بیٹی کی شادی اور ٹوٹی ہوئی چھت


ساجدہ کا شوہر جو کہ ایک دیہاڑی دار مزدور تھا شادی کے تقریباً بیس سال بعد ہی کام کے دوران ایک حادثے میں فوت ہو گیا۔ چار بیٹیوں کی ماں ہونے کے ناتے ساجدہ پر ذمہ داری بھی سخت تھی اور آزمائش بھی کڑی۔ مگر اس امتحان کی گھڑی میں بھی مضبوط اعصاب کی عورت نے ہمت نہ ہاری۔ گھروں میں برتن مانجھ کر تو کبھی کپڑوں کی سلائی کا کام کر کے جو بھی ہو سکا کیا۔ باپ کا سایہ اٹھنے کے بعد انہیں ممتا کی چھاؤں میں پالتی رہی۔

اب بیٹیوں کا قد گھر کی دیوار سے اونچا دکھائی دینے لگا۔ ساجدہ کو ان کی شادی کی فکر ستانے لگی۔ ایک دن وہ چارپائی پر لیٹی اسی فکر میں چھت پہ ٹکٹکی باندھے سوچ رہی تھی کہ اس کی بڑی بیٹی زینت نے کہا ”اماں چھت کی دراڑ میں کیا تلاش کر رہی ہے“ ۔

”کچھ نہیں بیٹا سوچ رہی تھی باجی آسیہ سے قرضے کی بات کروں تیری شادی کے لیے“
”اماں ابھی جو ضروری کام ہیں وہ تو کر لے گھر کی مرمت کروا پہلے“

یہ کہہ کر زینت کمرے سے باہر چلی گئی اور ساجدہ دوبارہ چھت کی جانب دیکھتے ہوئے خودکلامی کرتے کہنے لگی ”کیا بیٹی کی شادی سے ضروری کام بھی ہوتا ہے کوئی“

ساجدہ نے جیسے تیسے پیسے جوڑ جمع کر کے بیٹیوں کی شادی کے انتظامات بخوبی انجام دیے تین بیٹیوں کی ذمہ داری جب سر سے اتری تو اب چوتھی اور آخری بیٹی کی شادی کی فکر کھانے لگی۔
زینت ایک دن جب ماں سے ملنے آئی تو ساجدہ ٹھیک سے گھر کا کام بھی نہیں کر پا رہی تھی کمزوری اتنی تھی کہ ہاتھوں کی کپکپاہٹ سے کبھی کوئی چیز ہاتھ سے گر جاتی تو کبھی کوئی۔

”اماں کیا ہو گیا ہے تو بالکل خیال نہیں رکھتی اپنا ہر وقت ہماری فکر نے تیری کیا حالت کر دی ہے۔“
ساجدہ مسکرا دی ”نہیں میری بچی میں ٹھیک ہوں“

بالآخر سب سے چھوٹی بیٹی بھی اپنے گھر کی ہو لی۔ اب ساجدہ اکیلی رہ گئی۔ تنہائی کا یہ احساس جہاں اسے چبھتا وہیں بیٹیوں کے سکھ کی لہر اس کے دل کو راحت دیتی۔

ساجدہ آج اپنے بستر پر ایسے لیٹی جیسے پوری زندگی کی تکان اتارنے لگی ہے۔ اسے اپنے شوہر کی موت سے لے کر زندگی کے وہ تمام مشکل لمحات یاد آنے لگے جن کی اذیت نے اسے موت سے پہلے مار تو دیا تھا مگر خود کی زندہ لاش کو وہ معاشرے کی ہر تلخی کے آگے اپنی بیٹیوں کی خاطر چلاتی رہی۔ ماضی کو یاد کرتے کرتے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور پھر ان موتیوں کو اپنے سرہانے کے حوالے کر کے سو گئی۔

صبح محلے میں شور اٹھا باجی ساجدہ کے گھر کی چھت گرنے سے ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس چھت کے گرنے سے صرف ساجدہ کا انتقال نہیں ہوا تھا بلکہ اس چھاؤں کا بھی خاتمہ ہو گیا جس کی ٹھنڈک نے ایک طویل عرصہ دھوپ میں جل کر اپنے بچوں کو زمانے کی گرم ہوا سے بچائے رکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments