ہماری سرزمین کے آثارِ قدیمہ اور قدیم باشندے



جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ انسانی باقاعدہ تہذیب کا آغاز تقریباً سات ہزار برس قبل ہوا لیکن درحقیقت سات ہزار نہیں نو سے دس ہزار سال کی تاریخ تقریباً معلوم شدہ ہے کیونکہ تحریر کے علم کی شروعات بابل کی تہذیب میں تقریباً سات ہزار سال قبل ہوئی تھی تو اس وقت اس سے تقریباً دو تین ہزار سال پہلے کی سینہ بہ سینہ زبانی تاریخ جو وقت گزرنے کے ساتھ ”دیو مالائی“ صورت اختیار کر چکی تھی اس کو اسی طرح دیومالائی ادب اور مذہبی شاعری کی شکل میں بابل و نینوا کی الواح پر رقم کیا گیا۔

خود ہمارے وطن میں مہر گڑھ کی تہذیب آٹھ سے نو ہزار برس قدیم ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس پر ابھی تک زیادہ کام نہیں ہوا۔ آج دنیا میں سائنسی ترقی اور جدید آلات کی مدد سے ایک نئے زاوئیے سے قدیم تاریخ کو دریافت کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، ریڈیو کاربن ٹیسٹ کے ذریعے اشیاء کی قدامت اور عمر کا درست اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ ڈی این اے کی ڈی کوڈنگ کے ذریعے معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔ ایکسریز، الٹراساونڈ، سونار اور ارتھ ریڈارز کے ذریعے مدفون اشیاء کا سراغ لگا کر ان کے بارے میں معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔

قدیم انسانوں اور جانداروں کی بود و باش اور جائے قیام تلاش کر کے نسل انسانی میں سماجی علوم اور سائنس کے اشتراک سے قدیم ادوار میں طرز زندگی ان کے رواجات، توہمات، اور زندگی گزارنے کے طریقوں کے بارے میں قیمتی معلومات جمع اور حاصل کی جا رہی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے باقی علوم کی ہی طرح آثار قدیمہ، اور اس پر تحقیق کے موضوع میں ہم بحیثیت ایک قوم بہت پیچھے ہیں، یہاں تو یہ حالت ہے کہ نامور ماہر آثار قدیمہ اور محقق سر جان مارشل اگر ٹیکسلا، موئنجو دڑو، ہڑپہ، تخت بائی وغیرہ کے کھنڈرات اور آثار دریافت نہ کرتے تو یہ شاندار تاریخی ورثہ آج بھی زیر زمین مدفون ہوتا۔

آج مہر گڑھ کی مدفون تہذیب جرائم پیشہ افراد کی طرف سے ناجائز طور پر بے احتیاطی سے کھدائی اور قیمتی آثار و نوادر کی غیر قانونی فروخت کے نتیجے میں، بغیر باقاعدہ طور پر دریافت ہونے سے پہلے ہی تباہی سے دوچار ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہڑپہ کی باقاعدہ کھدائی سے بہت پہلے ہی پنجاب میں انگریزی دور کی شروعات میں بچھائی جانے والی ریلوے لائن اور سڑکوں کے تعمیر میں ہڑپہ کے مدفون شہر کی اینٹیں نکال کر بطور ”برک بلاسٹ“ یعنی روڑی کے طور پر استعمال کی جاتی رہیں۔ اور کسی کو اپنے اس قیمتی تاریخی ورثے کی حفاظت اور اس کے تحفظ کا خیال نہیں آیا۔ حالانکہ دنیا میں سب سے قدیم باقاعدہ سیوریج کا نظام اور جدید شہری ترتیب ہڑپہ اور اس کے بعد موئنجو دڑو میں ہی پائی گئی۔ آرینز کی برصغیر میں آمد سے قبل دراوڑین تہذیب کے موئنجودڑو، ہڑپہ کے علاوہ انڈس ویلی میں نوے بڑے شہر آباد تھے جن کے آثار یا تو آج معدوم ہو چکے ہیں یا دریافت ہی نہیں ہو سکے ہیں۔ ان کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں لاتعداد تاریخی اور قدیم آثار پاے جاتے ہیں جن میں کوہستان نمک میں قدیم زمانے اور مقامی تہذیبوں کے آثار آج بھی موجود ہیں۔

راولپنڈی کے قریب دریاے سواں کے نزدیک سے لاکھوں برس قدیم انسان نما جن کو ”راما پیتھکس پنجابیکس“ کا نام دیا گیا ان کے آثار دریافت کئیے گئے تھے اور ان کے اور ان کے بعد آنے والی نسلوں کے پتھر کے بناے سادہ اوزار اور ہتھیار بھی دریافت کئیے گئے جو اسلام آباد کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں موجود ہیں۔ سکندر اعظم اور راجہ پورو کی جنگ کا مقام ضلع منڈی بہاوالدین کے گاؤں مونگ رسول کے قریب تعین کیا گیا ہے اور یہاں سے برآمد ہونے اور لوگوں کو اتفاقاً ملنے والے اس وقت کے کچھ ہتھیاروں کے باقیات اور مزید قدیم آثاد کو نزدیک واقع تاریخی اہمیت کی درسگاہ گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی رسول میں قائم کئیے گئے ایک چھوٹے سے میوزیم میں رکھا گیا ہے لیکن آج تک اس علاقے میں ان آثار کی دریافت کے لیے کوئی باقاعدہ کوشش یا کھدائی نہیں کی گئی۔

کچھ سال قبل کوہستان کے کسی دور دراز گاؤں میں ایک غریب چرواہی کو ایک بارہ کلو وزنی ٹھوس سونے کے ٹکڑوں کا شاندار بہت قدیم ہار ملا، جب یہ بات گاؤں کے با اثر افراد کو معلوم ہوئی تو انہوں نے یہ قیمتی ہار اس غریب چرواہی سے زبردستی لے لیا اس کے بعد ان کے درمیان بھی اس ہار کے لیے جھگڑا اور چھینا جھپٹی ہو گئی اور یہ قیمتی قدیم ورثہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے بانٹ لیا گیا، کیسے شاندار بادشاہ ہوں گے جو بارہ کلو کا ٹھوس سونے کا بنا ہار پہنتے ہوں گے اگر یہ ہار محفوظ رہتا تو اس کے تاریخی اہمیت کی وجہ سے اس کی قیمت اس وزن کے سونے کی قیمت سے کافی زیادہ ہوتی، کافی عرصہ کے بعد حکومت کو اس دریافت کے بارے میں کسی طرح معلوم ہوا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اس قیمتی تاریخی ہار کے کئی ٹکڑے پگھلا کر بیچے جا چکے تھے تو اس ہار کے ایک دو ٹکڑے ہی بازیاب ہو سکے اور اس طرح قدیم درد سلطنت کا یہ قیمتی ورثہ ضائع ہو گیا۔

چند برس قبل وادی نیلم کے بگنہ گاؤں میں ایک شخص کو کھدائی کے دوران ایک بالشت لمبی ایک سونے کی بنی ہوئی ایک قدیم مورتی ملی، اس کی تصویر کسی طرح سوشل میڈیا پر آ گئی تب حکومتی اہلکاران نے اس کی تلاش و تفتیش کی لیکن اس وقت تک اس قیمتی مورتی کو نامعلوم افراد کو فروخت کیا جا چکا تھا۔ مجھے اس مورتی کی تصویر دیکھنے کا اتفاق ہوا تو یہ کسی قدیم سردار یا بادشاہ کی مورتی تھی جس کے گلے میں پہنا ہار تک واضح دیکھا جا سکتا تھا۔

کئی سال قبل میری نگرانی میں مظفرآباد کے علاقہ جلال آباد میں سیوریج لائن کی تنصیب کا کام ہو رہا تھا تو جہاں مظفرآباد کا پریزیڈنٹ ہاؤس ہے اس کے عقبی گیٹ کے بالکل سامنے مین ہول کے لیے تقریباً چار فٹ کھدائی کی گئی تو وہاں سے پتھر کی بنی ہوئی ایک خوبصورت ٹرے سی ملی جس کی عقبی سمت سطح تو بولڈر نما تھی لیکن انرونی طرف سے اس کی سطح بالکل صاف بیضوی سی بنائی گئی تھی، یہ ٹرے ہمارے ایک افسر یہ کہہ کر لے گئے کہ لاہور میوزیم کو دوں گا لیکن نہ جانے پھر کہاں چلی گئی اور اس کا کیا ہوا۔

اس مقام پر اگر مزید کھدائی کی جاتی تو شاید اور بھی تاریخی چیز برآمد ہوتی لیکن صدر ہاؤس کا سٹاف ہمیں جلد از جلد اس جگہ کام ختم کرنے کا کہتا رہا تو یہاں مزید کچھ دریافت نہ کیا جا سکا۔ اسی طرح کئی سال پہلے ہمارے دفتر کا ایک کلرک جو وادی لیپا لمنیاں کے علاقے کا رہنے والا تھا اس کو وہاں زمین سے کافی سارے تانبے کے قدیم سکے ملے جن میں سے دو تین میں نے اس سے لے لیے بعد میں کشمیر کے قدیم سکوں کی کیٹلاگ سے معلوم ہوا کہ یہ سکے کشمیر سے تعلق رکھتے تھے اور گیارہویں صدی کے زمانے یعنی رانی ددا کے وقت سے ان کا تعلق تھا۔

شاید یہ سکے میرے پاس اب تک موجود ہوں۔ اس قیمتی تہذیبی ورثے سے لاتعلقی کی سوچ کے پس منظر میں یہ سوچ بھی کارفرما رہی کہ ہم میں سے غالب اکثریت مذہبی وجوہات سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری تہذیب کا آغاز برصغیر میں محمد بن قاسم کی آمد سے شروع ہوتا ہے۔ اس لیے اس سے پہلے کی تہذیب اور اس کا مطالعہ و تحقیق ان اصحاب کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اس خطے کے باشندوں کی اکثریت آج بھی نسلی اعتبار سے ان ہی قدیم تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں، مثال کے طور پر وادی کشمیر کے باشندوں کی اکثریت ان باشندوں پر مشتمل ہے جو اس یعنی انڈس سویلائزیشن کے اصل باشندے تھے اور اس سرزمین پر آرین حملہ آوروں کے غلبے کے بعد ہجرت کر کے وادی کشمیر میں جا بسے، اسی وجہ سے کشمیر کے باشندوں میں انڈس ویلی یعنی آسان الفاظ میں آج کے مغربی پاکستان بالخصوص پنجاب و سندھ، کے ساتھ ان کا قدیم نسلی، ثقافتی، لگاؤ اور رشتہ آج کے دور تک اپنی واضح علامات کا اظہار شدت کے ساتھ کرتا رہتا ہے۔

اور کشمیری عوام کی فطری خودداری اور حریت پسندی کی بنیادی وجہ یہی قدیم نسلی اور ثقافتی تشخص ہے۔ موضوع کی طرف واپس آتے ہیں مشہور دانشور، محقق سر اولف کیرو نے انڈس ویلی میں مختلف اقوام کی مختلف ادوار میں جہاں ترتیب وار آمد کا ذکر کیا ہے وہاں اس اعلیٰ تہذیبی اور تاریخی شعور اور علم کی بنیاد پر یہ دلچسپ بات لکھی ہے کہ ان خطوں کے امراء اور با اثر قبیلوں یا افراد میں اپنے ”خالص خون“ ہونے کی بناء پر ایک تفاخر اور دوسروں کے بارے میں ایک تحقیر کا رویہ پایا جاتا ہے لیکن بقول سر اولف کیرو کے اگر اس خطے میں کوئی اپنے خالص اور ملاوٹ سے پاک خون ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے تو وہ یہاں کے وہ لوگ اور قبیلے ہیں جن میں آج تک کوئی دوسری قوم والا رشتہ کرنا پسند نہیں کرتا، جیسے جن کو آج کمتر ذاتیں سمجھا جاتا ہے مثلاً چنگڑ، نٹ، بھیل، کول، مصلی یا جن کو آدی واسی ذاتیں یا قبیلے کہا جاتا ہے یہ ہی لوگ اپنے خون کے ”خالص“ ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں ورنہ اس خطے میں جو بھی حملہ آور آیا وہ یہاں کے اعلیٰ خاندانوں سے رشتہ ناتا قائم کرتے تو یہ جو قبیلے یا افراد اپنے آپ کو اعلی ذات اور خالص خون بیان کرتے ہیں سب سے زیادہ ملاوٹ ان ہی کے خون میں ہوئی ہے۔

کم تر مقامی ذاتوں میں نہ تو آج تک کوئی رشتہ ناتا قائم کرتا ہے اور نہ ہی دور قدیم میں کیا جاتا تھا، لہذا یہ اقوام ہی اس سرزمین کے اصلی وارث اور مالک ہیں جن کو صدیوں کے تعصب، نفرت، حقارت کے روئیے سے آج کے اس جدید دور میں بھی ایک قابل رحم اور عبرتناک و دردناک حالت تک پہنچا دیا گیا ہے۔ اور ہمارے شعور پر نہ جانے کون سی رکاوٹ یا بندش لگی ہوئی ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی اپنے بہتر شعور، تعلیم، اورانسانیت کے دعوؤں کے باوجود بھی ہم ان مظلوم اقوام اور افراد کو باعزت اور انسانی درجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم جو اس قدیم شاندار تہذیب کے بچے ہوئے افراد اور قبائل کو عزت اور جائز مقام دینے کو تیار نہیں تو ہم سے بے جان آثار قدیمہ کے تحفظ اور ان پر تحقیق کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments