صدف زہرہ: چلو ایک قصہ اور تمام ہوا


وہ مرد ہے اس کو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ تم کہاں جاؤگی سوچا ہے؟
اس کو وقت دو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آج کل تو کنواری لڑکیوں کو کوئی نہیں پوچھتا تم طلاق لوگی؟
ہنسی خوشی آتی ہو تو آؤ ورنہ مت آؤ۔
ہمارے خاندان میں بیٹیوں کے جنازے بھی میکے سے نہیں اٹھتے ہیں۔
سر کا سائیں تو سلامت ہے بس کافی ہے۔

کون سا کچھ نیا کچھ انوکھا ہے کیا؟ ان لفظوں میں یا ان جملوں میں یہ تو کہے جانے والے وہ جملے ہیں جو اگر کوئی شادی شد ہ بیٹی غلطی سے اپنے میکے والوں سے یا اپنے سسرال والوں کو کچھ بتانے کی کوشش کرے تو اس کو وہیں روک دو وہیں ٹوک دو۔ کیونکہ عورت کا کام ہے ظلم سہنا اپنا گھر بچانے کے لیے اگر اپنی جان کی قربانی بھی دے دے تو کون سی بڑی بات ہے۔ آخر عورتوں کو ہی سمجھنا ہوتا ہے اور جب تشدد سے نیلی لاش سامنے آ جائے تو بھی بس یہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے بس جو اللہ کی مرضی تھی۔ بیٹیوں سے نہیں ان کے نصیب سے ڈر لگتا ہے کی گردان جاری رکھ کر اپنی بیٹیوں کو اذیت کے اس قید خانے میں مقید کردو جہاں سے بس جب اس کی جان نکل جائے تبھی فرار ممکن ہو سکے۔

ہماری بدقسمتیوں کی داستانوں میں اس سوچ کی کہانی جو نہ نئی ہے اور نہ انوکھی ہے نہ کچھ مختلف ہے بھی ضرور لکھی جانی چاہیے جس کے مطابق ہمارے معاشرے میں شادی کے بعد ایک بیوی کو سانس لینے کی اجازت بھی اپنے شوہر سے طلب کرنا چاہیے۔

وہ اس کی نصف بہتر نہیں بلکہ ایک باندی ہے جس کی نہ کوئی اپنی سوچ ہے نہ طلب ہے اور نہ ہی کوئی عزت نفس ہے۔ بلکہ غلطی سے کبھی اگر اپنے بنیادی حققق کے بارے میں بات کرنا چاہے تو اس کو آوارہ بد چلن قرار دے کر مارنے کا پورا اختیار اس مرد کو ہے جو اس کے تحفظ کا وعدہ کر کے اپنے نکاح میں لے آتا ہے۔ اٰخر غیرت کے نام پر بھی عورت کوہی مارنا ہے کبھی غیرت کے نام پر اپنے آپ کو قتل کرڈالو۔

مگر تحفظ کے نام پر اپنی غیرت کے نام پر اپنی جھوٹی انا کے نام مار تشدد کرنا مرد کا تو پیدائشی حق ہے۔ اور واقعی کیا نیا ہے کیا انوکھا ہے اس میں مرد تو مرد یوتا ہے آخر اس کو تھوڑا بہت غصہ تو آہی سکتا ہے نا، ہاں مگر معصوم نہتی عورت کو حق نہیں ہے اس کے اپنے جذبات پر تو مصلحتوں اور منافقتوں کے پہرے ہیں۔

ہاں اگر کوئی آواز اٹھائے تو اس کو بھی یہودی ایجنڈے کا امین قرار دے کر اس کے کردار کی دھجیاں اڑادو۔ بتادو کہ آواز اٹھانے والی آوارہ ہے بد کردار ہے اس کی موجودگی سے یہ معاشرہ کتنا بگڑ جایئگا۔

لیکن ایک معصوم خاموش عور ت اپنے والدین سے ملنا چاہے تو اس پر ہزار پابندیاں لگادو۔ گھر کے بجٹ میں حصہ بٹانے کے لیے ساتھ دے تو بھی اس کو محبت کے دو بول نہ بولو بلکہ اس کے کردار پر انگلیاں اٹھاؤ۔

بچے بھی اس کی ذمہ داری آخر کو وہ مرد ہے کماکر لاتا ہے کافی نہیں ہے کیا۔

کیا نیا کیا انوکھا ہے اس میں وہ گھر کے کام کرے تو یہ کہو کہ کون سا احسان ہے سب بیویاں کرتی ہیں۔ اور ہاں اگر کھانے میں کچھ اوپر نیچے ہو جائے تو اس کو مار مار کر اپنا فرض ضرور پورا کرو۔

کچھ بول دے تو طمانچوں سے منہ لال کردو اپنی جھوٹی مردانگی کے سرٹیفیکٹ کے طور پر اس کے جسم پر تشدد کے نشان ڈالدو اور اگر اس سے بھی دل نہ بھرے تو بس پھر ماردو۔

دوسری جانب لڑکیوں بھی ماں باپ کے گھر سے یہی سمجھاکر بھیجا جاتا ہے اپنا گھر بچالو اپنا گھر سنوارلو۔

ہاں مگر یہ کبھی نہیں بتایا جاتا کہ اس سفر میں اگر اپنا گھر بنانے اور بچانے کے لیے اپنی روح تک کو چھلنی کرنا پڑجائے تو اس کا مرہم کوئی نہیں ہوتا۔

کیونکہ آخر بیٹی کے تو پیدا ہوتے ہی بس یہ دعا کی جاتی ہے کہ نصیب اچھے ہوجائیں۔
بس کسی طرح ہاتھ پیلے ہوجائیں ہاں اس کے بعد اللہ اللہ خیر صلا۔
مرد کا کیا ہے غصہ آہی جاتا ہے تھوڑی بہت برداشت تو اپنے اندر بھی لاؤ۔

کیا ہوا شوہر ہے۔ تمہارا کون ہے؟ تمہارا سہارا تو وہی ہے۔ بچوں کا باپ ہے جیسے جملے سن سن کر صبر کا درس دیتے رہو اور بس ہاں کوئی معصوم بے قصور جب تک جان سے نہ چلی جائے تب تک اس پر بات کرنا بھی گنا ہ ہی مانو۔

آواز اٹھانے کے جرم میں نہ صرف گھر والوں کے بلکہ معاشرے کے مجرم بھی ٹھہرائے جاؤ۔
بس قربانی کے جانور کی طرح خاموشی سے قربان گاہ پر جاکر اپنے آپ کو قربان کردو۔
کیونکہ عورت ہونا تو سب سے بڑا جرم ہے۔

تو پھر صدف زہرہ نقوی کی کہانی کون سی الگ ہے؟ کون سا ایک بار پھر کچھ الگ ہوا انوکھا ہوا۔ اس کہانی میں کون سی نئی بات ہے یا اس کا انجام کون سا مخلتف ہوا۔

ہاں بس یہ ہے کہ ایک معصوم جان جس کو شاید ابھی مامتا کے لمس کا بھی اندازہ نہیں ہمیشہ کے لیے تنہا رہ گئی۔ جب بڑی ہوگی تو یہ اذیت سہے گی کہ اس کا باپ مبینہ طور پر ایک قاتل تھا جس نے اس کی ماں کو مار دیا۔

علی سلمان نقوی کون سا ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے زیادہ تر مردوں سے مختلف تھا جو دوسری عورتوں کے چکر میں رہنا ان کو اپنے گھناؤنے مقصد کے لیے استعمال کرنا اور اپنی بیوی کو جوتے کی نوک پر رکھنا مارپیٹ کرنا اور معافی تلافی کر کے معاملہ رفع کر دینا۔

پتہ نہیں کون سی ایسی وحشت ہوتی ہے کون سی انا کی تسکین ہوتی ہے جو ایک معصوم نہتی کمزور عورت پر تشدد کرنے کے نعد بھی پوری نہیں ہوتی۔

معصوم نہتی عورت خاموشی سے سہہ جاتی ہے کبھی بچوں کی خاطر کبھی تحفظ کی خاطر کبھی پیار کی خاطر اور یہ سب کرتے کرتے آخر مر ہی جاتی ہے تو اس کے جنازے پر آنے والے یہ کہتے ہیں بہت اچھی عورت تھی۔

چلو کوئی گناہ تو نہیں کیا نہ ہاں اگر اسی عورت نے آواز اٹھانے کی غلطی کرلی جہنم سے آزادی مانگ لی تو اس کے بعد یہ معاشرہ اس کے ساتھ جس طرح کا سلوک کرتا ہے وہ تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

آج کل پرسوں سوشل میڈیا پر صدف کے لیے انصاف جسٹس فار زہرہ کا ٹرینڈ ٹاپ کرے گا۔

سب اپنے اپنے دل کی بھڑاس نکالینگے این جی اوز اور انسانی حقوق کے علمبردار سیاستدان فنکار سوشل میڈیا صارفین اپنے روایتی افسوس کے ٹویٹ اور پوسٹس ڈال دیں گے اور بس ایک بار بھر ایک اور گھریلو تشدد کا روایتی واقعہ تمام ہوا۔
کیا ہوا کچھ نیا تھا کیا یا کچھ انوکھا تھا اس بار بھی۔ اگر تھا تو ضرور بتایئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments