سلطنت عثمانیہ کا توپ خانہ جس نے اسے سُپر پاور بنا دیا، ترکوں کی جنگی تاریخ کے عروج و زوال کی کہانی


genghis khan chengiz
چنگیز خان: ’منگول سنہ 1230 کی دہائی سے ہی بارود اور اس سے متعلقہ آلات کے بارے میں جانتے تھے اور 13 ویں صدی کے وسط سے انھیں کے ذریعے یہ معلومات وسطی ایشیا، ایران، عراق اور شام پہنچیں‘

بارود اور آتشیں اسلحے کے زمانے میں بہادر آدمی کا کیا کام؟

آتشیں اسلحے کو متعارف کروانے کے راستے میں صرف وسائل حائل نہیں تھے اور اس کی ایک اہم مثال اس جنگ کی ہے جس میں 500 مسیحی فوجیوں نے 2500 عثمانی فوجیوں شکست دے دی۔

جب عثمانی کمانڈر سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے سلطنت کے وزیر اعظم رستم پاشا کو جواب دیا کہ ’آپ معاملے کو سمجھ نھیں پا رہے۔ آپ نے سنا نہیں کہ ہم آتشیں اسلحے سے ہارے ہیں۔ یہ فائر تھا جس سے ہم ہارے، نہ کہ جرات کی کمی کی وجہ سے۔ اگر وہ ہم سے بہادر مردوں کی طرح لڑتے تو نتیجہ بہت مختلف ہوتا۔‘

سلطنت عثمانیہ کے اس کمانڈر کا جواب اس وقت تمام بڑی طاقتوں ہسپانیہ، اٹلی، سفوی سلطنت، فرانس جرمنی اور انگلینڈ کی فوجی اشرافیہ خاص طور پر ’نائٹس‘ کے جذبات کی بھی ترجمانی کرتا تھا۔

بارود یورپ اور پھر سلطنت عثمانیہ تک کیسے پہنچا؟

اگوستون لکھتے ہیں کہ بارود پہلی بار ساتویں یا آٹھویں صدی میں چین میں بنایا گیا تھا اور باقاعدہ آتشین اسلحہ وہاں پر سنہ 1280 کے بعد بننا شروع ہوا۔ 14ویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں یورپ کے جنگ کے میدانوں اور محاصروں میں یہ ہتھیار استعمال ہونے لگے تھے۔

یاد رہے کہ 14ویں صدی کے آغاز میں ابھی سلطنت عثمانیہ وجود میں نہیں آئی تھی اور ان کی ریاست ابھی علاقائی طاقت ہی تھی۔

مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس صدی کے وسط تک یہ ہتھیار ہنگری اور بلقان کے علاقوں میں پہنچا اور سنہ 1380 کی دہائی میں عثمانی بھی ان سے واقف ہو چکے تھے۔

انھوں نے دو ترک مؤرخین کا حوالہ دیا ہے جن میں سے ایک کے مطابق عثمانیوں نے پہلی بار سنہ 1389 میں کوسوو کی جنگ میں توپوں کا استعمال کیا اور انھوں نے حیدر نامی توپچی کا بی ذکر کیا ہے جبکہ دوسری جگہ پر کہا گیا ہے انھیں سنہ 1364 سے توپیں تیار کرنا آتی تھیں جنھیں انھوں نے پہلی بار سنہ 1386 میں استعمال کیا۔

اگوستون لکھتے ہیں کہ اصل سوال یہ نہیں کہ پہلا آتشیں ہتھیار کب تیار ہوا بلکہ یہ کہ اس کا مؤثر استعمال کب شروع ہوا اور یہ پیشرفت 15ویں صدی کے وسط میں ہوئی۔

وہ لکھتے ہیں کہ نئے ہتھیاروں کا استعمال آہستہ آہستہ عام ہوا۔ آتشیں اسلحے کا حصول، اس کے لیے بارود کی فراہمی، اس کے استعمال کے لیے خصوصی دستے قائم کرنا ایک ایسا چیلنج تھا جس کے لیے سب ریاستیں تیار نہیں تھیں لیکن عثمانیوں نے اپنی عملیت پسندی اور سماجی ڈھانچے میں لچک کی وجہ سے اس میں کمال مہارت دکھائی۔

عثمانیوں کی طرف سے سب سے اہم پیشرفت تنخواہ دار انفنٹری کے طور پر جانیسری دستوں اور آتشیں اسلحے کی تیاری اور استعمال کے لیے خصوصی دستوں کا قیام تھا۔

اگوستون لکھتے ہیں کہ ایشیا میں بارود کے بارے میں معلومات چینیوں کے ساتھ تجارت یا براہ راست رابطوں کے ذریعے پہنچیں۔ ’منگول سنہ 1230 کی دہائی سے ہی بارود اور اس سے متعلقہ آلات کے بارے میں جانتے تھے اور 13 ویں صدی کے وسط میں انھیں کے ذریعے یہ معلومات وسطی ایشیا، ایران، عراق اور شام پہنچیں۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ تیمور لنگ کے بیٹے شاہ رخ کے دور میں (1405-1447) ان کی سلطنت میں، جو ایران کے کچھ حصوں، دریائے آکسس کے علاقے، آذربائجان اور افغانستان کے کچھ علاقوں تک پھیلی تھی، نہ صرف بارود کے بارے میں لوگوں کو علم تھا بلکہ یہاں آتشیں اسلحہ تیار بھی ہو رہا تھا۔

وہیں پر ’سنہ 1434 -1435 میں فرخ نامی ایک مستری نے ایک توپ تیار کی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے کم سے کم 320 کلوگرام وزنی گولے فائر ہوتے تھے۔‘

آتشیں اسلحے اور بارود نے دنیا کیسے بدلی؟

اگوستون لکھتے ہیں کہ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آتشیں اسلحے کی اہمیت کا احساس سب سے زیادہ یورپ میں تھا اور وہیں پر اس ہتھیار کو وہ زندگی ملی جس سے اس نے آنے والی ’صدیوں میں منظم تشدد کی شکل بدل دی۔‘

آتشیں اسلحے کی آمد اور اس کے وسیع پیمانے پر استعمال نے ریاستوں اور بڑی سلطنتوں کے جنگ کرنے کے طریقے بالکل بدل دیے۔ ’اب عسکری اعتبار سے مقابلے میں رہنے کے لیے ریاستوں کو توپیں، توپوں کا مقابلہ کرنے والے قلعے، بندوقوں سے لیس انفنٹری اور توپوں سے مسلح جہازوں والی نیوی ضروری ہو گئی تھی۔‘

بارود کا زمانہ کم سے کم یورپ میں وہ زمانہ تھا جہاں میدانوں کی بجائے جنگ زیادہ تر محاصرے کا نام تھا۔ توپ خانہ اور بارود محاصروں میں کامیابی اور ہنگری، ہیپسبرگ، وینس اور سفویوں جیسے مخالفین کے سامنے سلطنت کے دفاع کے لیے بہت ضروری تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ کئی یورپی مؤرخین کے نزدیک قرون وسطی کی دو بڑی ایجادیں بارود اور پرنٹنگ تھیں۔

انھوں نے لکھا کہ کیونکہ توپ خانہ رکھنے اور توپوں سے محفوظ قلعے بنانے کی طاقت صرف بادشاہوں کے پاس ہی ہو سکتی تھی، اسی لیے اس ایجاد کے بعد طاقت کے چھوٹے چھوٹے مراکز کا قائم رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ تاہم ایسے مؤرخ بھی ہیں جن کے نزدیک اس دور کی تبدیلیاں صرف بارود کی وجہ سے نہیں تھیں اور بارود کی اہمیت کے بارے میں بحث آج تک جاری ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ 14ویں اور 15ویں صدی کے عثمانی سلطانوں کی عملیت پسندی نے نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے اور آتشیں اسلحے کی مستقل بنیادوں پر پیداوار کے لیے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل کو آسان بنا دیا تھا۔ بحیرہ روم، ہنگری اور بازنطینی سلطنت کے مضبوط قلعوں نے انھیں مجبور کیا کہ وہ اپنی جنگی حکمت عملی بدلیں اور نئے اسلحے کو اپنائیں۔

’یورپ میں آتشیں اسلحے کی ٹیکنالوجی میں 18ویں صدی کے اختتام تک کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آئی اور اس دوران یورپی ٹیکنالوجی کے حصول اور عثمانیوں کی لاجسٹک میں برتری کی مدد سے ان کے لیے یورپ کا مقابلہ کرنا مشکل نھیں تھا۔‘

عثمانی آرٹلری اور سلطنت میں معدنی ذخائر

انھوں نے لکھا کہ 16ویں صدی سے 18ویں تک عثمانیوں نے ہر سائز کی توپ استعمال کی جس میں 30 سے 500 گرام کے گولے پھینکنے والی توپوں سے لے کر 31 سے 74 کلوگرام کے گولے پھینکنے والی توپیں شامل ہیں۔

تاہم 15ویں اور 16ویں صدی میں 100 کلوگرام سے زیادہ وزن کے گولے پھینکنے والی ’بمبارڈ‘ بھی ان کے توپ خانے کا حصہ تھیں۔ عثمانی دستاویزات میں 15 سے 20 کلوگرام کے گولے داغنے والی توپوں کی ایک قسم کے لیے ’قلعہ کوب‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ عثمانی اسلحے میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی توپ ’دربزین‘ کے گولوں کا وزن اعشاریہ 15 سے ڈھائی کلوگرام تک تھا۔

اگوستون لکھتے ہیں کہ عثمانی اور ان کی مخالف سلطنتوں کے ہتھیاروں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ 16ویں اور 17ویں صدی میں عثمانی اپنی بڑی اور درمیانی سائز کی توپیں کانسی سے بنا رہے تھے جو آسٹریا، ہسپانیہ اور انگلش توپوں کے مقابلے میں ہلکی اور زیادہ محفوظ تھیں۔

عثمانی سلطنت کی حدود میں کاپر بڑی مقدار میں موجود تھا۔ 16 ویں اور 17ویں صدیوں میں سلطنت پیتل، لوہے، لیڈ کی پیداوار میں خود کفیل تھی اور اسے صرف ٹین باہر سے منگوانا پڑتا تھا۔

’16 ویں، 17 ویں اور 18ویں صدی میں جب سلطنت عثمانیہ کی حکمرانی یورپ میں بدا(ہنگری) سے ایشیا میں بسرا تک پھیلی تھی اس کے تقریباً ہر بڑے صوبے میں بارود تیار کیا جاتا تھا۔‘ تاہم 18ویں صدی کے وسط سے اس پیداوار میں کمی آنا شروع ہوئی اور اس کے بعد سلطنت میں یورپ سے بارود کی درآمد میں اضافہ ہو گیا۔ تاہم از سر نو تنظیم سازی نے کچھ عرصے بعد پھر اسے خود کفیل بنا دیا تھا۔

’ہم آتشیں اسلحے سے ہارے ہیں۔ یہ فائر تھا جس سے ہم ہارے، نہ کہ جرات کی کمی۔ اگر وہ ہم سے بہادر مردوں کی طرح لڑتے تو نتیجہ بہت مختلف ہوتا‘

قرون وسطیٰ اور بارود کی اہمیت

کتاب ’گنز فار دی سلطان‘ میں وزیر اعظم حسن پاشا کی سنہ 1603 کی سلطان کے نام التجا درج ہے جو کچھ ہوں ہے ’میرے محترم بادشاہ، جیسا کہ عظیم آقا کو معلوم ہے کہ سلطانوں کی مہمات کی اصل طاقت بارود ہے۔ بارود کے بغیر جنگ ناممکن ہے۔ بارود دوسری چیزوں کی طرح نہیں۔۔۔ جہاں بارود کی کمی ہوتی ہے وہاں سونے کے سکوں کا سمندر بھی بارود کی جگہ نہیں لے سکتا۔ قلعوں کا دفاع اور جنگی مہمات بارود کی مدد سے ہی ہوتی ہیں۔‘

اگوسٹن نے مختلف تاریخی حوالوں سے بتایا ہے کہ وینس کی سینیٹ کے جون 16 سنہ 1489 کے منٹس میں درج ہے کہ ’اس اسلحے اور آرٹلری کے بغیر کسی ریاست کو بچایا جا سکتا ہے، نہ ہی اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے اور نہ دشمن پر حملہ۔‘

سلطنت عثمانیہ میں قلمی شورے اور بارود کی پیداوار

قلمی شورہ ان اجزا میں سے ایک ہے جو بارود کی پیداوار میں استعمال ہوتے ہیں۔ کسی بھی بڑی سلطنت کے لیے آتشیں اسلحے کے دور میں بارود کی پیداوار میں استعمال ہونے والی اشیا کی فراہمی اپنی عسکری بالادستی قائم رکھنے کے لیے اہم تھی۔

اگوستون نے لکھا ہے کہ سلطنت عثمانیہ اپنے مخالفین کی بانسبت قلمی شورے کی پیداوار میں خودکفیل تھی۔ سلطنت نے مختلف علاقوں میں اس کے لیے کچھ پلانٹ قائم کر رکھے تھے جن کا انتظام اشرافیہ کے کچھ لوگوں یا پھر سرکاری اہلکاروں کے ہاتھ میں تھا۔

بعض علاقوں میں قلمی شورے کی پیداوار سینکڑوں کی تعداد میں دیہات کو سونپی گئی تھی جنھیں اس خدمت کے بدلے ٹیکس میں چھوٹ ملتی تھی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ یورپ کی سلطنتوں میں بھی اسی طرح کے انتظامات کیے گئے تھے۔

’سلطنت قلمی شورے اور بارود کی پیداوار میں 17ویں صدی کے آخر تک خود کفیل تھی جب بارود کی سالانہ ضرورت کا اندازہ 540 میٹرک ٹن تھا۔‘ تاہم انھوں نے بتایا کہ قلمی شورے میں خود کفالت بارود کی پیداوار کا صرف ایک حصہ تھا اور اس کی عسکری ضروریات کے مطابق پیداوار ایک الگ چیلنج تھا۔

جب سلطنت عثمانیہ کو سویڈن، انگلینڈ اور ہسپانیہ سے بارود خریدنا پڑا

تاریخی دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ عثمانی 18ویں صدی میں کافی دیر تک بارود کی پیداوار میں خود کفیل تھے۔ انھیں روس کے ساتھ سنہ 1768-74 کی جنگ میں پہلی بار بارود کی کمی کی وجہ سے آپریشنل مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

’17ویں صدی میں عثمانی 761-1037 میٹرک ٹن بارود تیار کر سکتے تھے لیکن 18ویں صدی کے دوسرے نصف میں یہ مقدار کم ہو کر 169 میٹرک ٹن رہ گئی تھی۔‘

اگوستون مختلف ذرائع کے حوالے بتاتے ہیں کہ سنہ 1770 کی دہائی کے آخر میں سلطنت کو ضرورت کا 50 فیصد بارود یورپ سے حاصل کرنا پڑا۔۔۔۔سنہ 1778 میں 84600 کلوگرام بارود سویڈن سے حاصل کیا گیا۔۔۔۔ پھر سنہ 1782 میں 95485 کلوگرام بارود اسی ذریعے سے آیا۔۔۔سنہ 1783 میں 39198 کلوگرام بارود انگلینڈ سے آیا۔۔۔۔ اور اسی سال باہر سے بارود کی سب سے زیادہ مقدار جو 133386 کلوگرام تھی ہسپانیہ سے آئی تھی۔‘

یہ معاملات سلطان سلیم سوم (1789-1807) تک پہنچے جنھوں نے اس صورتحال کے سدباب کے لیے اقدامات کا اعلان کیا۔ ان اقدامات میں پانی کی طاقت سے چلنی والی فیکٹریوں کا قیام بھی شامل تھا۔ بارود کی فیکٹری کے ساتھ پانی کا تلاب بھی بنایا گیا تاکہ آگ لگنے کی صورت میں فوری طور پر بجھائی جا سکے۔

18ویں صدی کے اختتام میں ایک عثمانی اہلکار محمود آفندی نے کہا ’ہمارا غیر ملکی بارود پر انحصار ختم ہو گیا ہے، ہمارے گودام بھرے ہوئے ہیں، اور فوجی مہمات کے لیے بھی ہمارے پاس کافی ہے، ہم نے تو اسے برآمد بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔‘

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp