون بہانے کی وجہ سے ترقی ملی تھی؟


پاکستان کی تاریخ میں 5 جولائی 1977 کی تاریخ کی ایک خاص اہمیت ہے۔ اس روز پاکستان میں ایک بار پھر مارشل لا لگادیا گیا اور پھر اس نے ختم ہونے کا نام ہی نہ لیا۔ جب بھی 5 جولائی کی تاریخ قریب آتی ہے پاکستان میں بہت سی دلچسپ آرا کا اظہار شروع ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر کیا بھٹو صاحب اور ان کے سیاسی حریف قومی اتحاد کے مذاکرات کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو رہے تھے کہ نہیں؟ مارشل لا کیسے لگایا گیا وغیرہ وغیرہ۔ اور ایسی بحثوں کا جاری رہنا ضروری ہے تاکہ ہم اپنی تاریخ سے سبق حاصل کر سکیں۔

میری رائے میں یہ جائزہ لینے سے پہلے کہ جنرل ضیا الحق صاحب نے مارشل لا کیسے لگایا، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ ہماری فوج کے سربراہ کیسے بنے؟ اور اس سے قبل انہوں نے ترقی کے مراحل کس طرح طے کیے؟ سینکڑوں سینئر افسران میں سے جب ایک شخص ترقی کے زینے طے کرتا ہوا فوج کا سربراہ بنتا ہے تو حکام کو اس میں کچھ نظر آتا ہے تو وہ اسے اس منصب پر فائز کرتے ہیں۔ اس کالم میں یہ جائزہ پیش کیا جائے گا کہ ضیا صاحب نے کیا کارنامے سرانجام دیے تھے؟

جہاں تک ضیا الحق صاحب کے عسکری کیریئر کا تعلق ہے تو اس میں صرف ایک موقع آتا ہے جس میں انہوں نے کوئی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اور یہ مرحلہ ستمبر 1971 میں اردن کی خانہ جنگی ہے۔ جنرل ضیا صاحب اس وقت برگیڈیر تھے اور انہیں اردن میں پاکستانی سفارت خانے میں مقرر کیا گیا تھا۔

اس خانہ جنگی کا پس منظر یہ تھا کہ 1967 کی جنگ میں عرب ممالک کی شکست کے بعد یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطینی تنظیم نے اردن میں اپنے مراکز قائم کر لئے تھے۔ اور یہ وہاں سے اسرائیل پر حملے کرتے تھے۔ فلسطینی تنظیم اور اردن کے شاہی خاندان کے تعلقات نہایت کشیدہ تھے اور وقت کے ساتھ فلسطینی مضبوط ہو رہے تھے۔ جب ستمبر 1970 میں فلسطینی تنظیم نے تین مغربی ائر لائنز کے مسافر جہاز اغوا کر لئے تو اردن کے بادشاہ نے فلسطینیوں کے خلاف فوج کشی کرنے کا فیصلہ کیا اور فلسطینی کیمپوں کو گھیر کر ان پر بمباری شروع کردی۔

فلسطینی فدائین کو سوویت یونین اور ان کے اتحادی شام کی حمایت حاصل تھی۔ اردن کے شاہی خاندان کو امریکہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل تھی۔ شام نے فلسطینیوں کی مدد کے لئے اپنے بکتر بند برگیڈ اردن میں داخل کر دیے۔ اردن کے بادشاہ فلسطینی فدائین کو اردن سے نکالنا چاہتے تھے۔ ہزاروں فلسطینی اس جنگ میں مارے گئے اور آخر 15 جولائی 1971 کو بچے کھچے فدائین کو شام کے راستے لبنان جانے کا راستہ دیا گیا اور یہ خانہ جنگی ختم ہوئی۔ اس بحث سے قطع نظر کہ اس جنگ میں صحیح کون تھا اور غلط کون تھا؟ وہاں پر برگیڈیر ضیا الحق کے سپرد جو کام تھا اس کی رو سے وہ وہاں کی خانہ جنگی میں کسی قسم کی شرکت نہیں کر سکتے تھے۔

اردن میں امریکی ادارے سی آئی اے کے سربراہ جیک او کونل بیان کرتے ہیں کہ ضیا الحق صاحب کا وہاں پر کام صرف اتنا تھا کہ وہ اردن اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون قائم رکھیں اور اپنے افسران کو رپورٹیں بھجوائیں۔ انہوں نے اس بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہاں کی خانہ جنگی میں نہ صرف بھرپور شرکت کی بلکہ اردن کے شاہ حسین کے اہم مشیر کا کردار بھی ادا کیا۔ انہوں نے اردن کے ایک فوجی دستے کی قیادت کرتے ہوئے فلسطینیوں پر حملے کیے۔ اسرائیلی تبصرہ نگار اب تک اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ ساری تاریخ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں اتنے فلسطینی نہیں قتل ہوئے، جتنے اس خانہ جنگی میں اردن کی فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔

شاہ حسین نے ان کے سپرد یہ کام بھی کیا کہ وہ شام کی فوجوں کی پوزیشن کا اندازہ لگائیں۔ اور ضیا الحق صاحب نے انہیں بتایا کہ اب صورت حال بہت خراب ہو چکی ہے اور انہیں اب اس خانہ جنگی میں فضائیہ کو استعمال کرنا چاہیے۔ بہر حال اردن کو کامیابی ملی اور مصنف بروس ریڈل لکھتے ہیں کہ ضیا الحق صاحب کی خدمات کے بغیر فلسطینیوں کو شکست دینا شاید ممکن نہ ہوتا۔ اور اسی وجہ سے شاہ حسین نے بھٹو صاحب سے ضیا الحق صاحب کی ترقی کی سفارش کی۔ اس پر بھٹو صاحب نے انہیں برگیڈیر سے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی۔ ورنہ وہ برگیڈیر کے عہدے پر ہی ریٹائر ہو جاتے۔

(What We Won: America ’s Secret War in Afghanistan، 1979 89 By Bruce Riedel، p 57.58 )

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ اردن کے بادشاہ کی پشت پناہی امریکہ اور اسرائیل کر رہے تھے۔ اس وقت نکسن امریکہ کے صدر اور ہنری کسنجر ان کے مشیر برائے قومی سلامتی تھے۔ ان کے مشوروں اور میٹنگز کا ریکارڈ اب منظر عام پر آ چکا ہے۔ اردن کے شاہ حسین کی طرف سے جو بھی کارروائی ہو رہی تھی وہ امریکہ کے مشوروں اور آشیر باد سے ہو رہی تھی۔ اور یہ منصوبے بن چکے تھے کہ اگر ضرورت پڑی تو امریکہ کی بری فوج اور امریکہ اور اسرائیل کی فضائیہ شاہ حسین کی مدد کو پہنچیں گے۔

اس بنا پر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس جنگ میں ضیا الحق صاحب کی شمولیت پاکستانی حکومت کی اجازت سے ہو یا نہ ہو لیکن امریکہ کی اجازت سے ضرور تھی۔ اور یہ بھی بعید نہیں کہ شاہ حسین کی سفارش بھی امریکہ کی آشیر باد سے ہو کیونکہ ضیا الحق صاحب اس اہم جنگ میں امریکہ کے اتحادیوں کے گرانقدر خدمات سرانجام دے چکے تھے۔

سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم بھٹو کوئی نا تجربہ کار شخص نہیں تھے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ صرف شاہ حسین کی سفارش کی وجہ سے ہی ضیا صاحب کو ترقی دیتے گئے ہوں۔ انہوں نے اپنا برا بھلا بھی دیکھا ہو گا۔ ایک وجہ تو یہ بیان کی جاتی ہے کہ بھٹو صاحب نے انہیں اس لئے انہیں آٹھ سینئر جرنیلوں پر ترجیح دے کر فوج کا سربراہ بنایا تھا کیونکہ انہوں نے ضیا صاحب کی فدویانہ شخصیت کی بنا پر اندازہ لگایا تھا کہ وہ ان کے لئے خطرہ نہیں بن سکتے۔

گو کہ ضیا صاحب کو دو ممالک کے درمیان جنگ میں جوہر دکھانے کا تو موقع نہیں ملا تھا لیکن ضیا الحق صاحب نے یہ ثابت کیا تھا کہ وہ حکومت کے کہنے پر خانہ جنگی میں باغیوں کو کچلنے کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں بھی بغاوت کا ماحول پیدا ہو چکا تھا۔ اور اپنی کتاب If I Am Assassinated میں لکھتے ہیں کہ فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ایک مرتبہ ضیا صاحب بہت خوشی کے عالم میں ان کے پاس آئے تھے کہ اس شورش کے فلاں لیڈر کو مار دیا گیا ہے۔

شاید بھٹو صاحب کے ذہن میں یہ ہو کہ ملک میں جب بھی ان کے خلاف شورش یا بغاوت ہو گی تو ضیا صاحب ان کے لئے ویسی ہی خدمات سرانجام دے سکتے ہیں جیسا کہ انہوں نے شاہ حسین کے لئے سرانجام دی تھیں۔ یہ فیصلہ بہر حال کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں تھا۔ جو شخص اپنی ترقی کے لئے اردن میں تمام اصول اور ضابطے توڑ سکتا ہے وہ شخص یہی کام پاکستان میں بھی سرانجام دے سکتا ہے۔ خاص طور پر سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد یہ ضروری تھا کہ فوج کی قیادت ایسے جنرل کے ہاتھ میں جو پیشہ وارانہ بنیادوں پر فوج کو مضبوط ادارہ بنا سکے۔ ضیا صاحب نے اپنے ہم وطنوں کو کچلنے کا کارنامہ تو دس سال سے زائد عرصہ سرانجام دیا لیکن اس سے قبل انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ بھٹو صاحب کو اقتدار سے ہٹا کر خود اقتدار پر قبضہ کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments