کھٹا میٹھا


چھوٹا بھائی علی احمد سرگودھا شہر میں ایک بجلی کا سامان بنانے والی فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ایک اور پارٹنر (چاچا حفیظ) کام کرتا ہے۔ چاچے حفیظ کی ماں بہن چاہے ایک کر دو چاہے الگ الگ کر دو وہ غصہ نہیں کرتا۔ لیکن اگر کسی نے شریف خاندان کی شان میں ذرا بھی گستاخی کی چاچے حفیظ نے اسے نہیں چھوڑنا۔ شریف خاندان کے خلاف کوئی بات کرنے سے چاچا حفیظ ایسے غصے میں آتا ہے جیسے ملک میں کوئی اونچ نیچ ہونے سے بابا رحمتا ایکشن میں آتا تھا۔

افسوس کہ شریف خاندان کو اتنے چاہنے والے لوگ ملے مگر شریف خاندان نے انہیں ایسے لوٹا جیسے کسی کی عزت لوٹی جاتی ہے۔ خیر بات یہ ہے کہ چاچے حفیظ کا بہنوئی فوت ہو گیا اور وہ چھٹی پر چلا گیا۔ اب اس کی جگہ پے علی بھائی نے مجھے کام پہ گھسیٹ لیا۔ اور وہاں پہ ہاتھ ایسے چلانا پڑتا تھا جیسے کچھ لوگوں کی زبان چلتی ہے۔ یعنی بغیر رکے۔ سب سے اہم بات جس نے مجھے پریشان کیا وہ یہ تھی کہ ہمیں سارا دن ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر کام کرنا پڑتا تھا۔ جس طرح تلوک چند محروم نے ملکہ نور جہاں کے مزار کے متعلق تھا کہ

دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
کہتے ہیں یہ آرام گاہ نورجہاں ہے

وہی نور جہاں جس کا خاندان ایران سے ہندوستان کی طرف چلا اور قندھار کے مقام پر ان کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی جس کا نام انہوں نے مہرالنسا رکھا۔ غیاث الدین (نور جہاں کے والد) اپنی ذہانت کی بدولت دربار مغلیہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ مہرالنسا جوان ہو کر شہزادہ سلیم کے دل کو للچانے لگی مگر اکبر بادشاہ کو یہ پسند نہ آیا تو اس نے مہرالنسا کا ہاتھ علی قلی ( شیر افگن) کے ہاتھ میں تھمایا اور اسے بنگال بھیج دیا۔

خیر بعد میں شہزادہ سلیم جو کبھی انارکلی اور کبھی کسی اور کلی کے پیچھے لگ رہتے تھے۔ انہوں نے شیر افگن کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اور مہرالنسا کو واپس دربار میں لے آیا۔ اور پھر مہرالنسا کو جہانگیر کی بیسویں بیوی بننے کا ’اعزاز‘ حاصل ہوا۔ اور پھر جہانگیر نے مہرالنسا کو نورجہاں کا خطاب دیا۔ اور جب جہانگیر کی یہ حالت ہو گئی کہ انہیں آدھ سیر گوشت ایک سیر شراب اور ملکہ نورجہاں کے دیدار کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ نہ رہی نہیں تو سلطنت کا نظام نور جہاں ہی چلایا کرتی تھی۔

بعد میں مر مرا کے جہانگیر اور نور جہاں لاہور میں دفن ہوئے۔ راجہ رنجیت سنگھ نے اپنے دور میں ان کے مزاروں کو لوٹ لیا اور ان کے اجسام کی بھی بے حرمتی کی۔ خیر ملکہ نور جہاں کی بات برسبیل تذکرہ آ گئی تو سوچا کہ بھانڈ پنے کے ساتھ ساتھ آپ کو کوئی کام کی بات بھی بتا دوں۔ تو جیسے بقول تلوک چند محروم ملکہ کے مزار میں دن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں رہتا تھا۔ تو اس حوالے سے اس کمرے کو بھی جہاں ہم کام کرتے تھے ملکہ نور جہاں کا مزار ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ کیونکہ وہاں بھی دن رات ایک جیسا ہی ماحول ہوتا تھا۔

چاہے باہر دھوپ ہوتی، بارش ہوتی، بادل ہوتے یا آندھی چلتی اس کمرے کا ماحول ایک سا ہی رہتا۔ اور اسی یکسانیت سے میں ایسے تنگ آیا جیسے کھلی ہواؤں اور فضاؤں میں اڑنے والے پرندے کو پکڑ کر پنجرے میں بند کر دیا جائے۔ خیر کام بہت زیادہ تھا اس لئے علی نے شام کے وقت ایک اور لڑکے کو بھی کام پر بلا لیا۔ جب وہ آیا تو اسے ”ڈرپ“ لگی ہوئی تھی۔ میں اس ڈرپ کی بات کر رہا ہوں جس کے بارے میں اگر بیوی کو پتہ چل جائے تو وہ کہتی ہے ”کس ماں نال لگا رہندا ایں“ (کس ماں سے لگا رہتا ہے)۔

عشا کے بعد جا کے کہیں کام ختم ہوا اور ہم نے گھر کی راہ لی۔ آگے سے سرگودھا ساہیوال سڑک دوبارہ بنانے کی غرض سے ساری کھود کر رکھ دی گئی ہے۔ پہلے اس سڑک کی وہ حالت تھی جو پرانے پاکستان کی تھی۔ جسے ٹھیک کرنا ناگزیر تھا۔ مگر اب اس کی حالت یہ ہے جو نئے پاکستان کی ہے۔ یعنی پرانے پاکستان سے بھی زیادہ خراب۔ اور اسی وجہ سے ہماری سپیڈ پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ ریٹ کی طرح بالکل سلو ( آہستہ) تھی۔ بظاہر نظر تو نہیں آ رہا لیکن کہتے ہیں کہ روڈ ( روڈ میپ) بن رہا ہے اور جب مکمل ہو جائے گا تو سپیڈ میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا۔

لیکن ابھی تو حالت یہ ہے کہ وطن کی ہواؤں کے ساتھ ساتھ ہمیں وطن کی مٹی بھی سلام کہتی ہے۔ بلکہ سلام سے بھی آگے بڑھ کر منہ چوم لیتی ہے۔ اور مجھے مصطفی زیدی کا وہ شعر بار بار یاد آتا رہا

انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
اور گھر پہنچنے پر ہمیں آئینے سے تو نہیں لیکن اپنے چہرے سے دھول ضرور صاف کرنی پڑتی ہے۔
ایک غلطی ہم پوری زندگی کرتے رہے
دھول چہرے پہ تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے
گھر پہنچتے پہنچتے ہمارے بالوں کی وہ حالت ہوگی جو مسکین کے بالوں ( بچوں ) کی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments