سلطنت عثمانیہ کا توپ خانہ جس نے اسے سُپر پاور بنا دیا، ترکوں کی جنگی تاریخ کے عروج و زوال کی کہانی


 

سلطنت عثمانیہ اور یہودی اور مسیحی کاریگر

ان صدیوں میں استنبول آنے والے یورپی وہاں شاہی فاؤنڈری اور اسلحہ خانے میں بڑی تعداد میں مسیحیوں کو کام کرتا دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے اور اس کے علاوہ یہودی بھی وہاں دیکھے جاتے تھے۔

اگسوتون نے سنہ 1556 میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں کیے گئے دعوے کا ذکر کیا ہے کہ ہسپانیہ سے نکالے گئے یہودیوں نے عثمانیوں کو عسکری معاملات کا علم منتقل کیا اور انھیں کانسی کے عسکری آلات اور ’فائر لاک‘ کے بارے میں بہت کچھ بتایا۔

اگوستون نے لکھا ہے کہ یہودیوں کی عثمانی سلطنت کے لیے عسکری خدمات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے سے بچنا چاہیے لیکن ساتھ ہی عثمانی اور یہودی ستاویزات کی روشنی میں ان کی مدد سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ’استنبول کے شاہی توپ خانوں کے سنہ 1517-1518 کے کھاتوں میں یہودی کاریگروں (آہنگران یہودیاں) کا ذکر ہے۔

لیکن اس زمانے میں مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا مختلف حکمرانوں اور سلطنتوں کے لیے کام کرنا انوکھی بات نہیں تھی۔ سیووئے کے ایک مسافر جیروم موراند نے سنہ 1544 میں لکھا کہ انھوں نے استنبول کی فاٰؤنڈری میں 40 سے 50 جرمن دیکھے جو سلطان کے لیے توپیں بنا رہے تھے۔

اسی طرح استنبول میں فرانس کے سفیر نے سنہ 1547-1548 میں لکھا کہ وہاں کئی فرانسیسی، ہسپانوی، وینس، جنووا اور سسلی کے ماہرین کام کر رہے رہے تھے۔

تاہم یہاں بھی مؤرخ غیر ملکیوں کی اہمیت میں مبالغہ آرائی سے محتاط رہنے کے لیے کہتے ہیں۔ اگوستون بتاتے ہیں کہ 15ویں صدی کے وسط میں سلطنت عثمانیہ کے یورپی قلعوں میں مسیحیوں کے ساتھ ترک ’تفنچی‘ اور ’توپچو‘ (توپچی) بھی کام کرتے تھے اور 16ویں صدی تک ان کی تعداد مسیحی کاریگروں سے بڑھ چکی تھی۔

کاریگر نہ ہونے کی وجہ سے ہسپانیہ کی توپ بنانے کی فیکٹریوں میں کام رک گیا

لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صرف سلطنت عثمانیہ ہی غیر ملکی کاریگروں سے فائدہ نھیں اٹھا رہی تھی۔ اگوستون نے اپنی کتاب میں اس ضمن میں کئی مثالیں دی ہیں جیسا کہ ہنگری کے توپ خانے میں کام کرنے ولے زیادہ تر جرمن ہوا کرتے تھے اور اس کے علاوہ کچھ اطالوی بھی وہاں تھے۔

اسی طرح انھوں نے وینس کی مثال دی ہے کہ وہاں 16ویں صدی کی پہلی دہائی تک جرمن توپیں تیار کرنے کا کام کرتے تھے اور یہ صورتحال اس صدی کے وسط تک قائم رہی جب وینس نے اپنا ’گنرز سکول‘ بنا لیا۔

اس ضمن میں ایک دلچسپ مثال ہسپانیہ کی ہے جس کے پاس اگوستون نے بتایا کہ 16ویں میں توپیں بنانے کے لیے اپنے کاریگر نھیں تھے اور بادشاہوں کو بار بار جرمن، اطالوی اور فلیمش کاریگر بھرتی کرنے پڑے تھے۔ ایک بار تو سنہ 1575 میں کاریگروں کی عدم دستیابی کی صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ تاریخ بتاتی ہے کہ مالاگا کی فاؤنڈری کو بند کرنا پڑا۔

اس واقعے کا ایک اور اپم پہلو یہ کہ جب جرمنی سے کاریگر منگوائے گئے تو معلوم ہوا کہ ان کا تعلق پروٹسٹنٹ فرقے سے ہے اور ہسپانیہ سرکاری طور پر کیتھولک ملک تھا۔ کاریگروں کو گرفتار کر لیا گیا اور ’فاؤنڈری میں کام انژبرگ سے کیتھولک کاریگروں کے آنے کے بعد ہی شروع ہو سکا۔‘ یہ واقعہ سلطنت عثمانیہ اور اس کی ہم عصر یورپی طاقتوں کی مذہبی پالیسی میں واضح فرق کی ایک مثال بھی ہے۔

اگسوتون بتاتے ہیں کہ یہی صورتحال پرتگال کی بھی تھی جو اس زمانے میں ایک بڑی عالمی طاقت تھی اور نئے ہتھیاروں کو افریقہ اور ایشیا تک پہنچانے میں اس کا اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔ ’اس کا اپنا بہت زیادہ انحصار غیرملکی ٹیکنالوجی اور درآمد کردہ اسلحے پر تھا۔‘

روس کو توپیں بنانا کس نے سکھایا؟

اسی طرح کی مثالیں تاریخ میں روس اور فرانس میں بھی ملتی ہیں۔

اگوستون لکھتے ہیں کہ روس میں اسلحے کی مشہور تلا فیکٹری ہالینڈ کے ایک باشندے آندریز وینیس نے کھڑی کی تھی اور سنہ 1647 تک وہی اس کے ذمہ دار تھے اور انھوں نے معاہدے کے مطابق اس دوران روسی کاریگروں کو ٹریننگ بھی دی۔ ان کا کنٹریکٹ ہونے کے بعد روس نے خود اس فیکٹری کو چلانے کی ناکام کوشش کی اور سنہ 1648 میں انھیں آندریز کو 20 سال کے لیے پھر واپس بلانا پڑا۔

اگسوتون لکھتے ہیں کہ نئی ٹیکنالوجی کے معاملے میں اس وقی باقی ممالک سے زیادہ ترقی یافتہ ملک کو انگلینڈ کو بھی بیرونی امداد کی ضرورت رہتی تھی اور اس کی بالادستی میں فرانسیسی لوہاروں اور توپچیوں کا اہم کردار تھا۔

ویانا کا محاصرہ

عثمانیوں نے دو بار ویانا کا محاصرہ کیا لیکن وہ شہر کو فتح کرنے میں ناکام رہے

ترک بمبارڈ توپیں

استاد اوربان کی توپ ان توپوں کے زمرے میں آتی ہے جنھیں بمبارڈ کہا جاتا تھا۔

کتاب ’گنز فار دی سلطان‘ میں تفصیل دی گئی ہے کہ ان میں سے سب سے بڑی توپوں کا قطر 50 سے 80 سینٹی میٹر اور وزن چھ ہزار سے 16 ہزار کلوگرام تھا اور ان سے فائر ہونے والے گولوں کا وزن 150 سے 700 کلوگرام تک ہوتا تھا۔ یورپ میں ان توپوں کو 16 ویں صدی کے آغاز میں ترک کر دیا گیا لیکن سلطنت عثمانیہ میں کچھ ایسی توپیں سنہ 1510 اور اس کے بعد بھی بنتی رہیں۔

ان توپوں کو تیار کرنے کے لیے ’جماعت توپچیان آہنگران‘ کے نام سے لوہاروں کا خصوصی گروپ کام کرتا تھا اور سنہ 1490 سے سنہ 1527 تک ان کی تعداد آٹھ سے 29 کے درمیان تھی۔

اگوستون نے بتایا کہ سنہ 1517-1518 میں مسلمان اور یہودی لوہاروں نے ڈھلے ہوئے لوہے کی 22 توپیں تیار کیں جن میں سے چار بڑی توپوں کی لمبائی 714 سینٹی میٹر تھی اور نو کی لمبائی 558 سینٹی میٹر اور نو چھوٹی توپوں کی اوسط لمبائی 491 سینٹی میٹر تھی۔

یہ توپیں 6210 کلوگرام اوسط وزن کے ساتھ یورپ میں وزنی ترین توپوں میں شامل تھیں۔ ہیپسبرگ سلطنت کے حکمران میکسملین اول (1493-1519) کی سب سے بڑی بمبارڈ توپ کا وزن 5600 سے 7280 کلوگرام تھا۔

تاہم استاد اوربان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عثمانی ماہرین نے 15ویں صدی میں دو دیو ہیکل توپیں تیار کیں۔ سلطان محمد دوم کے لیے سنہ 1467 میں تیار ہونے والی ایک کانسی کی توپ کا وزن 17500 کلوگرام تھا۔ اسی طرح کی 15ویں صدی میں بنی ایک 18 ٹن سے زیادہ وزنی توپ سنہ 1867 میں سلطان عبدالعزیز نے ملکہ وکٹوریہ کو تحفے میں بھی دی تھی۔

اگوستون لکھتے ہیں کہ ان توپوں کے سائز کی وجہ سے ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا مشکل ہو جاتا تھا۔ اس مسئلے کا حل یہ تھا کہ ان توپوں کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال اونٹوں اور دوسرے جانوروں پر لاد کر محاصرے کی جگہ پہنچایا جاتا تھا اور وہیں توپ تیار ہوتی تھی۔

ان بڑی بڑی بمبارڈ توپوں نے بازنطین، بلقان اور ہنگری کے کئی قلعے فتح کرنے میں عثمانیوں کی مدد کی۔ تاہم مؤرخین زور دیتے ہیں کہ صرف ان توپوں کے سر پر جنگ نہیں جیتی جا سکتی اور عثمانی تاریخ سے اس کی ایک بڑی مثال قسطنطنیہ کی فتح کے 13 سال بعد سلطان محمد دوم کی طرف سے سنہ 1456 میں بلغراد کا محاصرہ تھا۔

سلطان محمد کی 22 بمبارڈ توپوں نے ایک عینی شاہد کے مطابق قلعے کو برابر کر دیا تھا لیکن پھر بھی قلعے کا دفاع کرنے والوں کو بروقت اور موثر امداد ملنے کی وجہ سے عثمانی اس وقت بلغراد فتح نہیں کر سکے تھے۔

اگوستون لکھتے ہیں کہ عثمانی توپچیوں کی یورپیوں پر برتری کا ثبوت وہ رفتار ہے جس سے یورپ میں قلعے یک بعد دیگرے ان کے قبضے میں آئے۔ مثلاً سنہ 1521 اور 1566 کے درمیان ہنگری کی صرف 13 گیریزن دس دن اور صرف نو قلعے بیس روز سے زیادہ عثمانیوں کے محاصرے کے سامنے کھڑے ہو سکے تھے۔

انھوں نے اس زمانے کے عثمانی مؤرخ ابراہیم پیجوی، جنھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ہنگری کے سرحدی علاقوں میں گزارا، کا حوالہ دیتے ہوئے ایک محاصرے کی تفصیل بتائی ہے۔ ’پہلے انھوں (محمد پاشا) نے تمام توپوں کو ایک ساتھ ایک ہی جگہ پر نشانہ لگانے کا حکم دیا۔ پھر ایک ایک کر کے اسی مقام کو نشانہ بنایا گیا۔‘

پیجوی لکھتے ہیں کہ محمد پاشا نے یہ تکنیک سنہ 1595 میں استرگون کے محاصرے کے دوران مسیحیوں سے سیکھی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp