مردہ بیٹی سے طلاق یافتہ بیٹی بہتر ہے


افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم پدرسری معاشرے کے باسی ہیں۔ یہاں پہ مردوں کی جانب سے عورتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم، ان کے غیرت کے نام پہ قتل، کاری اور ونی جیسی رسمیں اور صرف روٹی گول نہ پکا سکنے پہ قتل جیسی حرکتیں عام ہیں۔ عورتوں کی جانب سے مردوں کے ساتھ ان سب واقعات میں سے سوائے قتل کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ وہ بھی بہت کم سنا ہو گا۔ آج تک نہ سنا نہ پڑھا کہ کسی مرد کا قتل غیرت کے نام پہ ہوا ہو۔ جائیداد بچانے کے لیے کسی مرد کی شادی خاندان کی کسی بچی، کسی بزرگ عورت حتی کہ قرآن تک سے کی گئی ہو۔

صدیوں سے قائم یہ پدرسری معاشرہ عورت کو بس یہ باور کرانے میں کامیاب چلا آ رہا ہے کہ عورت تو ناقص العقل ہے۔ عورت کا کام صرف یہ ہے کہ وہ شادی سے پہلے والدین اور بہن بھائیوں کی خدمت کرے۔ اور پھر والدین کی ہی مرضی سے اگلے گھر جا کے اپنے شوہر اور ان کے والدین کی خدمت کرے۔ پھر بچے پیدا کرے۔ اور ان کی تربیت و پرورش کر کے ان کی خدمت میں حاضر رہے۔ اس سارے عمل میں عورت کو کہاں کا انسان سمجھا جاتا ہے۔ کتنے فیصد خواتین سے ان کی تعلیم و شادی سے متعلق معاملات میں ان کی رائے لی جاتی ہے۔ عمومی طور پہ ہمارے معاشرے کا مرد عورت کی شلوار کا محافظ بنا بیٹھا ہے۔ (معذرت چاہوں گی مگر یہ سچ ہے ) ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی ماں بہن بیٹی اور بیوی اس کی مرضی سے چلے۔ کیونکہ عورت کو جنس سے آگے سمجھنے کی تو کوشش ہی نہیں کی جاتی۔

ہمارے یہاں بچپن سے ہی پیٹیوں میں بچیوں کا جہیز اکٹھا کیا جاتا ہے۔ بچی جب چھوٹی ہوتی ہے اسے یہ ذہن نشین کروایا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ہے تو تمہارا۔ لیکن اسے استعمال تم نے اپنے گھر جا کے کرنا ہے۔ اب ننھا دماغ اپنے گھر کے چکر میں کبھی الجھتا ہے کبھی سلجھتا ہے۔ ہوش سنبھالنے پہ اپنے آپ ایک شرم اور حیا کی سرخی اپنے گھر جانے کے نام پہ اس معصوم کے گالوں پہ پھیل جاتی ہے۔ یہی وہ ٹین ایج ہوتی ہے جب ایک لڑکی اپنے گھر سے جڑے خواب سجانے لگتی ہے۔

چونکہ اسے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا سب کچھ تمہارے شوہر کا ہے۔ تمہارے سب بناؤ سنگھار تمہارے شوہر کے لیے ہونے چاہیے۔ تمہاری ہر بات ہر چیز کا مالک و مختار بس تمہارا شوہر ہے۔ اب ایسے میں ملکیت کا تصور اس لڑکی میں پیدا کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جس اگلے گھر وہ اپنی بچی کو بھیجیں گے ان کے گھر کے قواعد و ضوابط کیا ہیں۔ وہ تو بس شوہر کو مالک بنانے پہ تلے بیٹھے ہوتے ہیں۔

اسی ملکیتی تصور کے ساتھ جب لڑکی بیاہ کے شوہر کے گھر آتی ہے۔ تو اس کی سوچ اس بات پہ پختہ ہو چکی ہوتی ہے کہ اس کی زندگی میں آنے والے مرد پہ صرف اسی کا حق ہے۔ بس یہیں سے فساد شروع ہوتے ہیں۔ پہلے ساس بہو کی لڑائیاں اور پھر مرد کی جاسوسی۔ ساس چاہتی ہے کہ اس کا بیٹا بس اس کی سنے۔ بہو چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اس کی سنے۔ میں یہاں پہ یہ مارجن بہو کو دینا چاہتی ہوں کہ ایک لڑکی جو اپنا گھر بار والدین رشتے سب چھوڑ کے بیوی بنی ہے تو اسے کم سے کم اتنا تو حق ملنا چاہیے کہ اس کا شوہر اس کی بات سنے۔ اسے عزت و احترام دے۔ والدین کی خدمت اس کی اولاد پہ فرض ہو سکتی ہے۔ بہو یا داماد پہ نہیں۔ اور اگر کوئی کرتا ہے تو اسے فار گرانٹڈ نہ لیا جائے۔ خیر مسئلہ وہاں سے بڑھتا ہے جب مرد کی جانب سے بیوی کے ساتھ زیادتی شروع ہوتی ہے۔ میجارٹی سسرال اور شوہر کے ہاتھوں پٹتی بھی ہیں اور جان سے بھی جاتی ہیں۔

اب یہاں پہ عورت چونکہ مرد پہ ڈی پینڈنٹ ہے۔ اور والدین کی جانب سے یہی سکھایا گیا ہے کہ شوہر جو چاہے کر سکتا ہے۔ تو وہ دو چار دن رو کے لڑ جھگڑ کے پھر واپس اسی مرد کے ساتھ رہنے پہ مجبور ہوتی ہے۔ اس جو چاہے میں مار پیٹ بھی شامل ہوتی ہے۔ یہ بھی لڑکیوں کو بتا دیا جاتا ہے۔ مارنے پہ کوئی قدغن نہیں اس پہ یہی کہا جاتا ہے کہ ہاں تم نے ہی کچھ کیا ہو گا۔ زبان چلائی ہو گی۔ تو وہ تو مرد ہے۔ عورت کی کیا حیثیت کہ وہ مرد کے سامنے چوں بھی کر دے۔

اس سب میں مرد کے دوسری لڑکیوں سے تعلقات بھی ہیں۔ کیونکہ وہ مرد ہے تو اسے حق ہے کہ وہ ایکسٹرا میریٹل افئیرز چلائے۔ عورت دودھ والے سے ہنس کے بات کر لے تو بدچلن مشہور ہو جاتی ہے۔ اب ان سب چیزوں میں بچے بھی ہو جاتے ہیں۔ تو عورت کو کمپرومائز کرنے کی تلقین بڑھ جاتی ہے۔ کتنے فیصد عورتیں خودمختار ہیں۔ کتنے فیصد اپنی زندگی کے فیصلے خود لینے میں آزاد ہیں۔ کتنے فیصد اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہیں۔ اور کتنے فیصد طلاق یا خلع لے کر سکون کی زندگی گزارتی ہیں۔ خلع لینے والی عورت کے ساتھ یہ معاشرہ جو سلوک کرتا ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے۔ ہم سب جانتے ہیں۔ مگر ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھتے ہیں۔ کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بھئی سب ٹھیک خودبخود نہیں ہو گا۔ اسے کرنا پڑے گا۔ اور ہم سب نے ہی مل کے کرنا ہے۔

سوشل ایکٹیوسٹ اور بلاگر کا مبینہ طور پر اپنی بیوی کو قتل کر دینا کل سے سوشل میڈیا پہ بحث بنا ہوا ہے۔ اس مرد نے مبینہ طور پر قتل کیا۔ اس نے ظلم کیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب چار سال سے وہ لڑکی مار کھا کے بھی اسی شخص کے ساتھ رہنے پہ مجبور تھی تو اس کے پیچھے کیا وجہ ہو گی۔ کیوں ناراضگی کے باوجود وہ بندہ اسے منا کے گھر لے آتا تھا۔ اور اس لڑکی کے والدین بھیج دیتے تھے۔ میرے نزدیک مبینہ قاتل سلمان کے ساتھ ساتھ اس لڑکی کے والدین بہن بھائی اور یہ معاشرہ بھی ہے۔

وہ بدنصیب ایک بچی کی ماں بھی تھی۔ اب بیٹا ہوتا تو سہارا بنتا۔ بیٹی کا بوجھ کون اٹھاتا۔ یہ ہے اس سماج کی سوچ۔ جس کی وجہ سے نہ جانے کتنی صدف مار دی گئیں۔ خود مر گئیں۔ یا جیتے جی ہر روز مرتی ہیں۔ جن کے قاتل بھی کھلے عام گھومتے ہیں۔ اور کوئی پکڑنے والا بھی نہیں۔ اپنی بچیوں کو اعتماد دیں۔ پیٹیوں میں جہیز بھرنے کی بجائے ان کو تعلیم و شعور دیں۔ ان کو ہنر مند بنائیں۔ اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے میں مدد دیں۔ ان کو اس قابل بنائیں کہ وہ اپنی تین وقت کی روٹی کے لیے کسی باپ بھائی شوہر کی محتاج نہ ہوں۔

بچیوں کو ہاتھ پیر ہونے کے باوجود معذوری مت دیں۔ کہ وہ ایک ایک پیسے کے لیے شوہر کی شکل دیکھتی رہیں۔ اور حد تو یہ ہے کہ شکوہ بھی مت کریں۔ والدین بیٹیوں کو ڈولی میں بٹھاتے وقت جنازے میں واپس آنے کی تلقین چھوڑ دیں۔ ایک طلاق یافتہ زندہ لڑکی ایک تشدد سے مار دی گئی لاش سے سو گنا بہتر ہے۔ یہ معاشرہ اور وہ لوگ جن کی وجہ سے آپ اپنی ہی پیدا کی ہوئی اولاد کی زندگی داو پہ لگا دیتے ہیں۔ ان کو اپنی زندگیوں سے نکال باہر کریں۔

سب مرد انیس بیس کے فرق سے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ جو الگ ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے۔ ویسے ہی تمام عورتیں مظلوم نہیں ہوتیں ظالم بھی ہوتی ہیں۔ ان کی تعداد اونٹ کے منہ میں زیرہ سمجھ لیں۔ میجارٹی خواتین مظلوم ہیں۔ اپنے بیٹوں کی تربیت کریں کہ وہ عورت کو جنس سے باہر نکل کے انسان سمجھے۔ اپنی بیٹیوں کو سکھائیں کہ وہ مرد کے برابر انسان ہیں۔ اور جو چاہے کر سکتی ہیں۔ یقین مانیں آدھے مسائل حل ہو جائیں گے۔
طلاق و خلع یافتہ عورت کو جینے دیں۔ خوش رہیں۔ خوش رہنے دیں۔ ہمیشہ کی طرح درخواست ہے کہ عورت کو انسان سمجھیں، ناقص العقل ملکیتی چیز نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments