قبائلی عورتیں، جائز حقوق اور ثقافتی بندشیں


جس شدت سے قبائلی عوام ریاست سے اپنے آئینی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں جو بلاشبہ ان کا حق ہے۔ اسی شدت سے میں تمام قبائلی مرد حضرات جو ایک خاندان میں ریاست کا مقام رکھتے ہیں۔ ان سے صنف نازک کے جائز حقوق کا مطالبہ کرتا ہوں۔ انہیں احساس دلانا چاہتا ہوں کہ دوسرے علاقوں کی نسبت قبائلی خواتین کی زندگی تقریباً ہر لحاظ سے قابل رحم ہے۔ مجبوریاں اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہیں۔ یہ بلاگ قبائلی خواتین کے سلگتے مسائل، وجوہات، رکاوٹوں اور ممکنہ حل کے بارے میں آپ کو بہت کچھ بتائے گا۔

قبائل کی تاریخ مردانگی، جنگ و جدل، بہادری اور پیٹریارکل معاشرے پر مبنی ایک سلسلہ ہے جہاں قبائلی روایات کی پاسداری ایمان کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قبائل نے اجتماعی طور پر اسلام قبول کیا اور اس کی ایک بنیادی وجہ اسلامی احکامات اور قبائلی ثقافت و روایات میں بڑی حد تک ہم آہنگی کا ہونا تھا جس کی وجہ سے قبائل نے قبول اسلام کے بعد بھی اسلامی احکامات میں تحقیق اور پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور رفتہ رفتہ لا شعوری طور پر اپنی روایات ہی کو اسلامی احکامات سمجھنا شروع کیے، اگر ہم چنیدہ قبائلی روایات پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ قبائلی کلچر میں آج تک عصری تعلیم کا حصول ایک غیر ضروری کام سمجھا جاتا ہے۔

یہاں برداشت اور معافی کو ڈرپوک ہونے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ بدلہ لینا غیرت کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ انہی روایات کے نتیجے میں عورت اپنے ساتھ جڑے معاشرے میں ہر قسم کی حصہ داری سے مستثنی قرار پاتی ہے۔ یہاں عورت کی خواہش رد کرنے کو عین ثواب سمجھا جاتا رہا ہے۔ بہن پر بھائی کو ہر قسم کی فوقیت حاصل ہے اور جہاں عورت خاندان کے مرد کے لئے ایک پراپرٹی کی حیثیت رکھتی ہے گویا یہاں عورت سماج میں کوئی ایک قدم بھی مرد کی اجازت کے بغیر نہیں اٹھا سکتی، عرض یہاں عورت کے بارے میں بات کرنا ایک مضبوط ٹیبو کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ عورت کے حقوق کی بات کرنا، بے راہ روی، بے پردگی یا حقوق نسواں کے نعرے کا استعمال کر کے کسی ایجنڈے کا اس بلاگ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ایک درد دل رکھنے والے قبائل کی طرف سے قبائلی بہن بیٹیوں کے ان جائز حقوق کا مقدمہ ہے جو ہم نے شاید غیر ارادی طور پر دبائے ہیں اور بد قسمتی سے جائز سمجھتے رہے ہیں۔ قبائلی عوام کی عورت بیزار سوچ میں زیادہ کردار یہاں کے نیم مذہبی ملاؤں کا بھی رہا ہے جنہوں نے ہر اس آیت و حدیث کی من چاہی تشریحات کی وجہ سے قبائلی ذہنیت کو انتہا پسند اور زن بیزار بنانے میں مدد دی اور وہ تمام احادیث و آیات چھپائیں جن سے برداشت، سماجی ترقی اور معاشرے میں عورت کا مثبت کردار رونما ہو۔

ستم ظریفی یہ بھی ہوئی کہ عام قبائلی نوجوان نے خود مطالعے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جس کا لازمی نتیجہ یہ رہا کہ دیگر مسائل کی طرح قبائلی عورت کے حقوق بھی مذہبی انتہا پسندی کے بھینٹ چڑھ گئے۔ یوں قبائلی عورت حقوق کے لحاظ سے پستیوں کی انتہاؤں میں جا گری، ان اسلامی اور جائز حقوق سے بھی محروم ہوئیں جو اسلام نے چودہ سو سال پہلے عطا کیے تھے۔ آج فاٹا کی عورت ایک معذور ہستی کی طرح ہمیشہ مرد کی محتاج رہی ہے یہاں تک کہ وہ اپنے ذاتی مسائل بھی مرد کی اجازت کے بغیر حل کرنے سے قاصر ہے۔

تعلیم کا حصول ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ دراصل یہ ایک حدیث کا ترجمہ ہے مگر خیانت یہاں پر یہ کی گئی کہ اس حدیث کو جب بھی ہمارے نیم ملاؤں نے بیان کیا تو بجائے علم کے حصول کو ”اسلام کی تعلیم“ کا خود ساختہ جامہ پہنا دیا حالانکہ حدیث کے الفاظ میں ”طلب العلم“ کا مرکب آیا ہے ”طلب العلم الاسلام“ کا نہیں، جس کا اردو میں سادہ سا مطلب ”علم کا حصول“ ہے ”اسلامی علم کا حصول“ نہیں، مگر چونکہ ہم نے کبھی خود پڑھنے اور تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اس لیے اندھے تقلید کی وجہ سے اسی مبالغہ آمیز تشریحات کو مانتے رہے، اسی طرح کی کم فہمی علم کے حصول میں ”مرد اور عورت یا صرف مرد“ کے بارے میں بھی غالب رہی، خیر آج حالت یہ ہے کہ قبائلی خواتین میں صرف بنیادی تعلیم (پرائمری) کا تناسب بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے البتہ یہ الگ بات ہے جو لوگ فاٹا کی ثقافتی بندشوں کے حدود سے نکل کر اپنی بہن بیٹی پر تعلیم کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ وہ پھر بھی پشتون کلچر اور روایات کا خیال رکھتے ہیں مگر بد قسمتی سے ایسے لوگ دوبارہ فاٹا کا رخ نہیں کرتے۔

خواتین کے تعلیم کے ساتھ بے تحاشا مسائل جڑے ہیں۔ یہاں نا سکول کالج کی عمارتیں ہیں۔ نا استانیاں اور باقی سہولیات موجود ہیں البتہ استانیاں تو اس لیے بھی موجود نہیں کیونکہ ہم نے خود اپنی بچیوں کی تعلیم روایات و ثقافت کے لئے قربان کی، نتیجہ یہ رہا کہ آج بھی فاٹا کی خواتین مرد ڈاکٹروں کے ساتھ اپنے تمام جنسی اور طبی مسائل شریک کرتی ہیں کیونکہ پورے فاٹا میں ایک بھی ایم بی بی ایس لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں، یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ جو غیرت ہم بیٹی کو تعلیم نہ دینے میں دکھاتے ہیں وہ غیرت تب کہاں چلی جاتی ہے جب ہماری خواتین ایک غیر محرم کے ساتھ وہ ذاتی مسائل شریک کرتی ہیں جو یا تو کسی عورت یا اپنے شوہر کے ساتھ شریک کر سکتی ہیں۔

دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ تعلیم یافتہ مائیں نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی تربیت کی شروعات غیر تہذیب یافتہ انداز میں ہو جاتی ہے۔ علم نفسیات کے مطابق بچے کی سیکھنے کا سب سے اہم مرحلہ ماں کا گود ہوتا ہے جہاں بچے کا دماغ تازہ اور جلد سیکھنے کی حالت میں ہوتا ہے۔ مگر قبائلی ماؤں کی حالت خود قابل رحم ہوتی ہے مائیں بے چاری حالات کی ستم کی وجہ سے اپنے مسائل حل نہیں کر پاتی اپنے بچوں کی تربیت خاک کر سکیں گی۔

شادی کے حوالے سے قبائلی لڑکیاں بے شمار مسائل کا شکار رہی ہیں۔ یہاں لڑکی کی شادی صرف والد یا گھر کے سربراہ کی مرضی سے ہوتی ہے۔ بیٹی خود کو ایک بھیڑ بکری کی طرح محسوس کرتی ہے۔ والد اس کی جہاں کہیں بھی بات طے کرے بیٹی کو ہر حالت میں سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے کیونکہ انکار کرنے کو روایات سے غداری قرار دی جاتی ہے۔ لڑکی سے پہلے تو پوچھا نہیں جاتا اور اگر پوچھ بھی لیا جائے تو اس درجے پر جب بات اکثر طے ہو چکی ہوتی ہے۔

یعنی صرف ”ہاں“ سننے کے لئے ہی پوچھا جاتا ہے اس لیے محض اقرار کی ہی گنجائش رہتی ہے۔ بہت ساری بچیوں کے وٹا سٹا کے ذریعے رشتے طے پائے جاتے ہیں جس سے عموماً بڑی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں مگر یہ رسم اب آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے البتہ کم عمری کی شادیاں ابھی بھی کروائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ڈپریشن، جنسی بیماریاں اور کمزور اولاد جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ میرے علم میں ایسے کئی واقعات ہیں جو قبائلی لڑکیوں کے ساتھ رونما ہوئے، بالخصوص شادی کے حوالے سے کچھ واقعات گوش گزار کرنا چاہتا ہوں جو مقامی خواتین نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتائے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے :۔

خیبر میں ایک لڑکی نے پسند کی شادی کے بارے اپنے خاندان والوں کو اپنی خواہش کا اظہار کیا، اظہار کے ساتھ ہی گھر میں ایک کہرام مچ گیا۔ لڑکی کے والد نے بہت برا منایا، والد نے بیٹی کو طرح طرح کی دھمکیاں دی، ذہنی ٹارچر کیا مگر بیٹی پھر بھی اپنے انتخاب پر ڈٹی رہی اور دوسری طرف لڑکا بھی مسلسل رشتے بھیجتا رہا، اس دوران خاندان والوں کے مابین کئی جرگے بھی منعقد ہوئے، بالآخر لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی کو عاق کرنے کا اعلان کیا اور بنا کسی رسم اور شادی بیٹی کو لڑکے کے خاندان بھجوا دیا، لڑکے میں ایسی کوئی خرابی نہیں تھی جو انکار کا سبب بنتی مگر اصل مسئلہ بیٹی کا اپنی پسند کا اعتراف تھا جسے والد ہضم کرنے کے لئے ہرگز تیار نہ تھا۔

وزیرستان کے ایک علاقے میں لڑکی کا اس کے چچا زاد کے ساتھ زبردستی رشتہ طے کیا گیا۔ لڑکی کو یہ رشتہ قطعی قبول نہیں تھا اس نے اپنے گھر والوں سے شدید احتجاج کیا، مگر گھر والوں نے ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیا کہ شادی کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر شادی کے بعد لڑکی کی زندگی مزید اجیرن ہوئی، اس نے گھر والوں کو اپنی ناپسندیدگی سے آگاہ کیا مگر اب کیا کیا جا سکتا تھا۔ شادی ہو چکی تھی اور فاٹا میں شادی ایک ایسا عہد ہوتا ہے جسے کبھی نہیں تھوڑا جا سکتا، اس لیے لڑکی نے کئی بار خودکشی کی کوشش کی، خود کو بجلی کی کرنٹ سے مارنے کی کوشش کی مگر موقع پر بچا لی گئی۔

اب اس کے شوہر نے دوسری شادی کر کے اس کو مزید اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ نا وہ خود طلاق دے رہا ہے اور نہ وہ مظلوم خاتون خلع لے سکتی ہے۔ فاٹا میں خلع لینے کا کانسپٹ سرے سے موجود ہی نہیں۔ ان اذیت ناک حالات کی وجہ سے وہ لڑکی اب نیم پاگل ہو چکی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments