کچھ رحم کریں یہ ملک ہے آپ کی تجربہ گاہ نہیں


ہم میں سے وہ لوگ جنہوں نے سرکاری سکول یا کالج سے تعلیم حاصل کی اور میٹرک یا ایف، ایس، سی میں سائنس پڑھی ہوگی، وہ اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ سائنس کے مضامین کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ایک فرسودہ سی تجربہ گاہ میں برائے نام تجربے بھی کروائے جاتے تھے اور پھر سالانہ امتحانات میں پریکٹیکل کے امتحان کا ڈھونگ بھی رچایا جاتا تھا۔ جسے پاس کرنا لازم ہوتا تھا۔ ہم چونکہ ایک ایوریج سٹوڈنٹ ہوا کرتے تھے لہذا اکثر اوقات یہ پیریڈ انجوائے کرتے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی تھی کہ ہمارے ہاں اکثر سکولوں کی لیبارٹریز میں تجربے کرنے کے لئے سامان ضرورت سے کم ہوتا تھا اور جب تک ہماری باری آتی پیریڈ کا وقت ختم ہوچکا ہوتا اور ہم واپس اپنی کلاس میں پہنچ جاتے۔

لیکن سالانہ امتحانات میں کسی کی سفارش ہوتی تو پریکٹیکل میں بہتر نمبر مل جاتے ورنہ ایوریج نمبر سب کو ملتے تھے اور یوں سرٹیفیکیٹ کی شکل کچھ ہوجاتی۔ لیکن اگر آپ غور کریں تو سائنسی مضامین میں جو فارمولے اور تھیوری کوئی تین دہائیاں پہلے یعنی ہمارے زمانے میں پڑھائی گئی تھی، سلیبس آج بھی وہی ہے اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ہمارے اساتذہ نے بھی وہی پڑھا تھا اور آج ہمارے بچوں کو بھی وہی کچھ پڑھایا جا رہا ہے اور تجربہ گاہوں میں وہی تجربات کروائے جاتے ہیں۔

میں مہنگے سکولوں اور کالجوں کی بات نہیں کروں گا کیونکہ بات عام طبقے کی ہو رہی ہے اور ہمارے ہاں اکثریتی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ معاف کیجیے گا، مجھے تو یہ ملک بھی تجربہ گاہ ہی محسوس ہوتی ہے۔ 1947 ء کی آزادی سے لے کر آج تک فرسودہ فارمولوں اور تھیوریز کی بنیاد پر تجربے کیے جاتے ہیں۔ وہی گھسے پٹے فارمولے اور وہی اساتذہ۔ حالت یہ ہے کہ سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ہم فرسودہ نظام تعلیم تبدیل نہیں کرپائے تو سوچیں ہم نے ٹیکنالوجی کے باقی میدانوں میں کیا تیر مارا ہوگا۔ معذرت کے ساتھ باتیں تو ہم فلسطینیوں اور کشمیریوں کو آزادی اور حقوق دلانے کی کرتے ہیں جبکہ اپنے شہری آئے روز بجلی، پانی اور تحفظ جیسے بنیادی حقوق کے لیے مظاہرے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

داد دینا پڑے گی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کو جنہیں دو سال بعد ہی سہی مگر یہ احساس تو ہوا کہ اگر ہم بیرونی ممالک میں مسلمانوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ملک میں بسنے والی اقلیتوں کو حقوق دینا ہوں گے اور اس بات کا اظہار انہوں فلور آف دی ہاؤس کیا۔ حالانکہ یہی محترمہ، وزارت انسانی حقوق کا منصب سنبھالنے کے بعد یورپی ممالک کو انسانی حقوق کے بھاشن دینا شروع ہو گئی تھی جبکہ وزیر ہوتے ہوئے اپنے ماتحت افسران اور ملازمین کو حقوق نہیں دے سکیں اور ایک سیکرٹری کے سامنے ان کی ایک نا چل سکی۔

مجھے تو حیرانی ہوتی ہے کہ اس ملک کے بننے کے فوراً بعد ہی جس طرح ایک مخصوص طبقے نے کنٹرول سنبھال لیا اور جمہوریہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دے دیا۔ حالانکہ اگر غور کریں تو بذات خود نام میں ہی تضاد موجود ہے۔ کیونکہ ایک طرف اسلامی کہا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب جمہوریہ۔ طالبان کے موجودہ اسلامی نظام حکومت سے لے کر داعش (آئی ایس آئی ایس) اور خلفائے راشدین کے طرز حکمرانی کو اٹھا کر دیکھ لیں اور پھر جمہوریت کی بین الاقوامی تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے انصاف کریں کہ کیا یہ نام مناسب ہے ( اگر کسی کو اعتراض ہو تو اس پر الگ سے لکھا جاسکتا ہے )

خیر جنرل ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک فوجی حکومتی ادوار کے دوران جہاں جمہوریت کا لفظ بھی شرما جائے، کس ڈھٹائی کے ساتھ صدر ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ جنرل محمد ضیا الحق جیسے لوگ قوم سے خطاب کرتے رہے۔ درمیانی عرصے میں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر عمران خان تک ڈکٹیٹرشپ شخصیت جیسے سیاسی راہنماؤں کے تجربات کا سلسلہ بھی جاری ہے، مگر وہ کیا ہے کہ عوام کی قسمت نہ بدلنی تھی اور نہ بدلی۔

گزشتہ دو حکومتوں نے جس طرح سے برائے نام جمہوری دور مکمل کیے، اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ میں یہاں یہ واضح کردوں کہ کسی طور پر بھی سیاستدانوں کی کرپشن اور اجارہ داری کو سپورٹ نہیں کرتا، یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ صرف سیاستدان ہی کرپشن نہیں کرتے مجموعی طور پر ہم اخلاقی کرپشن کرتے ہیں اور سرکاری محکموں میں ایک کلرک سے لے کر وزارت کے سیکرٹری تک ملوث ہوتے ہیں۔

حقیقت میں تو برائے نام جمہوری ادوار بھی ”ہدایات“ پر چلتے ہوئے پورے ہوئے۔ گزشتہ چند کے ماہ کے دوران جہاں کرونا وائرس نے پوری دنیا کی معیشت کو تباہ کیا ہے وہاں پاکستان کی تباہ حال معیشت کی مثال دینا مناسب نہیں لیکن پھر بھی جس حال ہمارے حکمرانوں نے غریب عوام پر تجربات کیے اور پھر بھی ڈھٹائی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں اس پر اکیس توپوں کی سلامی تو بنتی ہے۔ مجھے یاد ہے گاؤں میں ہمارے ایک کزن نے الیکٹریشن (بجلی کی وائرنگ وغیرہ) کا کام سیکھنا شروع کیا تو کچھ کام سیکھنے کے بعد اس نے الیکٹریشن کے کام کے ساتھ ساتھ لوگوں کی واشنگ مشین، استری اور دیگر آلات بھی مرمت کے لئے لانا شروع کر دیے تو ہم نے ایک دن حیرانی سے پوچھا بھائی پھیکے ( اس کا اصل نام رفیق تھا لیکن گھر میں سبھی لوگ اسے پھیکا کہتے تھے ) کام تو آپ نے صرف الیکٹریشن کا سیکھا ہے تو بجلی کے آلات کی مرمت کا کام کیوں پکڑ لیتے ہو؟

اس کا جواب جان کر آپ حیران ہوں گے۔ کہنے لگا، یار کوشش کر کے دیکھ لیتے ہیں، ٹھیک ہو گئی تو پیسے لے لیں گے ورنہ خراب تو پہلے ہی ہے واپس کردیں گے۔ یقین کریں حکمرانی کے یہ انداز دیکھ کر مجھے بھائی پھیکا یاد آ گیا جیسے یہ لوگ اس ملک کے ساتھ ہر روز نیا تجربہ کرتے ہیں اور پھر الزام سابقہ حکمران پر ڈال دیتے ہیں۔ خدارا، کچھ رحم کریں یہ ملک ہے آپ کی تجربہ گاہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments