ہیروشیما: اس دشت میں اک شہر تھا


ہیروشیما بہت خوبصورت شہر ہے۔ عمارتیں شاندار اور سڑکیں جاپانیوں کے دل کی طرح کشادہ ہیں۔ شہر دریائے اوتا کے ڈیلٹا میں واقع ہے جس سے سات شاخیں نکلتی ہیں جو اس شہر کے اندر سے گزرتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے چھ جزیرے بناتی ہوئی اور ان جزیروں پر ہیروشیما کا شہر آباد ہے۔ دریاؤں اور ندی نالوں کی وجہ سے اس شہر کو بے شمار پلوں کے ساتھ آپس میں ملایا گیا ہے۔ سات دریاؤں اور چھ جزیروں پر مشتمل یہ شہر کتنا خوبصورت ہو گا اس کا اندازہ آپ آسانی سے لگا سکتے ہیں جبکہ اس کے شمال میں گوکو کا پہاڑی سلسلہ ہے اور اس کے دامن سے نکلتا ہوا وہی دریائے اوتا ہے جس کی شاخیں اس شہر بے مثال میں شریانوں کی طرح بہتی ہیں یہ شہر جاپانی پنکھے کی شکل کا بنا ہوا ہے ڈیلٹا کے تین اطراف میں سرسزوشاداب پہاڑ اور سونا اگلتی زمین ہے جہاں جاپانیوں نے محنت شاقہ اور بے انت محبت سے اس شہر کی تعمیر نو کی ہے۔ وہاں قدرت کی فیاضی نے بھی اطراف و کنار، خوبصورت ماحول اور فطرت کی رعنائیوں سے اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے ہیں۔

شہر میں بے حد رونق ہے لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں اگرچہ گہماگہمی یہاں بھی کافی ہے لیکن ٹوکیو اور اوسکا کی نسبت یہاں شانتی زیادہ ہے اور اتنی بھاگ دوڑ نہیں ہے کوئی دیوار شکستہ نہیں، کوئی مکان سنسان نہیں، کوئی علاقہ آفت زدہ نہیں جس کو دیکھ کر آدمی ٹھہر جائے اور دیکھنا شروع کر دے کہ اس شہر پر ایٹمی تباہ کاری نے کس قدر ہولناک اثرات چھوڑے ہیں اور کوئی بھی چیز اس امر کی غمازی نہیں کرتی تھی۔ شہر کا ایک ایک چپہ، ایک ایک کونا نئی زندگی اور نئے ولولوں کا غماز تھا مجھے کہا گیا اگر آپ نے کھنڈرات اور تباہی کے آثار دیکھنے ہیں تو امن پارک میں جائیں جہاں ایک چھوٹی سی شکستہ دیوار اور ٹوٹا ہوا گنبد آپ کو دکھائی دے گا اور صرف یہی ایک ایسا نشان ہے جو تباہ کاریوں کی یاد دلانے کے لئے باقی رکھا گیا ہے جس سے آپ کچھ نہ کچھ اندازہ کر سکیں گے لیکن جب میں اس کے قریب گیا تو یہ اتنی بڑی نشانی نہیں تھی کہ جس سے میں اس ہلاکت خیز طوفان کا اندازہ کر سکتا جس نے اس شہر کو برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ ۔

دوستوں کے منع کرنے کے باوجود میں ہیروشیما میں دو روز پہلے آ گیا تھا کیونکہ تاریخ کا یہ اتنا بڑا سانحہ تھا کہ اس تجربے کو میں دوستوں کے ہمراہ تفریحی انداز میں ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ہیروشیما پہنچ کر آج صبح ہوتے ہی شہر دیکھنے نکلا تھا جہاں زندگی اپنی پوری بوقلمونی، خوبصورتی اور رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر تھی۔ اس میں جوانی بھی تھی، رعنائی بھی، حسن وجمال بھی، محبت کا جذبہ بھی، زندگی کی جو ساری ہما ہمی ہوتی ہے اس میں موجود تھی میں امن پارک میں کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا میرے اردگرد زندگی کا وفور اس قدر زیادہ تھا کہ کہیں سے احساس نہیں ہوتا تھا کہ یہ شہر کبھی کسی سانحے سے گزرا ہو۔

6 اگست 1945 بھی اسی طرح کا دن تھا صبح بہت پرسکون تھی مطلع صاف تھا کہ صبح سوا آٹھ بجے دو امریکی B۔ 29 طیارے شہر کے اوپر پہنچے۔ ان میں سے ایک طیارہ جدا ہو کر شہر کے مرکزی حصے کے اوپر پہنچا اور تقریباً بیس ہزار فٹ کی بلندی سے ایٹم بم گرایا جو دھماکے کے ساتھ فضا میں پھٹ گیا۔ انتہائی شدید گرمی کی لہروں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جھٹکوں نے فضا اور زمین کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس وقت اس کے نیچے ہر چیز تباہ و برباد ہو گئی عمارتیں دھماکے سے اڑ گئیں ان کے ٹکڑے چاروں طرف پھیل گئے یہ اتنا بڑا دھماکہ تھا کہ انسانیت نے اس سے قبل نہیں سنا تھا اس کے بعد گرمی کی شعاعیں اور تابکاری ذرات بارش کی طرح زمین پر برسنے لگے۔

کچھ دیر بعد سیاہ بارش نے آلیا اور یہ ہلاکت خیز بارش چھ گھنٹوں تک برستی رہی اس کے نتیجے میں گرمی کی شدت سے کنکریٹ عمارتیں اور ہر وہ چیز جو زمین سے اونچی تھی زمین پر ڈھیر ہو گئی عمارتیں، مکانات، درخت، پانی کے ٹینک، ٹاور، سکول، ریلوے سٹیشن اور پل سب کچھ زمین بوس ہو گیا یا پھر گرم شعاعوں میں جل کر راکھ ہو گیا۔ جیتے جاگتے انسان اس کی لپیٹ میں آ گئے ان کے کپڑے نہ جانے کدھر غائب ہو گئے جیسے انہوں نے کبھی پہنے ہی نہ ہوں صرف کپڑوں کے پرنٹ ان کے جسموں پر کندہ ہو گئے ہزاروں انسانوں کی کھال تن سے جدا ہو گئی ان کی پیٹھ پر سے گوشت لٹک رہا تھا ہر طرف شہر میں آگ لگی ہوئی تھی اور ایسے دکھائی دیتا تھا کہ جیسے شعلوں کا سمندر ہے جس کی موجیں بڑھتی چلی آ رہی ہیں اور ہر چیز کو بھسم کر تی ہوئی کسی آسیب کی طرح آگے بڑھ رہی ہیں۔

رات گئے تک شعلے آسمان کے کناروں تک بلند ہوتے رہے اور آگ ایک ہفتہ تک جلتی اور سلگتی رہی۔ جب دھماکہ ہوا تو عمارتیں لرز گئیں اور اس کی گونج میں ڈھیر ہو گئیں لوگوں کو وہاں سے نکلنے اور بھاگنے کا موقع ہی نہ ملا۔ لوگ ان گرتے مکانوں اور جلتے سلگتے گھروں میں پھنس گئے دو لاکھ سے زائد افراد موت کا لقمہ بن گئے باقی ہزاروں زخمی اور تابکاری کے متاثرین اگلے کئی سالوں میں موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد جان سے جاتے رہے۔

پیاس سے عورتیں، مرد ننگے جسموں سے پانی پانی پکارتے مارے مارے پھرتے رہے۔ نہ گھر رہا، نہ سر چھپانے کی جگہ، ان پر زمین تنگ ہو گئی اور آسمان قہر آلود، ایک جیتا جاگتا جہنم جو دانتے کے جہنم Infernoسے زیادہ دہشتناک اور تکلیف دہ تھا ان کی حالت زندہ لاشوں سے بھی ڈراؤنی تھی جسم زخم زخم تھے اور زخموں کا علاج نہیں تھا پینے کو پانی نہیں تھا اور وہ پانی پانی پکارتے تھے اور پانی دینے والا کوئی نہ تھا۔ ہر شخص اپنی جان کو بچانے کے لیے سرگرداں تھا، مائیں اپنے بچوں کو تلاش کرتی پھرتی تھیں اور اولاد والدین کے لیے پریشان تھی گرمی کی شعاعوں نے مکانات کو اور زخمیوں کو تباہ برباد کر دیا تھا اور صورتحال زیادہ پریشان کن کردی تھی ان شعاعوں سے چہروں اور جسم کی کھال ادھڑ گئی لوگ حیوانوں سے زیادہ بھوت دکھائی دیتے تھے علاج کرنے کے لیے ڈاکٹر نہیں ملتے تھے ان کی اکثریت تو خود اس طوفان کا شکار ہو گئی تھی کچھ دیر بعد ان انسانوں کے بال گرنے لگے اور بیشمار ان دیکھی بیماریاں پھوٹ پڑیں کئی لوگ جو گرم شعاعوں سے بچ گئے وہ تابکاری کے اثرات سے موت کا نوالہ بن گئے۔

میں میوزیم کے ساتھ برج کے قریب بیٹھا تھا اور دریا کا پانی اپنی روانی سے بہہ رہا تھا میں سوچ رہا تھا کہ اگرچہ دریائے اوتا کے ان پانیوں نے اور اس کے ڈیلٹا نے اس علاقے کو زرخیز بنا دیا ہے اور شہر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے ہیں لیکن یہاں کے باشندوں پر وہ وقت بھی آیا کہ اس شہر سے گزرتے بے شمار ندی نالوں اور بہتے پانیوں کے باوجود جب ہزاروں لوگ پیاس کی شدت سے پانی پانی پکارتے پھر رہے تھے تو یہ دریا اور اس کی ان شاخوں اور ندی نالوں سے ایک بوند پینے کو نہ مل سکی۔ جو آگ کی ہولناکیوں سے خوفزدہ ہو کر اس کے ٹھنڈے پانیوں میں کود جاتے تھے ان کو معلوم نہیں تھا کہ ان کا پانی ابل رہا ہی اور وہ ان کی لہروں کی نظر ہو جاتے تھے۔

یہ ایک ایسا عذاب تھا جہاں نہ انسان کو آگ سے عافیت میسر تھی نہ پانی سکون دے رہا تھا اس علاقے کی تمام خوبصورتی اور زرخیزی، پہاڑ، دریا، ندی نالے، آگ انسان کی اپنی بنائی ہوئی چیزیں اور ہر مظہرقدرت انسان کو ایک مہیب عفریت کی طرح نگل رہا تھا مکان جو سر چھپانے کا سہارا ہوتے ہیں ان پر ٹوٹ پڑے تھے آگ نے ان کے جسموں کو اور ان کی روحوں کو جلا دیا تھا پانی کی لہریں انہیں نگل رہی تھیں بارش آندھی طوفان دریا سب ان کی زندگیوں سے کھیل رہے تھے۔

میں اس وقت انسانوں کی ایک اجتماعی قبر پر کھڑا تھا جہاں انسانوں کے جسم تو آگ میں جل گئے تھے اور ان کی بے شمار کھوپڑیاں اور ہڈیاں اکٹھی کر کے دفن کی گئی تھیں یہ وہ انسان تھے جو انتہائی دکھ جھیل کر موت کا شکار ہو ئے تھے جنہیں مرتے ہوئے اپنوں کا ایک بول اور ہمدردی کا ایک لفظ بھی نصیب نہ ہوا اور وہ اپنے پیچھے ماں باپ بیٹے بھائی اور بہنیں سوگوار چھوڑ گئے میں یہاں کھڑا ان کی دردناک چیخیں سن رہا تھا اور میرے ساتھ کئی خواتین اور مرد کھڑے آنسو بہا رہے تھے اس سے آگے بڑھیں تو ایٹم بم سے تباہ ہونے والے کسی نا معلوم شخص کا مقبرہ ہے کسی کو معلوم نہیں کہ کون سی قبر، مقبرہ، یادگار کس شخص کی ہے لوگ خاموشی سے آتے ہیں اور ان یادگاروں کے سامنے سر جھکائے دوزانو دعائیں مانگتے ہیں۔ میرے سامنے ایک خاتون چلتے ہوئے آئی دھیرے دھیرے قدم رکھتی آئی اور اس مقبرے کے سامنے دعا مانگنے لگی دعا کے بعد اس نے اس پر پھول چڑھائے اور اپنے پیاروں کی روح کو یاد کیا اور خاموشی سیاس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے

ساتھ ہی ایک مشہور یادگار تھی جو اپنوں سے بچھڑ جانے والی روحوں کی یاد میں تعمیر کی گئی تھی یہاں لوگ دوسرے علاقوں اور پری فیکچر سے آتے ہیں اور اپنے خاندان کے ساتھ حاضر ہو کر دعا مانگتے ہیں اس مقبرے کے پیچھے میموریل سروس منعقد کی جاتی ہے جس میں مرنے والوں کے رشتہ دار، دوست، سائنسدان ادیب اور شہری بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں جہاں وہ ان کی روحوں کے سکون اور ان کی شانتی کے لیے دعائیں مانگتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ دنیا میں ایسے عذاب کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے ہیروشیما کے تجربے کو ذہن نشین کرانے کے لیے ایٹم بم میوزیم قائم کیا گیا ہے تاکہ دنیا اور دنیا والے اپنے اس مکروہ اور قبیح فعل کو بھول نہ جائیں۔

میوزیم اچھا خاصا بڑا ہے اس میں بڑے بڑے ہال ہیں ایٹم بم گرانے سے لے کر ایٹم کے تابکاری اثرات سے مرنے والوں تک کی تمام معلومات ان میں موجود ہیں دیواروں پر بڑی بڑی تصویریں موجود ہیں جس میں تمام ہولناک مناظر کا احاطہ کیا گیا ہے اور باقاعدہ اس میں مختلف آوازوں کی گونج بھی موجود ہے۔ آپ چلتے جائیں ساتھ ساتھ ان تصاویر اور آوازوں کے بارے کمنٹری جاری رہتی ہے انہیں آوازوں میں ہم تقریباً 617 فٹ کی بلندی پر پھٹنے والے بم کی آواز سن سکتے ہیں انہیں آوازوں میں B۔

29 طیارے کی گڑگڑاہٹ کی آواز بھی سنائی دیتی ہے جو تانیان کے جزیرے سے پرواز کر کے ساڑھے چھ گھنٹے کے بعد ہیروشیما کا چکر لگا رہا تھا انہیں آوازوں میں پائلٹ کرنل پال کی آواز بھی سن سکتے ہیں۔ دھماکے کے بعد فائربریگیڈ گاڑیوں، لوگوں کی چیخ و پکار، عمارتوں کے گرنے، آگ کے عفریت کے پھیلنے کی آوازیں بھی محفوظ ہیں اس وقت جس طرح کا شہر میں کہرام مچا تھا اس کی تمام آوازیں محفوظ ہیں۔

میوزیم کی انہیں دیواروں پر گرتے ہوئے مکانات، بڑے بڑے لوہے کے گارڈر، ان کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے دروازے، کھڑکیاں، بچوں کے کھلونے، کھیلوں کا سامان، گاڑیاں، ہتھ گاڑیاں، سائیکل، جلے بھنے انسان، حد نظر تک زمین بوس عمارتیں اور مکانات کی تصاویر دکھائی دیتی ہیں اور پھر ان کو دیکھتے دیکھتے انسان پر وحشت طاری ہو جاتی ہے۔ عجائب گھر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں سے ایک حصہ still photographs اور ماڈلز کا ہے اور دوسرا ایک حصہ سینما گھر ہے۔

اس میں ہر وقت فلمیں چل رہی ہوتی ہیں کیونکہ میوزیم میں ہر وقت لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان فلموں میں جہاں بم گرانے سے قبل ہیروشیما اور اس کے اطراف و کنار کی خوبصورتی دکھائی جاتی ہے وہیں بم گرانے کے بعد ہیروشیما کی تباہی کے ہولناک مناظر بھی دکھائے جاتے ہیں اور جہاں نہ صرف لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے بلکہ تابکاری اثرات سے leukemia کینسر کے مریضوں کے علاج اور ان کی تکلیف دہ زندگی کے بارے بھی روشنی ڈالی جاتی ہے کہ زندہ ہوتے ہوئے بھی ان کی حالت موت سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اس شہر میں موجود دو ہزار کے قریب ڈاکٹروں اور نرسوں کی اکثریت لقمہ اجل بن گئی صرف چند ڈاکٹر بچ گئے وہ بھی سراسیمگی اور خوفزدگی کا شکار ہو کر بھوت بنے ہوئے تھے۔

دو دن بعد ہمارے تمام ساتھی بھی آ گئے ہم نے ان کے ساتھ تین دن مزید گزارے جس میں ہیروشیما شہر کے علاوہ اس کا قرب و جوار بھی دیکھا اور تینوں دن ہماری ضیافتیں بھی ہوئیں آخری دن میزبانوں کا شکریہ ادا کرنے کی ذمہ واری میری تھی میں نے ایک اختراع کی کہ اپنے ٹیچر مسٹر ہاگی ہارا اور کورس میٹ سیکو سن سے اپنی تقریر جاپانی زبان میں منتقل کرائی سیکوسن کہنے لگی تقریر تو ہم نے منتقل کر دی ہے لیکن جو آپ کے جذبات کا سونامی تھا وہ منتقل نہیں کر سکے

وتکشی تاچی وو
تو شونی اومانے کی اتا داکی مشتہ

کوتو وو اجی کیں کنشو انگ اچی دو او۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”آج کا تجربہ انتہائی اندوہناک ہے جس کا دکھ ہمارے ذہنوں سے کبھی نہیں مٹ سکے گا لیکن جب سے ہم آپ کے ملک میں آئے ہیں اور جہاں جہاں گئے ہیں ہماری جس طرح پذیرائی ہوئی ہے ہم اس کو دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتے ہیں آپ لوگوں نے قدم قدم پہ ہمارے ساتھ جس خلوص اور محبت بھرے جذبات کا اظہار کیا ہر روز دعوت اور دعوتوں میں ہمارا سواگت جس طرح کیا اس سے لگتا تھا جیسے ہم خاکی انسان نہ ہوں، اوتار ہوں۔

وہ بے شک ٹوکیو ہو، نکو شرائن ہوں، اوساکا ہو، ٹوچی گی ہو، ہیروشیما ہو، ہم آپ کی محبت اور اس سے پھوٹنے والے جذبات کی شدت کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ اور حیران کن بات یہ ہے کہ صرف آپ لوگوں نے ہماری عزت افزائی نہیں کی بلکہ جاپان کی دھرتی اور جاپان کے آسمان نے بھی دل کھول کر ہمارا استقبال کیا۔ گھنگھور گھٹائیں، چاروں اور پھیلے بادل، رم جھم بارشیں، دل کو سکون دینے والی ٹھنڈی اور خنک ہوائیں کیا آسمان کی محبت کا ثبوت نہیں تھیں اور دھرتی نے تو قدم قدم پر ہماری محبت میں اپنی آغوش وا کر دی ہر طرف پھول ہی پھول جہاں تک نظر جائے خوشنما مناظر، ساکورا۔ چیری کے شگوفے، سبزہ اشجار، لہلہاتے کھیت، کہسار مرغزار یہ ایسی محبت تھی جس کا نہ صرف انسانوں نے بلکہ فطرت نے بھی بھرپور اظہار کیا۔ ہم محبت کی اس قدر وارفتگی کو کیسے بھول سکیں گے۔ آپ کی محبتوں کا بے حد شکریہ۔“ آری گا تو گزائی مشتہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments