میڈم فرحت محبوب: دیا کس کا جلا، کس کا بجھا ہے؟


یہ اس موسم کی کیسی ہوا ہے کہ میڈم فرحت محبوب ( پرنسل مرغزار کالج، گجرات ) نے ابھی کچھ دن پہلے دو بہنوں اور بہنوئی کو الوداع کہا اور آج خود بھی اس جہانِ فانی کو خداحافظ کہہ گئیں؟ یقینا موت زندگی کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے۔ لیکن پتا نہیں کیوں آج کل ایسی خبریں سن کر ایسا لگتا ہے کہ یہ مرحلہ مسافروں کے سامنے جلد آ رہا ہے۔ شاید پہلے مرحلے کی تگ و تاز ہمیں اس قدر اپنا عادی بنا چکی ہے کہ ہم حقائق کو جانتے ہوئے بھی کائنات کے نظام میں شامل موجودہ المناک صورتِ حال میں، نئے مرحلہ کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اگلا مرحلہ کیا ہے ؟ کیسا ہے ؟ یہ ہمارا رب ہی بہتر جانتا ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اگلے مرحلہ کی المناکی پہلے کی بقا کے لیے ہے، ورنہ ہر کوئی حیات پر موت کو ترجیح دے۔

یہ جو المناک ہوا چلی ہے۔ اس نے ہر کسی کو افسردہ کیا ہوا ہے۔ میڈم فرحت تو موسموں، ہواؤں اور پھولوں سے پیار کرنے والی خاتوں تھیں۔ مرغزار کالج کے پھول اور پودے آج رو رو کر کالج کے در و یوار سے پوچھ رہے ہونگے کہ وہ ہماری نگہبان، ہم سے پیار کرنے والی، کدھر گئی؟ انھیں کون سمجھائے کہ اسے آج ہوا اپنے ساتھ لے گئی۔ وہ حیات کے ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوگئی۔۔ فکر نہ کرو وہ جلد لالہ و گل میں نمایاں ہوکر تمھارے ساتھ رہے گی۔ لیکن کیا کیجیے محبت کرنے والوں کو ایسے مقامات پر وحشت گھیر لیتی ہے۔۔۔۔ آو، دیوانوں آج ” محبوب ” کے پہلو میں” یاد کا اک دیا جلاتے ہیں “

غالبا 1990 کے اوائل کی بات ہے میں اپنے کزن مرحوم سید غلام عباس (سابق ڈسرکٹ سپورٹس آفیسر، گجرات) کے ہمراہ پہلی بار مرغزار کالج گیا۔ یہ میرا ابھی طالبِ علمی کا زمانہ تھا۔ گجرات میرا آبائی شہر ہونے کے باوجود میرے لیے اجنبی تھا۔ جب بھی گجرات آنا ہوتا چند ایک رشتہ داروں سے مل کر واپس چلا جاتا۔ ان دنوں ہم شیخوپورہ میں مقیم تھے۔ یہاں آیا تو بھائی نے مرغزار کالج کی سالانہ کھیلوں کے حوالے سے اس وقت کی پرنسپل محترمہ عذرا شیخ سے ملنا تھا۔ ہم جس وقت کالج پہنچے اس وقت چھٹی ہو چکی تھی۔ میڈم عذرا اور میڈم فرحت دونوں برآمدے میں بیٹھی تھیں۔ ہم وہاں پہنچے تو میڈم عذرا بھائی سے مخاطب ہوکر کہنے لگیں، شاہ جی! آپ بڑے ٹھیک وقت پر آئے ہیں۔ ہم نے کھانے کا کہا ہوا ہے۔ بس تھوڑی دیر میں کھانا آنے والا ہے۔ کچھ دیر بعد کھانا آگیا۔ میڈم فرحت نے آگے بڑھ کر ہمیں بڑے اہتمام سے کھانا پیش کیا۔ کھانے کے بعد سالانہ کھیلوں کے انتظامات پر باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے نوٹ کیا، میڈم فرحت بھائی کو بار بار یہ یاد دلا رہی تھیں کہ ہماری فلاں طالبہ بیڈمینٹن بہت اچھا کھیلتی ہے۔ آپ کل اگر اسے کچھ پریکٹس کروا دیں تو مہربانی ہو گی۔ اس وقت تو میرے ذہن میں کوئی خیال نہیں آیا لیکن آج میڈم فرحت کو یاد کرتے ہوئے ایک دم یہ خیال میرے ذہن میں آگیا کہ میڈم اپنی طالبات کے حوالے سے کتنی فکر مند تھیں۔

بہت سال گزر گئے ہم گجرات شفٹ ہوگئے اور میں زمیندار کالج میں بطور اردو کے لیکچرر کے تعینات ہو گیا۔ 2006 میں میری مسز بھی سانگلہ ہل کالج سے ٹرانسفر ہوکر مرغزار کالج کے شعبہ انگلش میں آگئیں۔۔۔ جب کبھی مسز کو کالج سے لینے جاتا تو میڈم عذرا اور میڈم فرحت سے ملاقات ہو جاتی۔

 ایک دن میڈم عذرا نے مجھے فون کرکے کہا کہ ہماری ایک طالبہ ہے اس نے ترنم کے ساتھ ایک مشاعرے میں غزل پڑھنی ہے آپ کچھ اشعار لکھ دیں۔ میں کسی مصروفیت کی وجہ سے دو تین دن بعد مرغزار کالج گیا تو میڈم نے کہا کہ فرحت نے شاید اپنے کسی عزیز سے اشعار لکھوا لیے ہیں۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ دلکش لباس میں ملبوس میڈم فرحت مسکراتی ہوئیں آفیس میں آگئیں۔ جب انھیں معاملے کا پتا چلا تو کہنے لگیں۔ آپ اشعار دیں، جب انھوں نے اشعار دیکھے تو کہا ان میں سے یہ دو اشعار بڑے کمال کے ہیں ہم اس طرح کرتے ہیں، طالبہ نے جو غزل تیار کی ہے اس میں سے دو اشعار نکال کر وقار کے کہے ہوئے دو شعر شامل کر لیتے ہیں، طرحی مشاعرہ ہے زمین ایک ہی ہے۔ چونکہ میڈم خود بھی اردو کی پرفیسر تھیں اس لیے معاملہ حل ہوگیا۔ اور میری فرمائشی شاعری پر کی ہوئی محنت رائگاں ہونے سے بچ گئی۔ جب مرغزار کالج میں میڈم شاہین مفتی آئیں تب میں، پرفیسر منیرالحق کعبی اور کلیم احسان بٹ کبھی کبھار میڈم شاہین مفتی سے ملنے جاتے۔ میڈم بڑی مہمان نواز تھیں۔ ہمیں چائے، کباب پر لگا، کر خود ادب و شاعری پر باتیں شروع کر دیتیں۔ میڈم فرحت ان دنوں وائس پرنسپل تھیں۔ وہ سائیڈ والے صوفے پر بیٹھی مسکراتی رہتیں۔ بلکہ بعض دفعہ کعبی صاحب اور میڈم فرحت کے قہقہے سے میڈم شاہین مفتی کی آواز کے مدھر سر دب جاتے۔۔ میڈم فرحت جب پرنسپل بنیں تو مرغزار کالج کے ایک مشاعرے کے بعد انھوں نے بڑے شاعرانہ انداز میں تقریر کی۔ کھانے کے دوارن، میں نے میڈم سے کہا آپ کے اس فن کا تو مجھے پہلے پتا نہیں تھا۔ آج تو مجھے یوں لگا جیسے شاہین مفتی آپ کے اندر بول رہی تھیں۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگیں آخر وہ میری استاد ہیں اور استاد کا اثر شاگرد پر لازمی ہوتا ہے۔

میڈم اپنے سٹاف کے ساتھ قدرے سخت تھیں۔ ان سے ڈسپلن کی خلاف ورزی برداشت نہیں ہوتی تھی۔ طلبہ کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند رہتیں۔ سٹاف میٹنگ کے دوران، سٹاف روم میں آکر دسمبر ٹیسٹ میں فیل ہونے والے طلبہ کے رول نمبر سامنے رکھ لیتیں اور ان کے فیل ہونے کے اسباب سٹاف سے دریافت کرتیں، اس کام میں بعض اوقات بڑی دیر ہو جاتی۔ اس لیے سٹاف کی جن خواتین نے گھر جاکر ہانڈی روٹی کا بندوبست کرنا ہوتا۔ اس دن ان کے گھر والے بازار سے کھانا لا کر کھاتے۔ ہمارے گھر میں ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔ جب بیگم آتی تو کہتی۔ آپ گھر میں بریانیاں کھاتے ہیں اور ہم کالج میں سہمے میڈم کی تقریر پھانکتے ہیں۔

میں بیگم سے اکثر مسکراتے ہوئے کہتا۔ میڈم کا بہت بہت شکریہ کہ انھوں نے آپ کو آج کالج روکے رکھا اور ہمیں کھانے کو آج بریانی مل گئی ورنہ آپ نے تو ہمیں آج بھی رات کے بچے ہوئے آلو بینگن ہی کھلانا تھے۔۔اس سخت مزاجی کے باوجود میڈم کو میں نے جب بھی کسی کے داخلے یا کسی کے نام کے دوبارہ اندراج کے لیے فون کیا، انھوں نے قانونی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہر مرتبہ کام کیا بلکہ فون کرکے آگاہ بھی کیا۔

 پروفیسر منیر الحق کعبی صاحب کے ساتھ میڈم کا عقیدت کا رشتہ تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میڈم شاہین مفتی کے کہنے پر کعبی صاحب، مرغزار کالج بطور ویزٹنگ پوفیسر چلے گئے میڈم شاہین مفتی کی ریٹائر منٹ کے بعد کعبی صاحب کو میں نے کہا کہ آپ اب زمیندار کالج آجائیں یہ آپ کا اپنا کالج ہے۔ کہنے لگے آپ کے کالج کی انتظامیہ نے تو مجھے چائے بھی نہیں پوچھنی۔ فرحت بہت اچھی اورعزت کرنے والی خاتون ہے۔ میں ادھر ہی ٹھیک ہوں۔ کعبی صاحب کو اللہ صحت دے۔ جب بیمار ہوئے تو انھوں نے میڈم فرحت کے حسنِ سلوک کی وجہ سے اپنی کتابوں کی مکمل لائبریری مرغزار کالج کو عطیہ کر دی۔

کچھ عرصہ پہلے جب مجھے یہ پتا چلا کہ گجرات یونیورسٹی کی انتظامیہ سے پنچاب گورنمنٹ کے اساتذہ اور ایڈمن پوسٹوں پر فائز لوگ برداشت نہیں ہورہے اور اس لیے اب وہ مرغزار کالج سے میڈم کو پرنسپل کے عہدے سے ہٹا رہے ہیں، تو بہت دکھ ہوا میڈم فرحت اور میڈم عذرا وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کالج کے ابتدائی دنوں سے آبیاری کی اور بہت بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح یو۔ او۔ جی نے گجرات کے عمائدینِ شہر کو ساتھ ملا کر اس پر قبضہ کرلیا۔ اب گجرات شہر کے اندر بچیوں کے لیے کوئی بھی پنجاب حکومت کا کالج نہیں جس کی وجہ سے بچیاں اور گجرات کی وہ فی میل پروفیسرز جو پنجاب گورنمنٹ کی ہیں۔ ان کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے کہ وہ کہاں جائیں، ان دنوں میڈم کو یہ پریشانی ضرور تھی۔ لیکن اس دکھ کا کیا کیجیے کہ اب یہ روشن اور مسکراتا ہوا چہرا ہمارے درمیان نہیں رہا۔ مجھے اکثر کہا کرتیں اپنے کالج میں مشاعرے کرواتے ہو۔ مرغزار کالج میں بھی کبھی کوئی مشاعرہ کروا دو۔۔۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ آخر ہوا کو اس خراب موسم کی ماننے کی کیا جلدی تھی کہ زندگی سے بھرپور اس پُر خلوص شخصیت کے روبرو آگئی۔ یقینا اللہ حکمت والا ہے۔

مرغزار کالج کے ابتدائی دنوں سے لے کر اپنے آخری سفر تک میڈم نے ہمیشہ مرغزار کالج کے بارے میں سوچا۔ مرغزار کالج ان کے لیے محض کالج نہیں تھا۔ گھر تھا اور سارے طلبہ بچے۔ شعبہ تعلیم کا بہت بڑا نقصان ہوگیا۔ مرغزار کالج کو انھوں نے حقیقی معنی میں مرغزار بنا دیا۔

اے ہوا دیکھ ! تیری وجہ سے ہم ایک شفیق اور مہربان سرپرست سے محروم ہوگئے۔

دیا کس کا جلا کس کا بجھا ہے

ہوا کی یہ پریشانی نہیں ہے

(منیرالحق کعبی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments