ایک صرف بات کر کے بھی بد چلن دوسرا ریپ کر کے بھی پاکیزہ؟


جسے میں اتنی دیر سے رافع سمجھ رہی تھی وہ باسط تھا۔ میرے منہ سے چیخ نکلنے ہی والی تھی کہ اس نے سختی سے میرے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا۔
”خبردار کسی کو کچھ بتایا تو۔ تیرا شوہر تو کچھ کر نہیں سکتا مجھ پہ الزام لگایا تو میں صاف مکر جاؤں گا۔ لچھن تیرے ایسے ہیں کہ سب ہی میری بات پہ یقین کریں گے تجھ پہ کوئی یقین نہیں کرے گا“ اس کی آنکھوں میں مجھے درندے کی سی سفاکیت جھلکتی ہوئی لگ رہی تھی۔

وہ تو چلا گیا میں چپکے چپکے سسکتی رہی۔ رافع تقریباً آدھا گھنٹے بعد آئے۔ آتے ہی والٹ وغیرہ نکال کے رکھنے لگے ساتھ تفصیل بتانے لگے کہ دیر کیوں لگ گئی۔ میری طرف ان کی توجہ تب گئی جب کافی دیر تک میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

”کیا ہوا چپ کیوں ہو؟“ انہوں نے اتنی دیر بعد پہلی دفعہ میری طرف دیکھا
”تم رو رہی تھیں۔ کیا ہوا اندھیرے میں ڈر گئیں؟“ وہ پاس آ گئے۔ پہلے میں نے سوچا کہ چپ رہوں مگر چپ رہتی تو یہی سب کچھ دوبارہ بھی ہو سکتا تھا۔

”رافع آپ کے بھائی نے مجھے تباہ کر دیا“
”کیا مطلب کیا ڈراموں جیسا ڈائیلاگ ہے یار، کتنا غلط مطلب نکلتا ہے اس کا اندازہ ہے تمہیں۔“

”اس کا جو مطلب نکلتا ہے میرا وہی مطلب ہے۔ اس نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری۔ ۔ ۔ عزت“ میں اتنا کہہ کر دوبارہ رونے لگی۔
”کس کی بات کر رہی ہو؟ واحد بھائی یا باسط؟“

”باسط، اور مجھے دھمکی بھی دے کر گیا ہے کہ اگر میں نے کسی کو کچھ بتایا تو وہ مجھ پہ الزام لگائے گا کہ میرے کسی اور سے تعلقات ہیں۔ رافع اتنا تو آپ مجھے جان گئے ہوں گے۔ میں اتنا نہیں گر سکتی، میں مانتی ہوں کہ پہلے میری دوستیاں تھیں مگر وہ کبھی بھی ایک حد سے آگے نہیں گئیں اور شادی کے بعد میں نے خود کو آپ کے لیے محدود کر لیا ہے۔“

”نازیہ مجھے تم پہ شک نہیں تم بے فکر رہو۔ باسط میرا بھائی ہے میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ مگر یہ بات باہر بھی نہیں بتائی جا سکتی۔“
”تو؟“ مجھے حیرت ہوئی کہ جب انہیں مجھ پہ یقین ہے تو پھر کیا مسئلہ ہے۔

”نازیہ ابھی تک گھر والے سمجھ رہے ہیں کہ تمہارے اور میرے بیچ سب صحیح چل رہا ہے۔ یہ مسئلہ کھولیں گے تو باسط تم پہ الزام لگانے کے لیے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا کہ میرا تمہارا کوئی تعلق نہیں اسی لیے تم کسی اور مرد۔ ۔ ۔“ اتنا کہہ کر رافع شاید اپنی ہی بات پہ شرمندہ ہو کر چپ ہو گئے۔

”نازیہ مجھے بہت عرصے بعد گھر میں عزت ملنی شروع ہوئی ہے۔ پلیز یار میری عزت رکھ لو۔ اگر اس کے نتیجے میں کوئی اولاد ہوئی تو میں اسے اپنا نام دوں گا پلیز نازیہ“

رافع نے ایک دم میرے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔ میں سکتے کی کیفیت میں تھی مجھے یقین ہو گیا کہ رافع مرد ہو ہی نہیں سکتا جو اپنی بیوی کی عزت لٹنے پہ غیرت دکھانے کی بجائے ہاتھ جوڑ رہا ہے۔ مجھے اس لمحے اس سے شدید نفرت ہوئی۔ میں اس کی بات ماننے پہ مجبور تھی۔ کیونکہ مجھے پتا تھا کہ میرے والدین کبھی بھی مجھے سپورٹ نہیں کریں گے۔ اس کے بعد مجھے اپنی ذات سمیت اس گھر کے ہر فرد سے نفرت ہو گئی۔ میں نے خود کو حالات کے سپرد کر دیا۔

میں وہی نازیہ بن گئی جیسی شادی سے پہلے تھی۔ ہر ایک کو تکلیف دے کر خوش ہونے والی۔ جھوٹی توجہ کے لیے کچھ بھی کردینے والی۔ وقت گزرتا رہا ساس کے لیے خوش خبریاں بھی آ گئیں اور میری لیے میری بد بختی کے ثبوت۔ مجھے ان دونوں بچوں سے شدید نفرت ہے۔ میرا بس چلے تو میں باسط اور رافع سمیت ان دونوں بچوں کو مار دوں مگر بس ہی تو نہیں چلتا۔ میرا بس چلتا ہوتا تو سب سے پہلے میں اپنے والدین کو ہی کچھ توجہ دینے پہ مجبور کر لیتی۔ میں نے باسط اور اپنے تعلق کو چھپانا چھوڑ دیا۔ ہاں زبانی کلامی کہہ لیتی کہ یہ میرے بھائی جیسا ہے وغیرہ وغیرہ۔ سب گھر والے بھی آنکھیں ہوتے ہوئے اندھے بنے ہوئے تھے۔

آخر کچھ سال بعد باسط کی بھی شادی کروا دی گئی۔ بسمہ میری توقع سے کہیں زیادہ اچھی لڑکی تھی۔ اور یہی مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ شادی کے پہلے دن بسمہ کے چہرے پہ وہ خوشی تھی جو مجھے کبھی نہیں ملی۔ شوہر کی توجہ اور پیار ملنے کی خوشی۔ میری ذات جیسے چاروں طرف سے شدید تکلیف کی آگ میں جھلس رہی تھی۔ دوسروں کو لگے گا کہ یہ حسد تھا مگر سچ یہ ہے کہ یہ ان تمام تکلیفوں کا ردعمل تھا جو میں نے سہیں۔ جن میں میرا قصور نہیں تھا مگر ہمیشہ مجھے قصوروار ٹھہرایا گیا۔

اب جب برائی کا لیبل لگ ہی گیا تو اسے پورا ہی کر کے کیوں نہ دکھایا جائے۔ میں نے بسمہ کو باسط اور باقی گھر والوں کی نظروں سے گرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اور کافی حد تک کامیاب بھی ہو گئی۔ میری ہر چال میری توقع سے زیادہ کامیاب جاتی۔ میں بڑھ بڑھ کے چالیں چلنے لگی یا تو میرے اوور کانفیڈنس کا نتیجہ یا بسمہ کی آہ لگی کہ میں جو اسلم والے معاملے پہ بسمہ کو گھر سے نکلوانے پہ تلی تھی دیکھتے ہی دیکھتے بازی ہی پلٹ گئی اور میں خود خالی ہاتھ گھر سے باہر کر دی گئی۔

میں نے وہ کرنے کا سوچا جو مجھے بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ میں وہاں سے سیدھی پولیس اسٹیشن گئی۔ سدا کے ٹھرکی پولیس والوں کو تھوڑی ادائیں دکھانی پڑیں مگر کام ہو گیا۔ اور شام تک باسط اور رافع تھانے میں بند تھے اور بچے میرے پاس۔ میں جو والدین کے گھر جانے سے کتراتی تھی ڈھیٹ بن کر وہاں پہنچ گئی۔ بھائی بہت پہلے ہی انہیں چھوڑ کے اپنی دنیا الگ بسا چکا ہے شاید اسی لیے وہ مجھے رکھنے پہ راضی ہو ہی گئے۔ امی اب بھی طعنے دیتی ہیں مگر ان کا ردعمل اتنا شدید نہیں جتنا میں سمجھ رہی تھی۔ مجھے امی بابا کے گھر آئے دوسرا ہفتہ شروع ہوا تھا کہ میرے نام دو خط آئے۔ ایک تو لفافے سے کوئی قانونی کاغذ لگ رہا تھا دوسرا سادہ خط والا لفافہ تھا اس پہ رائٹنگ دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ رافع نے بھیجا ہے۔ پہلے تو سوچا نہ پڑھوں پھر کھول ہی لیا۔ لکھا تھا

”نازیہ میں تم سے بہت شرمندہ ہوں اور اس سے بھی زیادہ خود سے۔ کاش میں نے جو فیصلہ اب کیا وہ پہلے کیا ہوتا تو نا میری زندگی اذیت میں کٹتی نا تمہاری۔ مجھے خود سے شرمندگی اس لیے بھی ہے کہ میں کبھی کسی کو سمجھا ہی نہیں سکا کہ میں بھی ایک انسان ہوں میرے بھی جذبات ہیں۔ بچپن میں مجھے اس لیے حقارت سہنی پڑتی تھی کیونکہ میں رانا صاحب کا بیٹا تھا۔ لڑکپن شروع ہوا تو مجھے احساس ہونے لگا کہ میرے جذبات باقی لڑکوں جیسے نہیں۔

مجھے نہیں پتا کیسے مگر اسکول میں ساتھی لڑکوں کو اس کا اندازہ ہو گیا انہوں نے نہ صرف مجھے استعمال کرنا شروع کر دیا بلکہ کھلم کھلا میرا مذاق بھی اڑاتے۔ میری اتنی تشہیر کی گئی کہ یہ بات گھر تک پہنچ گئی۔ میں روز ابو سے اس بات پہ پٹتا جس میں میرا کوئی قصور ہی نہیں تھا۔ اسکول میں ٹیچرز اسٹوڈنٹس مجھ سے ایسے کتراتے جیسے مجھے کوئی چھوت کی بیماری ہے۔ میری ہر رات روتے ہوئے گزرتی تھی۔ میں بلک بلک کر خدا سے دعا مانگتا کہ یا تو مجھے ایسا پیدا ہی نہ کرتا یا اب مجھے مار دے۔

میرے مسئلے کا کوئی حل ہی نہیں تھا۔ کم از کم ہیجڑا ہی ہوتا تو انہی کے ساتھ زندگی گزار لیتا۔ مجھے پتا تھا کہ کوئی فائدہ نہیں مگر پھر بھی جو کوئی بھی کسی علاج کا مشورہ دیتا وہ میں نے کروایا۔ نازیہ تمہیں شاید اندازہ نہ ہو ایسی زندگی کا جس پہ آپ کا اختیار ہی نہ ہو۔ جہاں آپ کے جذبات ذہنی بیماری سمجھے جاتے ہوں۔ میں تمہیں ازدواجی خوشی نہیں دے پایا مگر پھر بھی ہر طرح سے تمہیں سپورٹ کیا تاکہ اس کا مداوا کر سکوں۔

مگر تم میری سپورٹ کو حق سمجھ کے وصول کرتی رہیں۔ تم کھانا نہیں بناتی تھیں میں خاموشی سے لے آتا تھا۔ اپنے کپڑے خود ہی دھو لیتا تھا۔ بچوں کی ضروریات کا بھی خیال کر لیتا تھا۔ بیماری میں کبھی تم نے زحمت نہیں کی کہ یہ دیکھ لو کہ میں نے دوا کھائی یا نہیں۔ مگر مجھے پتا تھا کہ تم میری وجہ سے وہ سب جھیل رہی ہو جس کی تم بالکل حقدار نہیں۔ اس دن جس طرح میں نے تمہیں گھر سے نکالا اس پہ میں بہت شرمندہ ہوں میں ایک دم بہت زیادہ ڈر گیا تھا مجھے لگا دوبارہ بچپن کی طرح سب میری تذلیل کریں گے میرا مذاق اڑائیں گے۔

مجھے ہر طرف سے تحقیر بھرے قہقہے سنائی دے رہے تھے۔ اور اس شور نے میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بالکل ختم کردی تھی۔ تم نے جو کیا ٹھیک کیا۔ مجھے اور باسط کو ہماری غلطی کی سزا ملنی چاہیے۔ اور یہ سزا بہت پہلے مل جانی چاہیے تھی۔ میری کچھ لمحوں کی کمزوری نے کئی سال تمہیں اذیت میں مبتلا رکھا۔ نازیہ میں اگر زندہ رہا تو یہ سب اذیتیں مجھے پاگل کر دیں گی۔ ہو سکے تو مجھے معاف کردو۔ تمہیں طلاق نہیں دے سکتا ورنہ میری کسی چیز پہ تمہارا حق نہیں رہے گا۔

لیکن میری منکوحہ ہونے کی صورت میں میرے مرنے کے بعد تم میری پینشن اور باقی اثاثوں کی قانونی ملکیت حاصل کر سکو گی۔ جب تک تمہیں یہ خط ملے گا میں مر چکا ہوں گا۔ خودکشی کے علاوہ میرے پاس اب اس اذیت کا کوئی حل نہیں۔ یہ خط میں اپنے اس دوست کو دے کے جاؤں گا جس کے ساتھ رہ رہا ہوں اسے کہہ دوں گا کہ مجھے کچھ ہو جائے تو تمہیں یہ خط پوسٹ کردے اور مجھ سے متعلق کسی بھی قسم کے کاغذات بھی تمہیں ہی بھیجے۔ اگر تمہیں ڈیتھ سرٹیفکیٹ نہ ملے تو خط میں سب سے نیچے لکھے نمبر پہ رابطہ کرلینا۔ اپنا اور بچوں کا خیال رکھنا۔ ”

میں نے خط پڑھ کے فوراً دوسرا لفافہ کھولا اور توقع کے مطابق وہ رافع کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ ہی تھا۔ وجہ فوڈ پوائزنگ سے ڈیتھ لکھی تھی۔

میں پہلی بار اتنا بلک کے روئی جیسے کبھی نہیں روئی تھی۔ مجھے لگا جیسے میں نے رافع کو مارا ہے۔ اس نے مجھے کتنی تفصیل سے اپنا مسئلہ بتایا اور ہر بار میں نے اسے جھوٹا سمجھا۔ باسط کی غلطی میں رافع کا بھی ہاتھ تھا مگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کیا وہ اس کے علاوہ کچھ اور کر سکتا تھا؟ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہمارے کردار اور جذبات سے زیادہ اہم معاشرے کے معیار ہیں ایسے معاشروں میں ہر رافع کی زندگی جہنم ہے اور ہر نازیہ کے پاس سوائے خود کو نمائش کی چیز بنانے کے کوئی راستہ نہیں۔

احساس شرمندگی اتنی زیادہ تھی کہ شاید میں بھی خودکشی کر لیتی مگر ان دو معصوموں کے لیے جنہیں رافع نے اپنا نام دیا اور باسط کو سزا دلوانے کے لیے میں نے اپنا فیصلہ بدل لیا۔ باسط کو سزا دلوانا اس لیے ضروری ہے تاکہ کوئی دوسرا باسط کسی دوسری نازیہ کی مجبوری کا فائدہ نا اٹھا سکے۔
آپ سے بس اتنی گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو اتنا نظر انداز نا کریں کہ انہیں توجہ کے لیے نازیہ بننا پڑے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ابصار فاطمہ
اس سیریز کے دیگر حصےیہاں پارسا بننا جتنا مشکل ہے دکھنا اتنا ہی آسانجرم کی سزا ہوتی ہے تو مجرم بنانے کی کیوں نہیں؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments